ڈنڈے پیر کی مریدی باقی سبھی پیر خانوں سے زیادہ پائی گئی
ہے۔دوسرے پیرخانوں میں تو الگ الگ میرٹ اور اصول ہوتے ہیں۔جن کے سبب مریدوں
کے مزاج اور کردار میں فرق ہوسکتاہے۔ان کے حلیے اور چلن میں اختالف
ہوسکتاہے ؎۔مگرحضرت ڈنڈا پیر کے مریدوں میں ایسا کوئی تفرقہ نہیں پایا
جاتا۔جوں ہی پیر صاحب متحرک ہوتے ہیں۔مریدین یک جا اور یک آواز ہوجاتے
ہیں۔ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں رہتااور اطاعت میں ایک سے بڑھ کر ایک
آگے آجاتاہے۔بارہ اکتوبر کا مارشل لاء ایک تاریخ ساز وقوعہ ثابت ہوا۔اگر یہ
وقوعہ نہ ہوتاتو حالات یکسر مختلف ہوتے۔جو کچھ فوجی حکومت کے آنے سے رونما
ہوا۔ابھی کچھ دن قبل تک اس کا اندازہ تک نہ لگایا جاسکتاتھا۔مشرف کا دور
آنے سے ایک بالکل نئی تاریخ رقم ہوگئی۔سیاسی و غیر سیاسی قبلے بد ل
گئے۔رجحانات تبدیل ہوئے۔او رحکومت کے اندر اور باہر تما م طرف کی سیاست نے
ایک نئی کروٹ بدل لی۔تب پی پی سمیت دیگر اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف
انتقامی و سیاسی مقدمہ بازی کا رونا رو رہی تھی۔او راس کے خلاف مختلف انداز
میں احتجاج کیا جارہاتھا۔مارشل لاء کے لگنے کے بعد اپوزیشن کے اس احتجاج کا
کھاتہ گول ہوگیا۔کچھ ایسا ہی حال حکومتی؎ جماعتوں کا ہوا۔ اتحادیوں میں
وزارتوں سے متعلق گلے شکوے۔صلح صفائیاں اورکھیچا تانی کی تمام فضا تھم
گئی۔یکا یکی رویوں میں ایک بڑی تبدیلی آگئی۔نئی منازل طے ہونے لگیں۔نئی
ترجیحات کا تعین کیا جانے لگا۔بظاہر قانوں اور آئین موجود تھا۔مگر اس کے
باوجو د فوجی وردی میں ملبوس ایک شخص کے منہ سے نکلے الفاظ سب سے طاقتور
ہوئے۔اس کی کہی گئی بات چاہے کسی قانون سے متضاد ہی کیوں نہ تھی۔اسے پتھر
پر لکیر تصور کیا گیا۔ایک سال کے اندر اندر نواز شریف سے کی گئی بیعت اہل
کوفہ کی بیعت ثابت ہوئی چوہدری برادران نے نئی بیعت کی ابتداکی اور ان کے
تبع تابعین کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتاچلا گیا۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خاں کا کہناہے کہ راشدہ یاسمین نے حلقہ ایک
سو بیس میں مسلم لیگ ن کا ڈٹ کرمقابلہ کیاہے۔وہ لاہور کی ان خواتین کو خراج
تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے تحریک انصاف کی امدیدوار کی حمایت کی۔اور
چوروں کے خلا ف جہاد میں ان کا ساتھ دیا۔واضح رہے کہ یہ ا؎؎لیکشن مسلم لیگ
ن کی امیدوار محترمہ کلثوم نواز نے اکسٹھ ہزار سے زیادہ تعداد میں ووٹ لے
کر جیت لیا ہے۔تحریک انصاف کو قریبا سینتالیس ہزار ووٹ ملے۔ان دنوں کے
علاوہ کوئی جماعت قابل ذکر کارکردگی کا مظاہر ہ نہیں کرپائی۔اور کل چوالیس
میں سے باقی تمام بیالیس جماعتوں کی ضمانت ضبط ہوگئی۔
پیپلزپارٹی نے چودہ سو چودہ ووٹ لیے۔او رجماعت اسلامی کی گھن گر چ صرف
ساڑھے پانچ سو ووٹ سمیٹ سکی۔دیگر دو قابل ذکر امیدواروں میں ایک کا تعلق
ملی مسلم لیگ سے تھا یہ جماعت باقاعدہ رجسٹرڈ نہ ہونے کے سبب اس امیدوار کو
آزادامیدوارتصور کی اگیا۔حافظ سعید کی تصویر کے ساتھ شیخ یعقوب کے پوسٹر
حلقے کے طول وعرض میں دکھائی دیے۔یہ حضرت ساڑھے پانچ ہزاور ووٹ پانے میں
کامیاب ہوئے۔پی پی امیدوار فیصل میر کا الزام ہے کہ شیخ یعقوب نے اس الیکشن
میں مسلم لیگ ن او رتحریک انصا ف سے بھی زیادہ پیسہ لگایا۔الیکشن میں
کامیابی پر مریم نوازشریف نے کارکنوں اور حلقہ کی عوام کا شکریہ ادارکرتے
ہوئے کہا کہ آپ نے بڑی بہادری سے سازشوں کو ناکام بنایاہے۔آپ کے کچھ دشمن
سامنے تھے۔اور کچھ نظرنہیں ا؎ٓرہے تھے۔آپ نے عدلیہ کے ترجمانوں کو شکست دی
ہے۔عمران اب رو رہا ہوگا۔اس کے رونے کا وقت آگیاہے۔مریم نوا زنے اپنا خطاب
اسی بالکونی سے کیا۔جہاں سے دوہزار تیرہ کے الیکشن میں میاں نوازشریف نے
کیا تھا۔
مسلم لیگ کی فتح اپنے ساتھ کئی سوال چھوڑگئی۔حکومت میں ہونے کے باوجوداس کی
بے بسی دیدنی رہی۔کچھ جماعتیں دھکے شاہی کے ذریعے پنجاب حکومت کی رٹ چیلنچ
کرتی رہیں۔لیگیوں کی پکڑ دھکڑ بھی عجوبے سے کم نہیں۔جانے وہ کون سی قوتیں
ہیں جو صوبائی او رمرکزی حکومت کو بھی خاطر میں نہیں لاتیں۔جانے وہ کون لوگ
ہیں۔جو ہر اس بات کو ممکن بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔جس میں نوازشریف کو کمزور
کرنے کاپہلو ہو۔تحریک انصاف جس بندے پر انکلی اٹھاتی ہے۔وہ غائب کروادیا
جاتا۔اسے نوٹس موصول ہوجاتے۔یا نامعلوم نمبروں سے کالیں موصول ہونے
لگتیں۔نوازشریف چوتھی بار اقتدارسے نامناسب طریقہ سے نکالے گئے ہیں۔ کی یہ
چوتھی بار کی بے دخلی دراصل مرگ مفاجات ہے۔انہوں نے سازشیوں کے گرد گھیر ا
تنگ کرنے کی بجائے نرمی اور مصلحت کی راہ چنی۔دوسری طرف والوں نے اس نرمی
سے ناجائز فائدہ اٹھایا ہے۔نوازشریف کو لاتوں کے بھوتوں کا سامناہے۔وہ
انہیں باتوں سے سمجھانے کی کوشش میں ہیں۔یہ لوگ جو زبان سمجھتے ہیں۔اس کے
استعمال کی عادت نہ ہونے کے سبب میاں صاحب ناکام ہوئے۔ متعد د بار سازشوں
کا شکارہوئے۔گربہ گشتن بروز اول کا یہ سیدھا سادا طریقہ نواز شریف کی سمجھ
نہیں آیا۔وہ شیخ رشید سے بے جا خوفزدہ رہے۔جہانگیر خاں۔اور چوہدری سرور
خواہ مخواہ ان کے اعصاب پر سوار رہے۔ان کے لیے سوائے عمران اور قادری کے
باقی سبھی کو نشان عبرت بنادینا مشکل نہ تھا۔ایسا کر کے وہ معاملات قابو
میں رہ سکتے تھے۔آقا کے پیادوں کو نوازشریف کچلتے رہتے۔کسی کی منافقانہ
سازشوں کو حکمت سے روندا جاسکتا تھا۔بد قسمتی سے مناسب موقع کا انتظار میاں
صاحب کو آج کا دن دکھا گیا۔نرمی اور مروت کو کچھ لوگ بزدلی اور کم ہمتی کا
نام دیتے ہیں تو غلط نہیں۔کچھ لوگ ڈنڈے پیر کے علاوہ کوئی زبان نہیں
سمجھتے۔جانے نوازشریف گربہ کشتن بروز اول کا آسان سا طریقہ کیوں نہ سمجھ
پائے۔ |