مسلم امہ کوصلاح الدین ایوبی کی منتظر؟ (آخری قسط)

انسانی حقوق کی تنظیموں اوراسرائیلی اخبارہارٹزکے مطابق اسرائیل میانمار کی فوج کواسلحہ اورتربیت فراہم کررہا ہے۔ صہیونی حکومت نے میانمارکوسرحدی نگرانی کیلئے سوسے زائد ٹینکس،اسلحہ اورکشتیاں فروخت کرنے کے علاوہ راکھائن ریاست میں روہنگیامسلمانوں پرظلم کے پہاڑتوڑنے والی برمی اسپیشل فورسزکوفوجی تربیت فراہم کررہی ہیں۔ اسرائیلی اسلحہ کمپنی نے اپنی ویب سائٹ پر تصاویر بھی شائع کی ہیں جس میں اس کا عملہ راکھائن میں آپریشن کرنے والی میانمار کی اسپیشل فورسزکوجنگی تکنیک اورہتھیاروں کی تربیت فراہم کررہاہے۔ اسرائیل میں انسانی حقوق کے کارکنوں نے ملکی ہائی کورٹ میں میانمارکواسلحہ کی فروخت بند کرنے کی پٹیشن دائر کردی ہے جس کی سماعت رواں ماہ ہوگی۔ پٹیشن دائر کرنے والے سماجی کارکن اوروکیل ایٹے میک نے میڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے بتایا کہ اسرائیلی اسلحہ کمپنیوں کی ویب سائٹ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ راکھائن ریاست میں سرگرم برمی اسپیشل فورسزکواسلحہ اورتربیت فراہم کررہی ہیں، اسرائیلی حکام نے میانمارکے دورے کرکے اسلحہ کے سودوں پربات چیت بھی کی ہے۔

دوسری جانب اسرائیلی وزارت دفاع نے کہاہے کہ عدالت کے پاس اسرائیلی حکومت کو اسلحہ بیچنے سے روکنے کااختیارنہیں اورمیانمارکواسلحے کی فروخت سفارتی معاملہ ہے۔ اسرائیلی سماجی کارکن اوفرنیمین نے کہاکہ اسرائیل اورمیانمار کے رشتے کا فلسطین پرقبضے سے بھی تعلق ہے۔ اسرائیلی حکومتیں کئی سال سے میانمارکواسلحہ بیچ رہی ہیں۔روہنگیامسلمانوں پرمظالم کوسامنے والی انسانی حقوق کی کارکن پینی گرین نے کہاکہ صرف اسرائیل ہی نہیں بلکہ اوربھی کئی ممالک روہنگیا مسلمانوں پرمظالم میں ملوث ہیں،پچھلے سال برطانیہ نے بھی میانمارکی فوج پرتین لاکھ پاؤنڈزاخراجات کیے اور تربیت فراہم کی۔

مالدیپ کی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق میانمارسے تجارتی تعلقات روہنگیا مسلمانوں پر جاری مظالم کے تناظر میں ختم کیے جب کہ مالدیپ نے اقوام متحدہ سے میانمار کی صورتحال کانوٹس لینے کابھی مطالبہ کیا ہے۔ مالدیپ کے وزیرخارجہ کاکہنا ہے کہ میانمارمیں مسلمانوں کاقتل عام روکا جائے۔ادھروزیرخارجہ خواجہ آصف نے روہنگیامسلمانوں پرظلم وتشدد کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ روہنگیامسلمانوں کے خلاف تشددعالمی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اورمسلمانوں کی یہ حالت زارعالمی برداری کے ضمیر کیلئے چیلنج ہے۔ان کاکہناتھا کہ ہم روہنگیامسلمانوں پرظلم وتشدد کے خاتمے کامطالبہ کرتے ہیں جب کہ پاکستان کشمیراورفلسطین سمیت دنیابھرکے مسلمانوں سے تعاون کرتارہے گا۔خواجہ آصف نے اوآئی سی کے فوری اور مؤثر ایکشن کے مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے او آئی سی کی قرار داد کی بھی حمایت کی ہے جب کہ اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان کمیشن کی سفارشات پر عمل کیا جانا چاہیے۔

اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق میانمارکے مسلم اکثریتی علاقے رخائن میں پرتشددواقعات کے بعدہزاروں روہنگیا مسلمان علاقے سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔پناہ گزینوں کی عالمی ایجنسی آئی اوایم کاکہناہے کہ ہفتہ رفتہ میں چھ روز کے اندر ۱۸۸۴۵روہنگیا مسلمانوں کاکیمپ میں اندراج کیا گیاہے۔کیمپ میں آنے والوں میں زیادہ تعدادعورتوں اور بچوں کی ہے۔آئی اوایم کے ترجمان پیپی صادق نے بتایا:ابھی تک ہزاروں افرادسرحدپرموجودہیں جن تک ہماری رسائی نہیں ہے ۔دوسری طرف برطانیہ نے غیرانسانی واقعات پربحث کیلئے اقوام متحدہ میں برطانیہ کے مستقل نمائندے ماتھیورک رفٹ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پراپنے اعلان میں کہاہے کہ ہم میانمارمیں تمام طرفین سے اعتدال سے کام لینے کی اپیل کرتے ہیں ۔

میانمار میں روہنگیامسلم اقلیت کے ساتھ انسانیت سوزسلوک بتدریج بدسے بدتر شکل اختیار کرتاجارہاہے۔دنیاکویہ تسلیم کرنے ضرورت ہے کہ اقوام متحدہ نسل کشی سے متعلق ۱۹۴۸ء کنونشن پرعملدرآمدمیں ناکام ہوچکی ہے ۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق آفس کی رابطہ کاررینٹالوک ڈیسالین سے متعلق رواں برس افشاء ہونے والی دستاویزنے ایک تشویشناک صورتحال کی نشاندہی کی کہ انسانی حقوق آفس اپنی ذمہ داریوں کے متعلق قریباًمکمل طورپرغیرفعال ہوچکاہے کیونکہ خاتون رابطہ کارنے انسانی حقوق پرمعاشی ترقی کے عمل کوترجیح دی ان کے اپنے عملے نے ان پرالزام لگایاکہ انہوں نے میانمارکی حکومت اورفوجی جنتاکے ساتھ اچھے تعلقات استوارکیے۔روہنگیااوردیگراقلیتوں کے ساتھ مظالم کا ایجنڈامکمل طورپرنظراندازکیے رکھا۔

آنک سان سوچی کی وجہ سے جمہوری دورکے آغازنے امیدپیداکی تھی کہ صورتحال جلدبہترہوجائے گی مگرایسانہیں ہوا۔اقوام متحدہ اورانسانی حقوق آفس خاموشی سے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی دیکھتے رہے۔بدترین جبرکے باعث ہزاروں روہنگیااپنی لڑکھڑاتی کشتیوں میں بیٹھ کربنگلہ دیش اور ملائشیاکی جانب نقل مکانی کرگئے اورکررہے ہیں جہاں انہیں ویسے ہی حالات کاسامناہے جیسا میانمارمیں ہے۔لگتاہے کہ اقوام متحدہ نے سابق امریکی صدراوباما اسٹرٹیجک تحمل والاڈاکٹرائن اختیارکرلیاہے جس کاسفارتی زبان میں مطلب ہے ''کرناکچھ نہیں ہے''رینٹالوک ڈیسالین سے میانمار میں انسانی حقوق مشن کی ذمہ داریاں واپس لے لی گئی ہیں تاہم دیکھنایہ ہے کہ نئے رابطہ کارانسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پرکس حدتک توجہ دیتے ہیں؟

دنیاکی سب سے بڑی عالمی بین الحکومتی تنظیم نے روہنگیامسلمانوں کے متعلق ابھی تک اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں جبکہ وہ بہترکرداراداکرسکتی تھی۔اب دوسری بڑی عالمی تنظیم اسلامی تعاون تنظیم(اوآئی سی)کوذمہ داری نبھانی ہے جس کے وزرائے خارجہ اجلاسوں کے ایجنڈے میں روہنگیا مسلمانوں کامعاملہ ہمیشہ سرفہرست رہاہے۔اوآئی سی نے رواں سال بھی روہنگیامسلمانوں کی حالت زارپرغورکرنے کیلئے ملائشیامیں ایک خصوصی اجلاس کااہتمام کیاتھا۔تنازعہ حل کرانے کے معاملے میں اوآئی سی کاریکارڈقابل رشک نہیں کیونکہ تنظیم کے پاس ایسے وسائل نہیں کہ اپنے فیصلوں پرعملدرآمدکراسکے۔اوآئی سی کے اجلاسوں میں منظورکی گئی قراردادوں کامسلم دنیاسے باہرکوئی مسلم دنیاسے باہرکوئی نوٹس نہیں لیتا۔ اکثر ان قرار دادوں کومتاثرہ مسلم آبادی کی تسلی وتشفی کیلئے منظورکیاجاتاہے۔اس کے باوجوداوآئی سی روہنگیامسلمانوں کیلئے مؤثرکرداراداکرسکتی ہے۔اوآئی سی دنیاکی دوسری بڑی بین الحکومتی تنظیم ہے جس کے رکن ممالک کی تعداد ۵۷ہے جوکہ چاربراعظموں میں پھیلے ہوئے ہیں۔اس کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر یوسف مین احمد الغثمین جیسی فعال شخصیت کی قیادت میں اوآئی سی روہنگیا مسئلے پرمداخلت کرسکتی ہے جس کیلئے اوآئی سی کودرج ذیل اقدامت کرناہوں گے۔

سب سے پہلی ب ات یہ ہے کہ اوآئی سی اقوام متحدہ اورمیانمارحکام سے مل کر ان الزامات کی تحقیقات کرسکتی ہے کہ کچھ شدت پسندمسلح گروہ روہنگیا مسلمانوں کی جدوجہدہائی جیک کرنے کی کوشش میں ہیں،حقائق کے منافی ہونے کے باوجود میانمارحکومت روہنگیاآبادی کواجتماعی سزادینے کیلئے ایسے الزامات کوجوازبناکرپیش کرتی ہے تاکہ عالمی برادری اس کی مذموم سرگرمییوں پرچشم پوشی کرتی رہی۔ جوصورتحال آج بنی ہوئی ہے اس میں داعش مشرقِ وسطیٰ میں اپنے زیرقبضہ علاقے تیزی سے گنوارہی ہے ۔ان حالات میں اسے نئے علاقوں کی تلاش ہے جہاں بیٹھ کراپنی منفی آئیڈیالوجی کی آبیاری کرسکے۔روہنگیامسلمانوں کے ساتھ غیرانسانی سلوک کی دوسری وجہ مذہب ہے۔بدھ مت کے فرقے تھیرواڈ کی تعلیمات کی غلط تشریح کے ذریعے سے بعض حلقے روہنگیاآبادی کے خلاف تشددکوہوادے رہے ہیں۔ اوآئی سی چونکہ مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم ہے اس لئے بین المذاہب ڈائیلاگ کے ذریعے سے اس قسم کے تنازعات حل کرانے میں کرداراداکرسکتی ہے۔ اوآئی سی قائدانہ کرداراداکرنے کیلئے ایسی مسلم شخصیات کوآگے لائے جومیانماربدھ لیڈروں کیلئے قابل قبول ہوں۔آخری کام اوآئی سی یہ کرسکتی ہے کہ ہمسایہ ممالک پرروہنگیاپناہ گزینوں کا زیادہ بوجھ نہ پڑنے دے۔ بنگلہ دیش،تھائی لینڈ اور ملائشیا اس وقت ہزاروں روہنگیاپناہ گزینوں کابوجھ برداشت کررہے ہیں اوران کاخدشہ ہے کہ ان پناہ گزین کی موجودگی کہیں مستقل نہ ہوجائے۔ان حالات میں اوآئی سی کومنظم عالمی مہم چلانے کی فوری ضرورت ہے تاکہ ان روہنگیا مسلمانوں کا ایسامستقل تلاش کیاجائے جس سے آئندہ انہیں ایسی صورت حال کا سامنا نہ کرناپڑے۔

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 389973 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.