آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی مجلسِ عاملہ(
منعقدہ10ستمبر2017ء، بھوپال) میں ارکانِ عاملہ نے متفقہ طور پر بورڈ کے
ترجمان کے انتخاب کی ذمّے داری صدر و جنرل سکریٹری کے سپرد کی تھی، جس کے
بعد صدر و جنرل سکریٹری نے باہمی مشورے سے یہ اہم ترین ذمّے داری مولانا
خلیل الرحمن سجاد نعمانی کے حوالے کر دی، اور انھیں با قاعدہ طور پر مسلم
پرسنل لا بورڈ کا کل ہند ترجمان بنا دیا گیا۔ پریس ریلیز کے مطابق اب تمام
معاملات و مسائل میں مسلم پرسنل لا بورڈ کی طرف سے اُنھیں کو نمائندگی کا
حق و اختیار حاصل ہوگا، جس کے بعد بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا محمد ولی
رحمانی نے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ذمّے داروں سے گذارش کی ہے کہ وہ بورڈ
کی طرف سے نمائندگی کے لیے مولانا نعمانی سے ہی رابطہ کریں۔
بورڈ کی طرف سے یہ اہم فیصلہ دور اندیشی پرمبنی ہے ، امید ہے کہ دیگر
جماعتیں اور تنظیمیں بھی اسی طرح اپنا ترجمان مقرر کرکے موقع و مفاد پرستوں
کی چال بازیوں کا خاتمہ اور لائق و مستحق افراد کو اپنا ترجمان بنا کر پیش
کریں گی۔ جس کا سیدھا اثر یہ ہوگا کہ ہر ایرا غیرا نٹ شنٹ بگھارنے سے باز
رہے گا اور اگر وہ باز نہ بھی رہا تو اس کی بات بے وزن سمجھی جائے گی۔
مسلمانوں کے اہم ترین مسائل میں گہرے مطالعے و تجربے کے بغیر اس نازک دور
میں کچھ بھی کہنا اور بولنا وغیرہ انتہائی نامناسب ہے ، جس پر ہر طرح ختم
کیا جانا ضروری ہے۔
اس موقع پر ایک گذارش یہ ہے کہ علما و دانشوران پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا کے
بے ضابطہ و غیر مشروط مباحثوں میں شرکت کا بھی مکمل بایکاٹ کریں، اس لیے کہ
ایسی جگہوں پر عموماً اپنی ٹی آر پی بڑھانے وغیرہ کے نقطۂ نظر سے بہت سی
غیر مناسب حرکتیں کی جاتی ہیں، جس سے بہت دفع جگ ہنسائی ہوتی ہے ۔ ہمیں
ذاتی طور پر بعض بڑے اخبار و نیوز چینل سے یہ تلخ تجربہ ہوا کہ وہ صرف وہی
دکھاتے یا شائع کرتے ہیں، جو عین ان کے موقف کے مطابق ہوتا ہے ، اور بعض
دفع کہنے والے کی بات میں ترمیم کرکے اس طرح شائع کی جاتی ہے کہ اس کی اصل
صورت مسخ ہو کر رہ جاتی ہے ۔اسلامی مسائل پر گفتگو کرنے کے لیے علم و آگہی
و تجربے وغیرہ کی ضرورت ہے ، ہر وہ آدمی جس کا نام مسلمانوں جیسا ہو، وہ اس
کا مجاز نہیں ہو سکتا۔ نیز اگر کسی کو اسلام یا مسلمانوں کے مسائل کو جاننے
سمجھنے کی رغبت ہو تو اسے چاہیے کہ ملت کے با وقار علما و دانشوران کی خدمت
میں حاضر ہو، نہ کہ مذہب کے نام پر تماشے کرے ۔ |