برماوی مسلمانوں کی لاشوں پر امریکی سیاست

1948ء میں برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد میانمار (برما)حکومت نے بتدریج انڈیا اور بنگلہ دیش سے آئے ہوئے ان لوگوں کو غیر قانونی شہری ڈکلیئر کرنا شروع کر دیا اور اسی بنیاد پر 1982ء میں اُنھیں میانمار کی شہریت سے محروم کر دیا ، 1982ء کے سٹیزن شپ قانون لاگو ہونے کے بعد روہنگیا مسلمانوں کی اکثریت تعلیم، صحت، روزگار، سفری، ازدواجی، سیاسی اور مذہبی حقوق سے محروم کر دی گئی۔ روہنگیاتحریک سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ روہنگیا میانمار کے مقامی لوگ تھے جو بعدازاں مسلمان ہو گئے، کچھ روہنگیا اپنا تعلق صدیوں پہلے برصغیر میں آباد ہونے والے عرب تاجروں سے بھی جوڑتے ہیں جبکہ میانمار حکومت کا مؤقف ہے کہ روہنگیامسلمان وہ بنگالی آبادکارہیں جو گوروں کے دور میں وہاں آباد ہوئے تھے اور اسی بناء پر میانمار حکومت اُنھیں واپس بنگلہ دیش بھیجنے کی پالیسی کی حمایت کرتی ہے، مگر کچھ بھی ہو انسانی حقوق کیلئے جدوجہد پر نوبل انعام لینے والی آنگ سان سوچی کی حکومت میں اس قدر انسانیت کی تذلیل ایک لمحہ فکریہ ہے جسے دیکھ اور سن کر سینے میں دل رکھنے والے انسان کی روح تڑپ جاتی ہے۔ مسلمان ہونا تو ان کا مذہب ہے لیکن اس سے پہلے وہ انسان ہیں، انسانوں کے ساتھ جس سفاکی اور درندگی کا مظاہرہ دیکھنے کو آرہا ہے میانمار کے زوال اور اﷲ کے عذاب سے اُسے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ یہ صرف برماوی مسلمانوں کو تہہ تیغ نہیں کیا جا رہا بلکہ برما خود ایک بڑی سازش کا شکار ہو رہا ہے جو بھی اس سازش کا حصہ ہے اُس کی تباہی یقینی ہے کیونکہ ان روہنگیائی مسلمانوں کیلئے دعا مدینہ اور مکہ کے حرمین میں ہو رہی ہے۔ معاملات تہہ تک جانے سے پتہ چلتا ہے کہ یہودو ہنود دنیا کے وسائل پر قبضہ جمانے کیلئے سازشوں کے تانے بانے بن کر وحشت و بربریت کی کیسی داستانیں رقم کررہے ہیں۔

میانمار یا برما ساڑھے5کروڑ آبادی والا ملک ہے جسکی سرحدیں چین، انڈیا، بنگلہ دیش، تھائی لینڈ اور لاس سے ملتی ہیں۔ اس کے ایک طرف سمندر ہے۔میانمار اپنی 5 لاکھ فوج کے ساتھ دنیا کی 12ویں بڑی فوجی قوت ہے جسکی ایک تگڑی بحریہ اور ائر فورس بھی ہے۔ میانمار میں مسلمانوں کی کل تعداد 20 لاکھ سے اوپر ہے جس میں 13 لاکھ روہنگیامسلمان ہیں۔ روہنگیاکسی جگہ کا نہیں بلکہ ایک نسل کا نام ہے۔ اس نسل کی اکثریت مسلمان اور تھوڑے سے ہندو ہیں۔ برما کے صوبے آراکان میں تقریبا 13 لاکھ روہنگیامسلمان آباد ہیں۔ آراکان میں آباد راخائن نسل کے لوگوں کو یہ خطرہ ہے کہ روہنگیامسلمان ان پر اکثریت حاصل کر لینگے اس لیے وہ ان سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ راخائن کا تعلق بدھ مذہب سے ہے۔ آراکان صوبے میں انکی آبادی روہنگیامسلمانوں کے برابر ہے۔ دونوں میں کئی عشروں سے تناؤ کی سی کیفیت ہے اور ہلکی پھلکی جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔

1962ء سے 2011ء تک برما پر فوجی حکومت رہی اور حالات کنٹرول میں رہے۔ لیکن 2012ء میں جیسے ہی ملک کا تمام نظام نو منتخب جمہوری حکومت نے سنبھالا روہنگیامسلمانوں اور راخائن بدھوں کے درمیان فسادات پھوٹ پڑے،کہا جاتا ہے کہ3روہنگیامسلمانوں نے ایک راخائن عورت کا ریپ کر کے اس کو قتل کر دیا، جواباً راخائن نے مسلمانوں پر حملہ کر کے 10مسلمان قتل کردئیے۔ تاہم کچھ دیگر ذرائع کے مطابق مسلمانوں کے کئی گاؤں تباہ کیے گئے، 650کے قریب مسلمانوں کو قتل کیا گیا جبکہ 80ہزار بے گھر ہوئے۔ حکومت نے کرفیو لگا کر آراکان صوبے کا کنٹرول فوج کے حوالے کر دیا۔ جس سے فسادات تو کم ہوگئے لیکن مسلمانوں پر زندگی سخت ہوگئی اور بڑے پیمانے پر روہنگیامسلمانوں کی گرفتاریاں شروع ہوگئیں۔ حالات مزید خراب ہوئے تو روہنگیامسلمان علاقہ چھوڑنے لگے۔ 2016ء تک کم از کم 1 لاکھ روہنگیاکشتیوں کے ذریعے مختلف ملکوں میں پناہ لے چکے تھے جن میں ملائیشیا، آسٹریلیا اور تھائی لینڈ شامل ہیں۔ ان سفروں میں مختلف حادثات میں کئی سو لوگ سمندر میں ڈوب گئے۔جولائی 2017 تک کم از کم 73 ہزار روہنگیامسلمانوں نے کسی نہ کسی طرح بنگلہ دیش کی سرحد عبور کر کے وہاں پناہ لے لی۔ اس وقت 4 لاکھ کے قریب روہنگیامسلمان دنیا کے مختلف ملکوں میں پناہ گزین ہیں۔ لیکن پچھلے ایک ہفتے سے روہنگیاکے مسلمانوں پر قیامت ٹوٹی ہوئی ہے۔ امریکن نیوز ایجنسیوں کے مطابق راخائن ملیشیا اور برمی فوج ملکر مسلمانوں کے خلاف آپریشن کر رہی ہیں جس میں اب تک کم از کم 400 مسلمانوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ جبکہ ان کے 2600 گھر جلائے گئے ہیں۔ صرف ایک ہفتے میں 73000مزید مسلمانوں نے بنگلہ دیش میں پناہ لی ہے۔ یہ بھی خدشہ ہے کہ مرنے والوں کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے جبکہ اسی دوران کم از کم 26 مختلف چوکیوں پر مسلمانوں کے حملے میں درجنوں سیکورٹی اہلکار بھی ہلاک ہوئے ہیں۔

ترکی 5سالوں میں اب تک 70 ملین ڈالر کی امداد روہنگیامسلمانوں کے لیے بھیج چکا ہے۔ طیب رجب اردگان نے اعلان کیا ہے کہ بنگلہ دیش اگر روہنگیامسلمانوں کو پناہ دے دے تو وہ انکا خرچ اٹھانے کے لیے تیار ہے لیکن بنگلہ دیشی حکومت کے مطابق انہیں ابھی تک پناہ گزینوں کے لیے کہیں سے کوئی امداد نہیں ملی۔ یہ جھوٹ ہے کہ بنگلہ دیش روہنگیامسلمانوں کو مکمل طور پر دھتکار چکا ہے۔ 1978ء میں بذریعہ طاقت 2 لاکھ روہنگیامسلمانوں کو بنگلہ دیش بدر کیا گیا تھا۔ 2012ء سے اب تک 1 لاکھ 40ہزار روہنگیامسلمان بھاگ کر بنگلہ دیش میں پناہ لے چکے ہیں یوں وہاں پناہ گزینوں کی تعداد ساڑھے 3 لاکھ کے قریب ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے معاملے کی رسمی مذمت کی ہے، پاکستان اس معاملے میں کیا کر سکتا ہے اس پر آخر میں دوبارہ بات کرینگے۔ حیران کن انداز میں روہنگیامیں مسلمانوں پر ہونے پر ظلم پر اس وقت سب سے زیادہ شور امریکہ اور اس کے اتحادی مچا رہے ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ کے دباؤ پر اقوام متحدہ کی معائنہ کار ٹیم کو میانمار بھیجا گیا جس کو انہوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ 2015ء میں مختلف امریکی تنظیموں نے بیان دیا کہ روہنگیا مسلمانوں کے مکمل قتل عام کا خطرہ ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور یو ایس ڈپارٹمنٹ آف سٹیٹ کے مطابق میانمار حکومت راخائن بدھوں کا ساتھ دے رہی ہے قتل عام میں۔ میانمار حکومت نے الزام لگایا ہے کہ روہنگیامسلمانوں نے 2300گھر جلادئیے تو انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے فوراً اسکی تردید کرتے ہوئے بیان دیا کہ سیٹیلائٹ سے لی گئی تصاویر سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آگ میانمار کی فوج نے لگائی ہے۔ اقوم متحدہ کے خصوصی نمائندے یانگ ہی لی کے مطابق میانمار کی حکومت روہنگیامسلمانوں کو مکمل طور پر ختم کر دینا چاہتی ہے۔ پوپ فرانسس نے بھی اس قتل عام کی پرزور مذمت کی ہے اور تو اور عراق، شام اور کشمیر میں لاکھوں مسلمانوں کے قتل عام پر چپ رہنے والی ملالہ بھی بول پڑی ہے اور عالمی برادری سے اپنا کردار ادا کرنے کی اپیل کی ہے ۔۔۔ کیوں ؟

برما یا میانمار تیل و گیس کے ذخائر سے مالامال ایک انتہائی اہم سٹریٹیجک لوکیشن پر واقع ہے۔ یہاں پر چین اور بھارت اپنا اثرو رسوخ بڑھانے کی تگ و دو کر رہے ہیں اور چین اپنی بے پناہ سرمایہ کاری کی بدولت بھارت پر حاوی ہے۔ میانمار میں چینی اثرورسوخ امریکہ کے لیے ناقابل برداشت ہے، امریکہ کی پوری کوشش ہے کہ اقوام متحدہ کی امن فوج کے نام پر وہ میانمار میں ڈیرے ڈال لے، یوں نہ صرف وہاں تیل و گیس کے محفوظ ذخائر سے استفادہ کر سکے بلکہ چین کی ناکہ بندی بھی کر سکے، یہ ہے اصل وجہ جس کے لیے امریکہ اور برطانیہ پاگل ہو رہے ہیں۔ آپ نوٹ کیجیے میانمار میں قائم جمہوری حکومت کی کرتا دھرتا آنگ سان سوچی کو فوجی حکومت ختم کرنے پر امریکہ نے امن کے نوبل انعام سے نوازا تھا اور اِس وقت اُسی کے حکم پر فوج روہنگیامسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔ اس وقت کئی چینی کمپنیاں میانمار میں کام کر رہی ہیں لیکن میانمار کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ چین وہاں باغیوں کو بھی سپورٹ کر رہا ہے جو میانمار فوج پر حملے کر رہے ہیں، چین اس وقت کم از کم 30ہزار روہنگیامسلمانوں کو اپنے کیمپوں میں پناہ دے چکا ہے، چین نے میانمار حکومت کو پیش کش کی ہے کہ وہ روہنگیامسلمانوں کے معاملہ پر بنگلہ دیش کیساتھ ان کے معاملات حل کر سکتا ہے لیکن میانمار حکومت نے چینی پیشکش مسترد کر دی ہے۔

پاکستان میں بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ کم از کم 2 لاکھ روہنگیامسلمان اس وقت بھی پاکستان میں مقیم ہیں جو مختلف وقتوں میں پاکستان آئے تھے۔ روہنگیامسلمانوں نے قیام پاکستان سے پہلے پاکستان میں شامل ہونے کی تحریک چلائی تھی اور ان کے لیڈر خود کو محمد علی جناح کہتے تھے، موجودہ مسئلے پر پاکستان کا ردعمل فی الحال دفتر خارجہ کے ایک بیان تک ہی محدود ہے،سوشل میڈیا پر بیٹھے کچھ ’’مجاہدین‘‘ کو پاک فوج پر تنقید کرنیکا نیا بہانہ مل گیا ہے، ان کی خواہش ہے کہ پاک فوج فوری طور پر میانمار پر حملہ کر دے ،ان کو غالباً علم ہی نہیں کہ ہماری کوئی سرحد میانمار سے نہیں ملتی، اگر فضائی حملہ کرنا چاہیں تو انڈیا اور چین اپنی فضائی حدود میانمار کے خلاف ہرگز استعمال نہیں کرنے دینگے کیونکہ دونوں نے وہاں بہت بڑی سرمایہ کاری کر رکھی ہے، نہ ہی بنگلہ دیش کو اس معاملے میں قائل کیا جا سکتا ہے جو فوجی قوت کے لحاظ سے میانمار سے بہت کمزور اور خوفزدہ ہے۔ اگر حملوں کی بات کی جائے تو پاکستان نے اب تک افغانستان پر حملہ نہیں کیا جو اپنی پراکسی کے ذریعے اب تک کم از کم 50ہزار پاکستانیوں کی جانیں لے چکا ہے، ممالک پر حملے کرنا بچوں کا کھیل نہیں ہوتا ۔۔۔میانمار کو فوجی امداد دینے والے سب سے بڑے ممالک چین، انڈیا اور روس ہیں، پاکستان کو چاہئے کہ چین، میانمار کی حکومت، بنگلہ دیش اور روس کو قائل کرے کہ اگر اس مسئلے کو حل نہیں کیا گیا تو امریکہ امن فوج کے نام پر یہاں بھی ڈیرے ڈال لے گا اور امریکہ جہاں بیٹھ جائے پھر وہاں سے مشکل سے ہی جاتا ہے، پاکستان تھائی لینڈ اور ملائیشیا جیسے ممالک سے بات کرے کہ اگر یہ ظلم بند نہ کیا گیا تو وہاں بسنے والے میانمار کے شہریوں کو واپس بھیج دیا جائیگا۔ یاد رہے کہ صرف ان دو ممالک میں کم از کم 18لاکھ کے قریب لوگ کام کرتے ہیں جنکی واپسی میانمار کی حکومت کسی بھی طرح برداشت نہیں کر سکتی اگر میانمار کی حکومت قائل نہیں ہوتی تو روس اور چین فوجی امداد بند کریں۔ پاکستان سمیت بڑے اسلامی ممالک کے سربراہان میانمار کے دورے کریں۔ کسی ریاست کے سربراہ کا دورہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ایسے دوروں کا اثر فوری طور پر نظر آئیگا۔ مجاہدین کی مدد سے وہاں روہنگیا مسلمانوں کی گوریلا جنگ سود مند نہیں رہے گی کیونکہ طاقت کا توازن بری طرح سے خلاف ہے۔ 5لاکھ باقاعدہ فوج اور لاکھوں کی راخائن ملیشیا کے مقابلے میں ایسی کسی کوشش کے نتیجے میں ان مسلمانوں پر مزید تباہی آئیگی۔ کئی دہائیوں سے جاری یہ کشمکش اگر پھر بھی ختم نہیں ہوتی تو امریکہ کی نام نہاد امن فوج کو بلانے کے بجائے دنیا کے 56 اسلامی ممالک ان 10/12 لاکھ بے وطن اور مظلوم مسلمانوں کو آپس میں تقسیم کر لیں۔ اس سے کسی کو موت نہیں پڑے گی۔خاص طور پر وسطی ایشیائی ریاستوں میں اسکی بہت گنجائش ہے۔

اب وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ مسلمان ملکوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر یہود و ہنود کی سازشوں کے خلاف پل باندھنا ہوگا۔ عراق، شام، افغانستان کی تباہی اور مسلمانوں کے وسائل پر قبضے کے بعد امریکہ عجیب و غریب بہانوں سے دوسرے ممالک میں گھسنے کی مذموم کوششیں کررہا ہے جسے روک کر مسلمانوں کو اپنے جاگنے اور سمجھ داری کا ثبوت دینا ہوگا، یہ تماشا کب تک چلے گا، نیٹو اور یو این او کے گھوڑوں پر بیٹھ کر امریکہ پوری دنیا کو تخت و تاراج کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے، اگر دنیا والوں اور خصوصاً مسلمانوں نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو پچھتانے کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہوگا۔
 

Atiq Yousuf Zia
About the Author: Atiq Yousuf Zia Read More Articles by Atiq Yousuf Zia: 30 Articles with 25346 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.