برما میں لگی آگ بجھانا اس لیے بھی ضروری ہے

برما میں روہنگیا مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم کا درد ناک پہلو یہ ہے کہ مسلم ممالک میں روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے کو مسلمانوں کا مسئلہ توکہا جا رہا ہے، لیکن اسے حل کرانے کے لیے عملی اقدامات کہیں نظر نہیں آ رہے۔ مسلم ممالک کی جانب سے جس انداز میں برمی حکومت کے ساتھ سفارتی سطح پر بات کرنے کی ضرورت ہے، وہ نہیں کی جا رہی۔ دنیا بھر میں عوامی سطح پر روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کا ذکر تو ہورہا ہے، لیکن حکومتی سطح پر تقریباً خاموشی یا غیر موثر بیان بازی ہورہی ہے۔ اس وقت روہنگیا مسلمانوں کو سب سے زیادہ ضرورت دیگر ممالک کی جانب سے سفارتی انداز میں برما حکومت پر دباؤ بڑھاکر فوری طور پر مظالم رکوانے کی ہے، جو شاید چند ممالک کی جانب سے ہی کی جارہی ہے، اس کے سوا سب اپنے ملکوں میں ہی مذمتی بیانات دے کر بری الذمہ ہوچکے ہیں۔ لگتا ہے تمام مسلم ممالک سمیت عالمی برادی اس وقت ہوش میں آئے گی، جب برما میں موجود تمام مظلوم مسلمان جل کر کوئلہ ہوجائیں گے یا پھر ان کی لاشوں کو درندے نوچ کر ختم کردیں گے۔ شاید ساری دنیا اسی وقت کا انتظار کر رہی ہے۔ اقوام متحدہ سے تو گلہ ہی کیا، شاید اس کی ذمہ داری ظلم رکوانا نہیں، بلکہ روہنگیا مسلمانوں کو صرف دنیا کی مظلوم ترین قوم قرار دینا ہی ہے۔ یہ تو طے ہے کہ عالمی برادی مسلمانوں کے معاملے میں ہمیشہ منافقت سے کام لیتی آئی ہے۔ روہنگیا کے معاملے میں بھی منافقت سے کام لے رہی ہے، بلکہ مجھے تو لگ رہا ہے کہ زمین کی بدترین مکار عوت آنگ سان سوچی اور میانمار کی درندہ فوج کو چین، بھارت اور امریکا کا تعاون حاصل ہے ۔ سب کے اپنے اپنے مفادات ہیں، جن کی خاطر یہاں ظالموں کو سپورٹ کر رہے ہیں اور شاید بھیانک طریقے سے خونریزی کا سلسلہ خطے میں کسی نئے کھیل کی شروعات ہیں۔

اس معاملے کو مسلم ممالک نے ہی حل کروانا ہے۔ اوآئی سی تو یہ ثابت کرچکی کہ اس کی حیثیت کچھ نہیں ہے اور اور چالیس سے زاید مسلم ممالک پر مشتمل فوج عالم اسلام کے لیے نہیں، بلکہ ایک خاص ملک کے مفادات کی خاطر بنائی گئی تھی۔اب مسلمانوں کا درد رکھنے والے ممالک کو ہی یہ معاملہ حل کروانا ہوگا۔ ترکی کے صدر طیب اردوان تو اس معاملے میں پیش پیش ہیں، دیگر ممالک کو بھی ترکی کا ساتھ دینا چاہیے۔ روہنگیا مسلمانوں پر مظالم فوری طور پر رکوانا مسلم ممالک کی حکومتوں پر اس لیے بھی ضروری ہے، کیونکہ بہیمانہ مظالم سے تمام مسلم ممالک کے عوام شدید غصے میں ہیں، ان میں انتقام کے جذبات جنم لے رہے ہیں۔ روہنگیا مسلمانوں پر مظالم اتنے بھیانک طریقے سے کیے جارہے ہیں، جن کو دیکھ کر سینے میں انسانوں کا دل رکھنے والے ہر انسان کی آنکھیں اشک بار اور دل رنجیدہ ہے۔ ان پر ٹوٹنے والی قیامت کے تصور ہی سے دل کانپ اٹھتا ہے اور کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ بے یار و مددگار انسانوں کی لاشیں جل رہی ہیں۔ خواتین کی عصمت دری کرکے ان کی برہنہ لاشوں کو درختوں کے ساتھ لٹکایا جارہا ہے۔ بچوں کے جسموں کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے انہیں گدھوں کے کھانے کے لیے پھینکا جارہا ہے۔ جوانوں، بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کو ایک خندق میں جمع کرکے ان کے اوپر بلڈوزر چلوا کر انہیں زندہ دفن کیا جارہا ہے۔ ایک سو کلو میٹر پر آباد سارا علاقہ صفحہ ہستی سے مٹادیاگیا ہے۔ پندرہ روز میں پونے دو لاکھ افراد ہجرت کر کے بنگلا دیش پہنچ چکے ہیں۔ یہ سب کچھ ہورہا ہے، لیکن مظالم کے اس کربناک المیے کا مداوا کرنے والا کوئی نہیں۔ حقوق انسانی کی علمبردار ساری تنظیمیں بے بس نظر آرہی ہیں۔ عالمی طاقتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ ایسے میں مسلم ممالک کے عوام ظلم رکوانے کے لیے احتجاج کر کے اپنی حکومت کو کوئی سبیل نکالنے پر راضی کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر خواتین، بچے، بوڑھے، جوان اور زندگی کے ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر اپنے پیغامات میں شدید غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے ان مظالم کو رکوانے کی اپیل کر رہے ہیں۔

بعض ویڈیوز میں تو لوگ روتے ہوئے، دھاڑیں مارتے ہوئے حکومت کو مظلوموں کے لیے کچھ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، لیکن اگر ایسے حالات میں حکومت بھی عالمی برادری کی طرح چند بیانات دینے پر ہی اکتفا کرے تو مسلم ممالک میں بہت سے لوگ تو ایسے ہوتے ہی ہیں جو حکومتی پالیسی کو مسترد کرتے ہوئے اپنی حکومت سے بھی مایوس ہوکر ظالموں سے انتقام لینے کی ٹھان لیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز بھی سامنے آرہی ہیں، جن میں انفرادی طور پر لوگ ظالموں کے ساتھ لڑنے کا اعلان کر رہے ہیں۔کچھ لوگ عسکری تنظیموں کے ذریعے کسی طرح مطلوبہ جگہ پر پہنچ بھی سکتے ہیں اور جو نہ جاسکیں وہ اپنی حکومت کو ہی قصور وار سمجھتے ہوئے اس کے خلاف محاذ کھول سکتے ہیں۔ ایسے میں یہ لوگ وہی راستہ اختیار کرتے ہیں جس کو حکومت دہشتگردی کہتی ہے۔ حقیقت میں یہ راستہ حکومت کی غلط پالیسیوں اور عوام کی حکومت سے مایوسی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اگر حکومت عوام کی توقعات پر پورا اترے تو میرا خیال ہے عوام شدت پسندی کا راستہ اختیار نہ کرے۔ روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے معاملے میں یہی بات ہے کہ عوام کو بھی معلوم ہے کہ بہت کچھ کرنا ہر مسلم ملک کے اختیار میں بھی نہیں ہے، لیکن کم از کم ایسا کچھ نہ کچھ تو کرے جس سے عوام کو لگے کہ ہماری حکومت اپنافرض ادا کر رہی ہے۔ کم از کم سفارتی تعلقات تو ختم کیے جاسکتے ہیں۔ متعلقہ ملک سے تجارتی معاہدے منسوخ کیے جاسکتے ہیں، جس کی وجہ سے شاید اتنا بھی مالی نقصان نہ ہو جتنا مالی نقصان ہمارے وزرا کی کرپشن سے ہر ماہ میں ہوجاتا ہے۔یہ نہیں کرسکتے تو وزیر خارجہ کو بھیج کر ظالم ملک کی حکومت سے بات کرسکتے ہیں، دیگر مسلم ممالک کے ساتھ مل کر بھی کوئی لائحہ عمل بنا سکتے ہیں اور بھی بہت سے آپشن ہوسکتے ہیں۔ مسلم حکومتوں کو فوری طور پر روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم رکوانے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ یہ ذمہ داری ترکی، مالدیپ، انڈونیشیا، ملائیشیا اور بنگلا دیش کی ہی نہیں ہے، بلکہ پورے عالم اسلام کی ہے۔ اگر مسلم ممالک دہشتگردی کی آگ کو بجھانے میں واقعی مخلص ہیں تو فوری طور پر روہنگیا مسلمانوں کے گھروں کو لگی آگ کو بجھانا ہوگا، بصورت دیگر یہ آگ ان کے ملکوں میں بھی پہنچ سکتی ہے، کیونکہ حکومتوں کے خاموش رہنے سے عسکری تنظیمیں غصے میں بھرے مسلمانوں کے ہاتھوں میں اسلحہ تھما سکتی ہیں، جس سے نہ صرف مسلم ممالک خونریزی کی لپیٹ میں آسکتے ہیں، بلکہ پورا خطہ روہنگیا مسلمانوں کے گھروں کی طرح جل سکتا ہے اور شاید امریکا سمیت عالمی برادری چاہتی بھی یہی ہے اور ایسے میں کچھ دشمنوں کی ایجنٹ بھی انتقام کی آگ میں جلتے مسلمان لوگوں کو استعمال کرسکتے ہیں، جو ان کو ان کے اپنے ملکوں کے خلاف ہی اکسا سکتے ہیں۔ اس لیے ایسے میں مسلم ممالک کی جانب سے ضرور کوئی ایسا لائحہ عمل بنانا ہوگا، جس سے روہنگیا مسلمانوں پر فوری طور پر مظالم کا سلسلہ رک سکے اور آئندہ کے لیے بھی ان کے شہری حقوق بحال کیے جائیں۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 626093 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.