قومی اسمبلی کی رکنیت کی کیا اہمیت ہے۔ محترمہ کلثوم نواز
، ڈاکٹر یاسمین راشد یا کوئی امیدوار شاید اس غرض سے اسمبلی کا رکن بننا
چاہتا ہے تا کہ وہ بہترین قانون سازی میں اپنا کردار ادا کر سکے۔ یہاں کے
عوام کے لئے کچھ کرے، یا اپنے حلقہ انتخاب کے عوام کی خدمت انجام دے۔
اسمبلی رکنیت کا مدعا و مقصد یہی ہوتا ہے۔ اتوار کو ضمنی الیکشن کے دوران
ووٹنگ میں یہی توقع تھی کہ اسی جذبہ سے تین درجن سے زیادہ امیدوار سوا تین
لاکھ وووٹرز کو ایشوز کی جانب متوجہ کریں گے۔ جو کچھ ہلہ گلہ ہوا۔ وہ اس کے
برعکس تھا۔ زبان و بیان بھی وہی تھی، جو گزشتہ کچھ عرصہ سے یہاں کی ریت و
روایت بن رہی ہے۔ مہذب اور شاشائستہ گفتگو ہی نہیں سیاست بھی ہماری ضرورت
ہے۔ مگر ہمیں جو کچھ نظر آ رہا ہے، وہ ہماری ضرورت کے برعکس ہے۔ یہ دنگل
منفرد ہے۔ بچے بھی گالیوں، منافرت، دھمکیوں کی زبان استعمال کرنے میں کوئی
جھجھک محسوس نہیں کرتے۔ ان کا انداز بھی عمران خان صاحب جیسا ہو رہا ہے۔ جی،
جناب ، محترم، حضور کی جگہ ’’اوے‘‘ وغیرہ استعمال ہوتا ہے۔ یہ لب و لہجہ
مشرقیت کی نفی ہے۔ یہ ضمنی الیکشن اس لئے بھی جنگ جیسی صورتحال پیش کر رہا
تھا کہ یہاں سے میاں محمد نواز شریف ہی جیت اپنے نام کرتے رہے ہیں۔ کئی
دہائیوں سے یہ حلقہ مسلم لیگ ن کا گڑھ بنا رہا ہے۔ یہ تاثر دیا گیا کہ یہاں
سے اگر ن لیگ کا کھمبا بھی کھڑا کر دیا جائے تو اس کو بھی ووٹ ملیں گے۔
یہاں بھی پارٹیوں نے منشور پر زیادہ توجہ نہ دی۔ ووٹر بھی منشور کی سیاست
سے زیادہ آشنا نہیں۔ الزامات، جوابی الزامات، دھمکیاں، پارٹی بازی، نفرت پر
یہ دیوار تعمیر ہو رہی ہے۔ ووٹ جمہوریت کے لئے نہیں۔ یا شریف خاندان کی
آبائی سیٹ ہونے کے باوجود یہاں جوش وخروش بھی مثالی رہا ہے۔ ملک کا شہری
نوجوان اور خواتین اپنا رحجان عمران خان کی طرف رکھتے ہیں۔ ان کی پہلی پسند
پی ٹی آئی بن گئی تھی۔ مگر غیر مہذب روایت قائم کرنے سے اس مہم میں قدرے
کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ بھی دلچسپ حقیقت ہے کہ کوئی منشور اور ایشو کی سیاست
پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ جب کہ اسی کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ جب یہ
لوگ کرورڑوں روپے انتخابی مہم چلانے پر لگا دیتے ہیں۔ اسے سیاسی سرمایہ
کاری کا نام دیا جاتا ہے۔ منتخب ہونے کے بعد اخراجات کا کئی گنا زیادہ وصول
کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ اسمبلیوں میں داخل ہونا بے کار مشق سمجھتے ہیں۔ ان کی
حاضری انتہائی کم ہوتی ہے۔ تنخواہیں اور مراعات حسب روایت وصول کی جاتی ہیں۔
کورم پورا نہیں ہوتا ۔ قانون سازی کی کوئی فکر نہیں۔ مگر مراعات میں اضافے
کی فکر کھائے جاتی ہے۔ پاک اور نفیس سیاست اسی وجہ س ناپید ہونے لگی ہے۔
سیاست جو عبادت تھی، اب اس کا نام کچھ اور ہو گیا ہے۔ یہ جوڑ توڑ، انتشار
اور تصادم کی طرف جا رہی ہے۔ سبھی ایک جیسے نہیں۔ مگر معروف پارٹیاں قوم کو
متحد اور متحرک کرنے ک بجائے باہمی نفرت اور تصادم و انتشار کی جانب
رہنمائی کرتی ہیں۔ مخالفین کو شکست دینے کے لئے اداروں کا سہارا لیا جاتا
ہے۔ بلکہ انہیں مخالفین کے خلاف بھڑکایا اور مشتعل کیا جاتا ہے۔ سیاسی
مخالفین جمہوریت کے نام پر آمریت کو دعوت بھی دیتے ہیں اور اس کی راہیں بھی
ہموار کرتے ہیں۔ جمہوریت کے لبادے میں غیر جمہوری اقدار کے لئے فضا ساز گار
بنانے کا یہ عمل دہائیوں سے دوہرایا جا رہا ہے۔ جس پر ہر کوئی ناقد فکر مند
ہو سکتا ہے۔
سنجیدہ اور مخلص لوگ توڑنے کے بجائے جوڑن کی سیاست کو اہمیت دیتے ہیں۔ وہ
مہذب گفتگو کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ میرٹ کی پامالی اور کرپشن کو کوئی
قبول نہیں کرسکتا۔ بڑی پارٹیوں ہی نہیں بلکہ بعض آزاد امیدوار بھی کروڑوں
روپے خرچ کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے حکمرانوں کو آزاد کشمیر سے آ کر اور پی
ٹی آئی کو کے پی کے سے لاہور میں داخل ہو کر انتخابی مہم چلانے کی ضرورت
محسوس ہوئی۔ یہ کیسا طرز سیاست ہے۔ اس پر تھوڑے کو ہی زیادہ سمجھا جائے۔ یہ
روایت پی پی پی نے بھی قائم کی ہے۔ کوئی اس سے بری الذمہ نہیں۔ پنجابی اور
پٹھان ، کشمیری اور سرائیکی کی طرف داری بھی اس الیکشن میں دیکھی گئی۔ یہ
سب اتحاد کے بجائے انتشار کی جانب پیش قدمی ہے۔ جس پر روک لگانے کی ضرورت
ہے۔ یہاں ترقی، کارکردگی، میرٹ، شفافیت کے نام پر ووٹ مانگنے کی ضرورت ہے۔
منشور اور ایشوز کی بنیاد پر سیاست اور انتخاب کی ضرورت ہے۔ اسی کی حوصلہ
افزائی کے لئے سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ یہی سب کے لئے بہتر ہو گا۔
|