رواں سال بھی یہاں کراچی، لاہور سمیت پاکستان بھر
سیبڑی تعداد میں سیاح آ رہے ہیں ۔وہ قدرت کے نظاروں سے لطف اندوز ہوتے
ہیں۔وہ ہزاروں سال قدیم شاردہ یونیورسٹی کے کھنڈرات اور قلعے دیکھ رہے ہیں۔
آثار قدیمہ کے نواردات، بودھ اور ہندو مت مندروں کے کھنڈر ات کا نظارہ کر
رہے ہیں۔سبھی نے اس گنگا میں ہاتھ دھوئے۔اس دریاکو ہندوستان میں کشن گنگا
کے نام سے جانا جاتا ہے۔پاکستان میں اسے دریائے نیلم کہتے ہیں۔جس کا سنگھم
مظفر آباد میں جہلم سے ہوتا ہے۔بہت کم لوگ یہ جان سکے ہوں گے کہ وادی نیلم
کی اس دھرتی نے کیسے کیسے دکھ اور درد دیکھے اور سہے ہیں۔ سامنے دیکھا تو
یہ ویرانہ آنسو بہا رہا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ اس کی چیخ و پکار نیلم کی
چیختی چلاتی موجوں میں گم ہو رہی ہے۔سچ مانیں اس جدائی، اس غیر فطری تقسیم
پرمیرے آنسو بھی نیلم کی لہروں کی نذر ہو گئے۔ ایسا لگا کہ اس ماتم میں
وہاں کی ہر شے شامل تھی۔47ء کے بعد بوگنہ گاؤں کبھی پاکستان کے پاس رہا اور
کبھی بھارت کے قبضے میں چلا گیا۔یہاں تک کہ 1971کی جنگ میں اس کے دوٹکڑے ہو
گئے ۔نصف ایک طرف اور نصف دوسری پار۔ یہ دریائے نیلم یا کشن گنگاکے کنارے
پر آباد ہے۔ دریا جنگ بندی لائن ہے۔ یہ آزاد کشمیر کا آخری گاؤں نہیں۔ جہاں
آبادی ہے۔مقبوضہ جموں و کشمیر کا بھی آخری گاؤں ہے، لیکن بستی اجڑ چکی ہے۔
بوگنہ بالا ویرانہ ہے اور بوگنہ پائین میں بستی ہے۔گاؤں کے بیچوں بیچ ایک
نالہ بہتا ہے۔یہ نالہ جنگ بندی لائن ہے۔سامنے دریا اور بغل میں نالہ دو جنگ
بندی لائنیں ہیں۔ اس نالے میں اتنا پانی ہے کہ جس سے ایک چکی یا پن بجلی کی
چھوٹی ٹربائن چل سکتی ہے۔ 1990میں نصف گاؤں اجڑ گیا۔اسی نالے سے لوگ ننگے
پاؤں پاک بھارت فوجوں کی گولہ باری اور فائرنگ میں آزاد کشمیر میں داخل
ہوئے۔1990میں پاک بھارت گولہ باری اور فائرنگ کا نشانہ یہ گاؤں بھی
بنا۔بھارتی فوج نے سب سے پہلے بزرگ شہری شیخ فیروز الدین کو گولیا ں مار کر
شہید کر دیا ۔ ساری بستی کی کیمپ پر طلبی ہوئی۔لوگ کیمپ کے بجائے جنگ بندی
لائن پار کر کے آزاد کشمیر پہنچ گئے۔ جہاں وہ آج تک ہجرت کی زندگی گزار رہے
ہیں۔
مظفر آباد سے وادی نیلم میں داخل ہوتے ہی ٹیٹوال آتا ہے۔جہاں اب ایک کراسنگ
پوائینٹ ہے۔سامنے چوکی پر انڈیا کا ترنگا لہراتا ہے۔ چلہانہ سے میر پورہ تک
اور بوگنہ سے بور تک دریا ئے نیلم آزاد اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان جنگ
بندی لائن ہے۔ٹیٹوال سے گزریں تو’’ ٹیٹوال کا کتا‘‘یا د آتا ہے۔ فوری سعادت
حسن منٹو یا دآتے ہیں۔ جنھیں اس دنیا سے اٹھے 60سال گزر چکے ہیں۔ درست ہے
کہ انسان کا نام بھی اس کے کام کا محتاج ہے۔ کام سے انسان ہمیشہ یاد رہتا
ہے۔ اچھے کام اچھے نام سے یاد رکھے جاتے ہیں۔ منٹو مرحوم نے’’ ٹیٹوال کا
کتا ‘‘ افسانہ میں جنگ بندی لائن کی دونوں جانب کا نقشہ کھینچا ۔ آر پار
پرندوں کی ایک جیسی چہچہاہٹ۔ قدرت کی ہر شے یکساں، پرچم مختلف۔یہ افسانہ
1951کو لکھا گیا۔ اس میں پاک بھارت فوجوں میں فائرنگ کے تبادلے کی منظر کشی
ہے۔ 65سال بعد بھی یہی حال ہے۔ پاک بھارت فوجی کبھی ایک مقام پر اور کبھی
دوسری چوکی سے ایک دوسرے پر فائرنگ کر رہے ہیں۔ ٹیٹوال سے آگے بوگنہ
ہے۔گاؤں کا منظر بنجر اور ویران جنگل جیسا ہے۔ پہلے نالے کے قریب پاکستان
اوربھارت کی کوئی پوسٹ یا چوکی نہ تھی۔ 1990کے بعد دونوں فوجوں نے پیش قدمی
کی اور نئی چوکیاں قائم کر لیں۔ آج اس نالے پر پاک بھارت فوجوں کی چوکیاں
آمنے سامنے ہیں۔ یہ نالہ دو گاؤں کو ہی تقسیم نہیں کرتا بلکہ اس نے دلوں
اور رشتوں کو بھی تقسیم کر رکھا ہے۔ اس نے خطے کا جغرافیہ بھی بدل دیا ہے۔
یہ سچ ہے کہ انسان کے ساتھ ہی ہر شے کی رونق ہے۔ انسان اور اس کی صحت ہے تو
سب کچھ ہے۔ ہر چیز میں زندگی ہے۔ یہ زمین، مکان، کھیت کھلیان، بازار،دفاتر
، میدان ہر چیز انسان سے ہی اچھی لگتی ہے۔ ورنہ سب کچھ ویرانہ ہے۔ کیرن کے
ایک طرف جو حال بوگنہ گاؤں کا ہے۔ وہی حال کیرن کے دوسری جانب’’ بور ‘‘گاؤں
کا بھی ہے۔ نصف بور آزاد کشمیر اور نصف مقبوضہ کشمیر کا حصہ ہے۔ وادی نیلم
جانے کا جب بھی موقع ملا، بچوں کو بچوال، بوگنہ اور بور میں بستی اور دوسرے
بوگنہ اور بور کا اجڑنا سمجھا نہ سکا۔ آگ کی جلن تندور سے بہتر کوئی نہیں
جان سکتا۔ ایک جلتا ہے اور دوسرا ہاتھ سینکتا ہے۔ کسی کا گھر جلے اور کسی
کو کوئلہ ملے۔ اس کوئلے اور کانگڑی کی قدر جنوری اور فروری کی یخ بستہ
راتوں کو ہی ہو سکتی ہے۔
آج ایک بار پھر بھارت جنگ بندی لکیر پر گولہ باری کر رہا ہے۔ ایک بار پھر
غریب لوگ مر رہے ہیں۔ ان کے گھر تباہ ہو رہے ہیں۔ ان کے مال مویشی مارے جا
رہے ہیں۔ ان کے کھیت کھلیان اجڑ رہے ہیں۔ ان کے سکول ہسپتال، ویران بن رہے
ہیں۔ یہی حال 740کلو میٹر کی جنگ بندی لائن کے دونوں جانب بسنے والے عوام
کا ہے۔ وادی نیلم میں حالیہ مہینوں میں دو بڑے واقعات ہوئے۔ لوات اور لالہ
میں بھارت نے ایک مسافر کوچ اور ایک فوجی گاڑی کو نشانہ بنایا۔دیگر سیکٹر
بوگنہ اور بور گاؤں کی طرح اجڑ رہے ہیں۔ویرانے بن رہے ہیں۔ جہاں مکانات
تھے۔ وہاں جھاڑیاں اگ آئی ہیں۔بھارت سیالکوٹ کو بھی ایسے ہی ویرانے میں
تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ سرجیکل سٹرایکس کا شوشہ بھی اسی لئے چھوڑا گیا۔یہی
حال نکیال، پونچھ، راجوری میں جنگ بندی لائن کے آر پار کی بستیوں کا ہے۔
جرمنی اور فرانس کے درمیان سرحدیں مٹ گئیں۔ یورپ ایک ہو گیا۔دیوار برلن گر
گئی۔ شمالی اور جنوبی کوریا بات چیت کر رہے ہیں۔ یہ دلوں کو چیرتی ، رشتے
ناطے توڑتی مختلف ناموں سے معروف کشمیر کی جنگ بندی لکیر، ورکنگ باؤنڈری،
کنٹرول لائن، لائن آف ایکچول کنٹرول اب بھی موجود ہے۔ اس نے زمین ہی نہیں
انسانوں کے بھی ٹکڑے کر دیئے ہیں۔ اس پر لاکھوں لوگوں کی قربانی ہو چکی ہے۔
یہ خون کی پیاسی ہے۔ پتہ نہیں یہ پیاس کب بجھے گی۔ پتہ نہیں بوگنہ اور بور
جیسے گاؤں کب تک اجڑتے اور ویران ہوتے رہیں گے۔ ہم صرف سیاح ہیں۔ اس
خوبصورتی کے پیچھے درد کی داستانوں سے بے خبر ۔ یہاں بسنے والوں پر کیا
گزری، نہیں جانتے۔ سرینگر مظفر آباد چندگھنٹوں کا سفر دہلی لاہور سے کئی دن
میں طے کرتے ہیں لیکن منزل نہیں ملتی۔ کراچی، لاہور، پشاور اور علاقوں سے
آنے والے سیاح قدرت کے نظارے دیکھ سکتے ہیں۔ ان کے پیچھے چھپے درد اور لہو
سے ہونے والی ہریالی کو نہیں دیکھ سکتے۔وہ دلوں اور دیہات کو دولخت کرنے کے
درد کو محسوس نہیں کر سکتے۔ |