روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے حوالے سے جیسے جیسے دنیا
بھر میں آواز بلند ہوتی جارہی ہے اور بالخصوص پاکستان میں اس حوالے سے
احتجاج کیا جارہا ہے ، اس کو دیکھتے ہوئے کچھ مخصوص طبقات اس کو غیر موثر
کرنے اور اس معاملے کو متنازع بنانے کے لیے سوشل میڈیا کے میدان میں سر گرم
عمل ہوگئے ہیں۔
میانمار کے مسئلہ کے میڈیا پر آنے اور دنیا بھر میں اس کے لیے آواز بلند
ہونے کے بعد اب ایک نیا پروپیگنڈہ یہ کیا جارہا ہے کہ میانمار میں مسلمانوں
کے خلاف یہ آپریشن اور ان کی نسل کشی بلا وجہ نہیں ہے بلکہ دراصل وہاں
مسلمان جہادی( ان کے نزدیک دہشت گردی ) کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور وہ
بھی برما کی فوج سے برسرِ پیکار ہیں۔ اس لیے یہ برما کی فوج ان کے خلاف
آپریشن کررہی ہے۔اس پروپیگنڈہ کو تقویت دینے کے لیے سوشل میڈیا پر مختلف
جھوٹی ویڈیوز اور تصاویر پھیلائی گئیں جن میں کچھ لوگ اسلحہ لیے اور کچھ
تصاویر و ویڈیوز میں فوجی وردیوں میں ملبوس کچھ لوگ فوجی مشقوں میں مصروف
ہیں اور انہیں برما کے مجاہدین کہا جارہا ہے-
|
|
حقیقت یہ ہے کہ وہاں ایسا کچھ نہیں ہے۔ برما مجاہدین کے حوالے سے سوشل
میڈیا پر چلائی جانے والی تصویر در حقیقت 1971 میں بنگلہ دیش کے مکتی باہنی
کے غنڈوں کی تصویر ہے لیکن اس کو برما کے مجاہدین کے طور پر پیش کیا جارہا
ہے۔ایک جہادی گروپ ARSAکا نام اس حوالے سے لیا جارہا ہے لیکن یہاں ایک بات
سمجھنے کی ہے کہ اگر بالفرضِ محال ایسا کوئی گروپ موجود ہے اور اس نے
25اگست کو برما کی پولیس پر حملہ کیا تھا تو بھی اس کی سزا پورے پورے گائوں
کو نہیں دی جاسکتی۔ کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ کسی مشکوک واقعے کو بنیاد
بنا کر کسی قوم یا مسلک کے سینکڑوں لوگوں کو قتل اور لاکھوں کو ملک بدر
کردیا جائے-
|
|
اسی طرح آج کل واٹس ایپ پر ایک ویڈیو مقبول ہورہی جس میں ترک آرمی کو
کہیں جاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے اور اس ویڈیو کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ
ترکی نے اپنی فوج برما بھیج دی ہے۔ ہمارے سادہ لوح بھائی اس پر بڑے خوش
ہوتے ہیں کہ اب میانمار کو پتا چلے گا حالانکہ ان کو یہ نہیں پتا کہ کوئی
بھی ملک کسی دوسرے ملک کی جغرافیائی حدود میں اپنی فوج نہیں بھیج سکتا، فوج
تو درکنار وہ کسی ملک کی مرضی اور اجازت کے بغیر تو امدادی سامان تک نہیں
بھیج سکتا کجا یہ کہ فوج بھیج دی جائے۔اسی طریقے سے یو ٹیوب پر میانمار کے
مجاہدین اور جہاد کے حوالے سے جھوٹی ویڈیوز جاری کی جارہی ہیں جن میں لوگوں
کو برما میں جہاد کے لیے جاتے ہوئے دکھایا جارہا ہے جب کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔
برما کی حکومت کی جانب سے کیے گئے جھوٹے دعوئوں کو بی بی سی کی رپورٹ نے ہی
بے نقاب کردیا ہے۔بی بی سی کے نامہ نگار جوناتھن ہیڈان 18صحافیوں میں شامل
ہیں جن کو برما کی حکومت نے اپنی نگرانی میں متاثرہ علاقوں کا دورہ کرایا
ہے۔بی بی سی کے نامہ نگار نے کیا دیکھا اور کیا بتایا یہ انہی کی زبانی
پڑھیے۔وہ لکھتے ہیں کہ ’’حکومت نے ان علاقوں میں 18 مقامی اور غیر ملکی
صحافیوں کے دورے کا انتظام کیا اور ہم نے اس موقعے کا فائدہ اٹھایا۔اس دورے
کا مطلب یہ تھا کہ ہم صرف ان مقامات اور لوگوں کو دیکھ سکتے ہیں جنھیں وہ
ہمیں دکھانا چاہتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی ایسی پابندیوں کے باوجود، آپ بہت
کچھ دیکھ لیتے ہیں۔حکومت کے اپنے دلائل بھی ہیں کہ انھیں مسلح بغاوت کا
سامنا ہے لیکن بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ان کا اپنا تیار کردہ ہے۔‘‘
نامہ نگار جب ایک جلے ہوئے گائوں مایوتھوگيئی پہنچے تو انہیں ایک پرائمری
اسکول لے جایا گیا۔ نامہ نگا رکے مطابق ’’ہاں ہمیں لانے کا حکومت کا مقصد
یہ تھا کہ روہنگیا پناہ گزینوں کی جانب سے جو منفی بیان آ رہے تھے اس وہ
اپنی پوزیشن واضح کریں۔ بنگلہ دیش آنے والے پناہ گزینوں نے میانمار حکومت
اور رخائن کی بھیڑ کے ہاتھوں دانستہ بربادی کی داستان بیان کی تھی اور
انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کی بات کہی تھی۔لیکن پہلی ہی نظر میں ہمیں
یہاں لانے کی حکومت کی کوشش ناکام نظر آنے لگی۔سب سے پہلے ہمیں مونگڈوا
میں ایک پرائمری سکول لے جایا گيا جو بے گھر ہندو خاندانوں سے بھرا تھا۔ ان
سب کے پاس کہنے کے لیے ایک ہی کہانی تھی کہ کس طرح مسلمانوں نے ان پر حملہ
کیا اور وہ ڈر کر اپنے گھروں سے بھاگ نکلے۔ لیکن جو ہندو پناہ گزین میانمار
سے بنگلہ دیش سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے تھے ان سب کا کہنا تھا کہ رخائن
کے مقامی بدھ مذہب کے ماننے والوں نے ان پر حملہ کیا تھا کیونکہ وہ روہنگیا
کی طرح نظر آتے ہیں۔سکول میں ہمارے ساتھ مسلح پولیس اور حکام تھے تو کیا
ایسے میں وہ بے خوف ہو کر ہم سے بات کر سکتے تھے؟ ایک شخص نے مجھے بتانا
شروع کیا کہ کس فوجیوں نے ان کے گاؤں پر فائرنگ کی تھی کہ بیچ ہی میں پاس
میں بیٹھے شخص نے اسے ٹوکا۔
نارنجی اور لیس والے بلاؤز اور بھوری لنگی میں ملبوس ایک خاتوں نے بطور
خاص ہمیں مسلمانوں کی جانب سے ہونے والے مظالم کو ڈرامائی انداز میں بتایا۔
پھر ہمیں ایک بدھ مندر میں لے جایا گیا جہاں ایک بدھ راہب نے ہمیں بتایا کہ
مسلمانوں نے وہاں اپنے گھروں کو خود ہی جلا دیا۔ ہمیں ثبوت کے طور پر
تصاویر دی گئیں جس میں وہ اپنا گھر جلا رہے تھے۔ یہ عجیب تھا۔سفید حاجی
ٹوپی والے مرد چھپروں کو نذر آتش کررہے تھے اور خواتین جنھوں نے لیس والا
میز پوش اپنے سرپر ڈال رکھی تھی وہ عجیب ڈرامائی انداز میں تلوار چلا رہی
تھیں۔بعد میں مجھے پتہ چلا کہ ان میں سے ایک عورت وہی تھی جو سکول میں
ڈرامائی انداز میں مسلمانوں کے مظالم گنا رہی تھی اور تصویر میں موجود ایک
بے گھر ہندو مرد بھی سکول میں موجود تھا۔ان لوگوں نے جعلی تصویریں بنائی
تھیں تاکہ یہ معلوم ہو کہ مسلمان آگ لگا رہے ہیں-
|
|
نامہ نگار مزید کہتے ہیں کہ ’’جن گنے چنے مسلمانوں سے مونگڈوا میں ہماری
ملاقات ہوئی وہ اتنے خوفزدہ تھے کہ کیمرے میں کچھ بھی کہنے کے لیے تیار
نہیں تھے۔ہم اپنے پہرے داروں سے نظر بچا کر چند مسلمانوں سے بات کی۔ انھوں
نے بتایا کہ انھیں بہت تکلیف ہے۔ سکیورٹی فورسز انھیں یہاں سے کہیں جانے
نہیں دیتی ہے انھیں کھانے کی قلت ہے اور وہ شدید خوف کے ماحول میں رہ رہے
ہیں۔
ایک بنگالی بازار میں جہاں اب خاموشی چھائی ہے میں نے ایک نوجوان سے پوچھا
کہ انھیں کس کا ڈر ہے تو اس نے بتایا حکومت کا۔‘‘
برما میں کس طرح حکومتی سرپرستی میں مسلمانوں کی بستیوں کو جلایا جارہا ہے
اور کس طرح ان کی نسل کشی کی جارہی ہے اس کا ایک ثبوت بھی صحافیوں کو مل
گیا۔ جوناتھن ہیڈ کہتے ہیں کہ ’’اور جب ہم الیل تھان کیاو سے واپس آ رہے
تھے تو ایک غیر متوقع واقع پیش آيا۔ہم نے دیکھا کے دھان کے کھیت میں پیڑوں
کے پیچھے سے دھواں اٹھ رہا ہے۔ یہ سڑک سے دور ایک اور گاؤں تھا جو جل رہا
تھا۔ اور آگ ابھی ہی شروع ہوئی تھی۔ ہم سب ایک ساتھ گاڑی روکنے کے لیے چلا
پڑے۔ اور جب گاڑی رکی تو ہم سب حکومت کےاپنے محافظوں کو حیرت زدہ چھوڑ کر
اس طرف دوڑنے لگے۔ پولیس پیچھے پیچھے ہمارے ساتھ آئی اور اس نے کہا کہ
گاؤں میں جانا محفوظ نہیں اس لیے وہ رک گئے اور ہم ان سے پہلے گاؤں میں
داخل ہو گئے۔ہر طرف سے جلنے اور چٹخنے کی آواز آ رہی تھی۔ کیچڑ زدہ راستے
پر عورتوں کے کپڑے لتھڑے پڑے تھے اور وہ واضح طور پر مسلم خواتین کے کپڑے
تھے۔ اور راستے میں گٹھیلے نوجوان تلواروں اور برچھوں کے ساتھ کھڑے تھے۔ وہ
18 صحافیوں کو اپنی جانب دوڑتے آتے دیکھ کر حیران تھے۔ انھوں نے کیمرے سے
بچنے کی پوری کوشش کی۔ جبکہ دو گاؤں کے اندر بھاگے اور اپنے گروپ کے
آدمیوں کو لے کر جلد بازی میں وہاں سے نکل گئے۔انھوں نے بتایا کہ رخائن کے
بدھ مذہب کے ماننے والے ہیں۔ ہمارے ایک ساتھی نے ان میں سے ایک سے جلدی
جلدی بات کی جس نے یہ تسلیم کیا کہ انھوں نے پولیس کی مدد سے گھروں کو آگ
لگائی ہے۔جب ہم گاؤں میں پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ ایک مدرسے کی چھت کو
تازہ تازہ آگ لگائی گئی تھی۔ عربی میں لکھی ہوئی کتابیں باہر پھینکی گئی
تھیں اور بکھری ہوئی تھیں۔ راستے میں ایک پلاسٹک کا جگ کا خالی مگ چھوٹ گیا
تھا جس میں سے پیٹرول رس را تھا۔
یہ مسلمانوں کا گاؤں گاؤڈو تھار یا تھا۔ وہاں کسی باشندے کا کوئی نشان
نہیں تھا۔ رخائن کے لوگ جنھوں نے آگ لگائی تھی وہ گشتی پولیس کے سامنے
گاؤں سے نکل رہے تھے۔ ان میں سے بعض کے ہاتھوں میں وہ سامان تھے جو انھوں
نے لوٹے تھے۔آتش زنی کا یہ واقعہ اس جگہ پیش آیا تھا جہاں کئی بڑے پولیس
بیرک قائم تھے اور کسی نے بھی اسے روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔‘‘
یہ سارا واقعہ تو بی بی سی اور دیگر صحافیوں کے سامنے پیش آیا تھا، اس لیے
انہوںنے اس کو دیکھ لیا اور بی بی سی نے اس کو جاری بھی کردیا۔ لیکن اس سے
اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جہاں صحافیوں کو جانے کی اجازت ہی نہیں ہو وہاں
کیا کچھ نہیں ہورہا ہوگا۔اس سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوجانا چاہیے کہ برما کے
روہنگیا مسلمانوں پر حکومتی سرپرستی میں مظالم ڈھائے جارہے ہیں اور وہاں
کوئی خانہ جنگی نہیں ہورہی اور نہ ہی وہاں کوئی جنگ ہورہی ہے بلکہ وہاں
مسلمانوں کی منظم نسل کشی کی جارہی ہے اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت
مسلمانوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرکے انہیں میانمار چھوڑنے پر مجبور کیا
جارہا ہے۔
بہر حال ہمیں چاہیے کہ ہم اس حوالے سے جھوٹے پروپیگنڈے میں نہ آئیں اور جو
لوگ یہ بات کہیں کہ وہاں مجاہدین پہنچ چکے ہیں یا ترکی نے اپنی فوج وہاں
اتار دی ہے تو ہم لوگوں کو اصل بات بتائیں |