پاکستان کے مقبول اور صاحب طرز سینئیر مزاحیہ اداکار لہری
کا اصلی نام ’’سفیراﷲ صدیقی‘‘ تھا،وہ 2 ،جنوری 1931 میں کانپور (بھارت)میں
پیداہوئے ۔جبکہ 13 ستمبر2012 کی صبح طویل علالت کے بعد وہ کراچی میں انتقال
کرگئے ۔انتقال کے وقت لہری کی عمر83 سال تھی۔ آج جبکہ لہری مرحوم کی
پانچویں برسی منائی جارہی ہے ،راقم الحروف نے پاکستان کے اس منفرد ترین
مزاحیہ اداکار کے فن وشخصیت کے حوالے سے یہ خصوصی مضمون تحریر کرکے ان کو
خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کوشش کی ہے کہ ان کے بارے میں اہم معلومات فن
وثقافت سے دلچسپی رکھنے والے قارئین تک اختصار کے ساتھ پہنچائی جاسکیں۔
اداکار لہری مرحوم کے والد حبیب اﷲ صدیقی ریلوے کے گودام میں ٹھیکیدار
تھے،اداکار لہری اپنے 4 بھائیوں اور ایک بہن میں سب سے بڑے تھے۔اداکارلہری
نے ـ’’ستائن دھرم اسکول‘‘کانپور بھارت میں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور ’’علی
مسلم ہائی اسکول ‘‘کانپور سے میٹرک پاس کیا جس کے بعد 1947 میں پاکستان کے
قیام کے ساتھ ہی اداکار لہری اپنے خاندان کے ہمراہ بھارت سے ہجرت کرکے
پاکستان آکر آباد ہوگئے ،کراچی میں ان کی رہائش برنس روڈ پر رہی یہ وہ
زمانہ تھا جب لہری کی عمر صرف 17 سال تھی ۔کراچی میں انہوں نے اسلامیہ کالج
سے انٹر کیااور پھر انہوں نے ایک مقامی ادارے سے ٹائپنگ سیکھی اورمحکمہ
جنگلات میں ایک ٹائپسٹ کے طور پر ملامت اختیا ر کرلی ۔جس کے کچھ عرصہ بعد
انہوں نے ڈینسول ہال کراچی پر واقع ایک پرائیویٹ کاٹن فیکٹری میں ملازم
ہوگئے جبکہ انہوں نے صدر کے علاقے میں ہوزری کی اشیا کی فروخت کا بھی کام
کیا۔الہری جب 22 سال کے ہوئے تو ان کی شادی ہوگئی جن سے ان کے 8 بچے پیدا
ہوئے ۔اداکار لہری نے اپنے ابتدائی دورمیں ریڈیو اور اسٹیج پر بھی کام
کیا،انہوں نے اسٹیج پر ’’ون مین شو‘‘ بھی کیئے جس کی وجہ سے لہری اسٹیج پر
بھی کافی پسند کیئے گئے لیکن ان کو اصل شہرت اور کامیابی فلموں میں کام
کرنے کے بعد حاصل ہوئی۔اداکار لہر ی وہ پہلے پاکستانی مزاحیہ فنکار تھے
جنہوں نے فلم میں مکالماتی مزاح کی بنیاد ڈالی۔وہ اپنی فلموں میں اکثر
اسکرپٹ سے ہٹ کر خود بھی برجستہ جملے بول دیا کرتے تھے جس پر انہیں بڑی داد
ملتی تھی اس کی وجہ شاید لہری کے مزاج میں موجود شرارت اور حس مزاح تھی یہی
وجہ تھی کہ ان کے اسکرپٹ سے ہٹ کر بولے گئے مکالموں اور جملوں کی ادائیگی
پر کبھی کسی فلمساز،کہانی نویس یا ہدایتکار نے کوئی اعتراض نہیں کیابلکہ ان
کی بعض فلموں کی کامیابی میں ان کے برجستہ بولے گئے جملوں نے اہم
کرداراداکیا۔
بزلہ سنج ،شائستہ مزاج اور حاضر جواب اداکار لہری کی پہلی فلم’’انوکھی
‘‘تھی جو1956 میں ریلز ہوئی،انہوں نے مزاحیہ اداکاری کو ایک نیا رنگ دیا
اورخوبصورت شائستہ اور برجستہ جملوں سے فلم بینوں کو محظوظ کرتے رہے۔ان کا
شمار برصغیر کے اعلیٰ درجہ کے مزاحیہ فنکاروں میں ہوتا تھا,فلم ’’انوکھی ‘‘
سے لے کر فلم ’’بابو‘‘ تک انہوں نے 248 فلموں میں کام کیاجبکہ ان کی تقریباً
15 فلمیں ایسی ہیں جو ریلیزنہیں ہوسکیں جن میں فلم انوکھی بات ،دعا،شریر،وفا
کی ادا،نین ملے چین کہاں،پاگل ،پھر پھول کھلیں گے ،میرے جیون ساتھی ،بیدرد
زمانہ ،انجانا،آخری خط ،ہم سے نہ ٹکراؤ،منزل ہے کہاں تیری اورفلم جانے
انجانے وغیرہ شامل ہیں ۔لہری نے اپنی پہلی فلم انوکھی سے لے کر اپنی آخری
ریلیز شدہ فلم ’’بابو‘‘ تک اپنے معیار کو گرنے نہیں دیا ۔فلم دھنک اور فلم
چکر لہری کے آخری دور کی فلمیں تھیں ان کے بعد لہری نے صرف ایک فلم ’’بابو‘‘
میں مہمان اداکار کے طور پر کام کیا اور پھر مختلف بیماریوں کا شکار ہونے
کی وجہ سے وہ فلمی دنیا سے دور ہوگئے ۔ان کو مختلف فلموں میں عمدہ مزاحیہ
اداکاری کرنے پر13 نگار ایوارڈ دیئے گئے جو مزاحیہ اداکاری کے حوالے سے ایک
ریکارڈ ہے۔اداکار لہری نے اپنی عمدہ اداکاری پر جو نگار ایوارڈ حاصل کیئے
ان کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ شہنشاہ ظرافت عظیم اداکار لہری کوبہترین
کامیڈین کا سب سے پہلا نگار ایوارڈ1963 میں فلم’’دامن‘‘ میں عمدہ مزاحیہ
اداکاری کرنے پر دیا گیا ،دوسرانگار ایوارڈ لہری کو1964 میں فلم ’’پیغام ‘‘
میں ،تیسرااایورڈ 1965 میں فلم ’’کنیز‘‘میں،چوتھا ایوارڈ 1967 میں فلم
’’میں وہ نہیں‘‘ میں،پانچواں ایوارڈ 1968 میں فلم ’’صائقہ ‘‘ میں ،چھٹا
ایوارڈ1969 میں فلم ’’نئی لیلی ٰ نیا مجنوں‘‘میں ،ساتواں ایوارڈ1970 میں
فلم ’’انجمن ‘‘میں،آٹھواں ایوارڈ1972 میں فلم ’’دل لگی ‘‘ میں،نواں
ایوارڈ1976 میں فلم ’’آج اور کل ‘‘ میں،دسواں ایوارڈ 1979 میں فلم ’’نیا
انداز‘‘ میں گیارہواں نگار ایوارڈ 1985 میں فلم ’’صائمہ ‘‘ میں،بارہواں
نگارایوارڈ1986 میں فلم ’’بیوی ہو تو ایسی ‘‘میں اورتیرہواں نگار ایوارڈ
1993 میں لہری کو ان کی 38 سالہ فنی خدمات کے اعتراف میں" لائف ٹائم
اچیومینٹ" کادیا گیا۔جبکہ لہری کی فنی خدمات کے اعتراف میں ان کو حکومت
پاکستان کی جانب سے صدرپاکستان فارق لغاری کے دوراقتدار میں ’’پرائیڈ اف
پرفارمنس‘‘ سے بھی نوازا گیا۔
اداکار لہری پر1985 میں( جبکہ وہ ایک فلم کی شوٹنگ کے سلسلے میں ملک سے
باہر تھے) پہلی بارفالج کا حملہ ہواجس کی وجہ سے انہیں شدید مشکلات کا
سامنا کرنا پڑا اور وہ کافی عرصہ ہسپتال میں رہے، فالج کے ساتھ کچھ عرصہ
بعد ان کو شوگر کی بیماری بھی لاحق ہوگئی۔اداکار لہری کی آخری فلم
ہدایتکارہ واداکارہ زیبا بختیار کی فلم’’بابوـ‘‘ تھی۔لہری مزاحیہ اداکاری
کرتے ہوئے بھی چہرے کے تاثرات کو سنجیدہ رکھا کرتے تھے اور نہایت برجستہ
جملے اداکیا کرتے تھے جسے پڑھے لکھے فلم بینوں میں بہت پسند کیا گیا ان کے
زمانے میں زیادہ ترمزاحیہ اداکار وہ تھے جو اپنی جسمانی حرکات کے ذریعے
لوگوں کو ہنسایا کرتے تھے جن میں اداکار رنگیلا کانام سر فہرست تھا لیکن
لہری نے ایک نیا اسلوب متعار ف کروایا جسے خاص طور پر پڑھے لکھے طبقے میں
بہت مقبولیت حاصل ہوئی جس کی وجہ سے بہت جلد اداکار لہری کو پاکستانی فلموں
میں نمایا ں مقام حاصل ہوگیاانہوں نے اپنی منفرد مزاحیہ اداکاری کی وجہ سے
تقریباً38 سال تک پاکستانی فلموں پر راج کیا۔انہیں مزاحیہ اداکاری کی
اکیڈمی کہا جائے تو بے جانہ ہوگا۔اداکار لہری نے اپنے ابتدائی دور میں
اسٹیج پر بھی کام کیا جس کے بعد ان کی ملاقات بھارتی ہدایتکار’’ او پی دتہ
‘‘سے ہوگئی جنہوں نے سفیراﷲ صدیقی کو اپنی فلم ’’انوکھی ‘‘ میں کاسٹ کیا
اور ان کو اس فلم میں’’ لہری‘‘ کے نام سے متعارت کروایاجس کی ایک وجہ شاید
یہ بھی تھی کہ جب سفیراﷲ صدیقی نے پہلی بار مزاحیہ جملہ ادا کیا تو اس کو
انہوں نے اپنے چہرے پر سنجیدگی طاری کرکے اور تھوڑا سا اپنے جسم کولہرا کر
چلتے ہوئے اس خوبی کے ساتھ ادا کیا کہ ان کی یہ ادا اس فلم کے بھارتی
ہدایتکاار او پی دھتہ کو بھا گئی اور انہوں نے فلم ’’انوکھی ‘‘ میں ان کو
’’لہری ‘‘ کے نام سے انٹروڈیوس کروا کرپاکستان فلم انڈسٹری کو ایک بہت ہی
منفرد مزاحیہ اداکار دیا جس نے آگے چل کر بڑا مقام اور نام بنایا۔انوکھی ہی
وہ فلم ہے جس کے بعد لوگ’’ سفیراﷲ صدیقی ‘‘کو’’ لہری‘‘ کے نام سے پہچاننے
لگے اور مرتے دم تک ’’لہری ‘‘کانام ان کی پہچان بنا رہا۔لہری نہایت خوبصورت
اور وجیح انسان تھے لیکن بیماری نے ان کو بے حد لاغر کردیا تھا یہی وجہ تھی
کہ وہ اپنے آخری زمانے میں کسی شاندارعمارت کا کھنڈر دکھائی دینے لگے
تھے۔کراچی میں اداکار لہری نے کئی بار اپنی رہائش گاہ تبدیل کی جس زمانے
میں لہری گلش معمار احسن آباد کے علاقے میں رہا کرتے تھے تو ان دنوں راقم
الحروف کی دو مرتبہ ان سے ملاقات بھی ہوئی ،شرارت اور شائستہ جملے بازی ان
کی شخصیت کا لازمی ھصہ تھی یہی وجہ تھی کہ جب میں ان سے ملا تو انہوں نے
گوشہ نشین اورعلیل ہونے کے باوجود کافی وقت دیا اور دوران ملاقات مسلسل
اپنی پر مزاح باتوں سے محظوظ کرتے رہے ،خاص طور پر جب پہلی ملاقات کے موقع
پر میں نے ان سے اپنا تعارف کرواتے ہوئے اپنا نام بتایا تو لہری صاحب نے
مسکراتے ہوئے فرما یا کہ :’’ فرید،اشرف،غازی ‘‘ ،یہ تو تین نام ہوئے تو
بھائی کیا آپ تھری ان ون ہیں؟ ‘‘ ۔ان کا یہ جملہ مجھے آج بھی ان کی یاد دلا
رہا ہے اس کے علاوہ وہ اپنی گفتگوکے دوران اکثراس بات کا تذکرہ بھی کیا
کرتے تھے کہ’’ انہیں اصل کامیابی فلمسازو اداکاروحیدمراد کی فلم ’’انسان
بدلتا ہے‘‘ ریلیز ہونے کے بعد حاصل ہوئی جس میں لہری کی مزاحیہ اداکاری
کوبہت زیادہ پسند کیا گیاجبکہ وحیدمراد کے ہمراہ انہوں نے جن فلموں میں کام
کیا ان میں سے زیادہ تر نے مقبولیت اور کامیابی ھاصل کی یہی وجہ تھی کہ وہ
اداکار وحید مرادکو اس حوالے سے اپنا محسن بھی قرار دیتے تھے‘‘۔
مزاحیہ اداکاری اور لہری لازم و ملزوم تھے اوراس حوالے سے وہ ملک و قوم کا
قیمتی اثاثہ تھے۔معروف فلمی کامیڈین لہری نے اپنے فلمی کیرئیر میں کل 248
فلموں میں کام کیا ،ان کی پہلی فلم ’’انوکھی ‘‘1956 میں ریلیزہوئی جبکہ ان
کی آخری فلم ’’بابو‘‘2001 میں ریلیز ہوئی ۔لہری نے 3 فلموں میں ولن
کاکرداربھی اداکیا جن میں فلم ’’بن بادل برسات ‘‘،’’شبنم ‘‘ اور’’برسات ‘‘
شامل ہیں جبکہ لہری نے 2 فلموں ’’باغی ‘‘اور ’’ہلچل ‘‘میں ڈبل رول بھی
اداکیئے اور ایک فلم ’’رات کے راہی ‘‘ میں ان کو مشہور اداکارہ شمیم آراکے
ساتھ سیکنڈ ہیرو بننے کا بھی چانس ملا اور اس فلم میں ان پر چند گانے بھی
فلمائے گئے ۔شہنشاہ ظرافت اداکار لہری نے مختلف فلموں میں عمدہ اداکاری کا
مظاہرہ کرنے پر کل 13 نگار ایوارڈ حاصل کیئے جس سے پاکستانی فلموں میں لہری
کی مقبولیت اور کامیابی کا اندازہ لگایاجاسکتاہے۔اداکار لہری نے اپنے زمانے
کے تمام سپر اسٹارز جن میں اداکار وحیدمراد،محمدعلی،ندیم،شاہد،غلام محی
الدین وغیرہ شامل ہیں کے ہمراہ کامیاب فلموں میں عمدہ مزاحیہ اداکاری کرکے
نقادانہ فن اور فلم بینوں سے اپنے فن کا لوہا منوایا۔خاص طور پر پاکستان کے
مقبول ترین فلمی ہیرو اداکار وحیدمرادکے ہمراہ انہوں نے متعدد فلموں میں
نہایت عمدہ مزاحیہ اداکاری کا مظاہرہ کرکے شائقین فلم سے بھرپور داد حاصل
کی ۔اداکار لہری کی فلموں میں آمد سے قبل پاکستانی فلموں میں جو مزاحیہ
اداکار ی ہوتی تھی اس میں زیادہ تر اداکار اپنی جسمانی حرکات وسکنات سے
لوگوں کو ہنسایا کرتے تھے لیکن لہری نے مزاحیہ اداکاری میں ایک نئے اسلوب
کی بنیاد رکھی جس میں چبھتے ہوئے طنزیہ اور مزاحیہ برجستہ جملوں کی ادائیگی
کے ساتھ چہرے کے سنجیدہ تاثرات اور ہلکی پھلکی جسمانی حرکات کو ملا
کراداکار لہری نے مزاحیہ اداکاری کا جو اسٹائل متعار ف کروایا اسے ہم بجا
طور پر ’’لہری اسٹائل‘‘ قرار دے سکتے ہیں لیکن افسوس لہری کے انتقال کے
ساتھ ہی ان کا یہ منفرد اسٹائل بھی ان کے ساتھ ہی چلا گیا البتہ ان کی
شگفتہ اداکاری سے سجی ہوئی فلمیں ہمیں ہمیشہ ان کی یاد دلاتی رہیں گی ۔اداکار
لہری کو اردو فلموں میں تو بہت پسندکیا گیا اور انہوں نے ایک کا میاب
مزاحیہ اداکار کے طور پر خوب نام مقام اور پیسہ بنایا لیکن لہری کو پنجابی
فلموں میں بالکل پسند نہیں کیا گیا اور نہ ہی کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل
ہوسکی شاید اس کی وجہ لہری کی اداکاری کا اسٹائل تھا جو پنجابی فلموں کے
مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا تھا یہی وجہ تھی کہ لہری کو
رنگیلا،منورظریف،ننھا اور علی اعجاز کی طرح پنجابی فلموں میں کامیابی اور
شہرت حاصل نہ ہوسکی۔ اداکارلہری نے جو بھی نام اورمقام بنایا وہ انہیں اردو
فلموں کی وجہ سے حاصل ہوا،انہوں نے اپنے پورے فلمی کیرئیر میں صرف 4 پنجابی
فلموں میں کام کیاجس سے ان کی اردو فلموں میں مقبولیت کا اندازہ لگایا
جاسکتا ہے۔
اداکار رنگیلا اور منورظریف کے فلمی ہیرو بننے اور اداکار ننھا ،خالدسلیم
موٹا اور علی اعجازکی فلموں میں آمد کے بعد لہری کی مصروفیات اورمقبولیت
میں کمی آئی کیونکہ ان کو رنگیلا،منورظریف ،ننھا اور علی اعجاز کی طرح
پنجابی فلموں میں ہیرو بننے کا چانس نہیں دیا گیاورنہ شاید لہری کو اردو
فلموں کی طرح پنجابی فلموں میں بھی کامیابی ھاصل ہوتی ۔ان کی پرمزاح جملہ
بازی اورطنزیہ اندازگفتگو عام فلم بینوں کوسمجھ ہی نہیں آتا تھا یہی جہ تھی
کہ لہری کو پڑھے لکھے طبقے اور صرف اردو فلموں میں ہی مقبولیت اور کامیابی
حاصل ہوئی جبکہ پنجابی فلموں میں ان کو کوئی قابل ذکر مقبولیت اور کامیابی
نہیں ملی ۔جب ڈبل ورژن اور پنجابی فلموں کی کامیابی کا دور آیا تو لہری کی
مصروفیات کم ہونے لگیں اور وہ رفتہ رفتہ فلموں سے دور ہوتے چلے گئے جس کے
بعد لہری نے دوبارہ اسٹیج کارخ کیا اور کراچی کے ایک اسٹیج ڈرامے ’’لہری ان
ٹربل‘‘ میں شانداراداکاری کرکے یہ بات ثابت کی کہ حقیقی فنکار کسی بھی جگہ
ناکام نہیں ہوتا یہی وجہ تھی کہ ان کا یہ ڈرامہ بے حد مقبول اور کامیاب
ثابت ہوا۔
اداکار لہری نے یوں توسینکڑوں فلموں میں کام کیا لیکن اگر ہم ان کی چیدہ
چیدہ یادگارفلموں کا تذکرہ کریں توان میں فلم’’انسان بدلتا ہے‘،دامن‘،’رات
کے راہی‘،توبہ، پیغام،کنیز،آشیانہ ،عشق پر زورنہیں،آگ کا دریا،میں وہ
نہیں،دیور بھابی ،جاگ اٹھا انسان،اشارہ، تم ملے پیار ملا،صاعقہ ۔جیسے جانتے
نہیں،انجمن،افشاں،دل لگی ،تم سلامت رہو،گرہستی،چاہت،زبیدہ،میرا گھر میری
جنت،نئی لیلیٰ نیا مجنوں،جلے نہ کیوں پروانہ، آگ کا دریا،بہشت ،چراغ کہاں
روشنی کہاں،آج اور کل ،اناڑی،پیارکا موسم،انصاف اور قانون،بہارو پھول
برساؤ،نیا انداز،آج اور کل،صائمہ ،بیوی ہو تو ایسی،دھنک ،کرن اور کلی،
اورمانگ میری بھر دو ،شامل ہیں جبکہ فلم’’بابو‘‘میں مہمان اداکار کے طور پر
بھی لہری نے اچھا کام کیا یہ سب وہ فلمیں ہیں جن میں اداکار لہری کی
اداکاری دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
مایہ ناز فنکار لہری نے کافی طویل عرصہ بستر علالت پر گزارا جس کے دوران وہ
متعدد بیماریوں کا شکار ہوئے ان کو دل کی تکلیف کے ساتھ شوگر بھی ہوگئی اور
پھر شوگر اتنی زیادہ بڑھی کہان کی تین انگلیاں کاٹ دی گئیں لیکن ان کی شوگر
میں کمی ہونے کی بجائے مسلسل اضافہ ہی ہوتا رہاجس کی وجہ سے آخر کار ان کے
دونوں پاؤں بھی کاٹ دیئے گئے جس کے بعد وہ بالکل معذوری کی زندگی گزارنے پر
مجبور ہوگئے ،اداکار لہری پر1985 میں فالج کا حملہ ہوا تھا جس کے بعدوہ
تقریباً27 سال تک بیماری میں گزار کر13 ستمبر2012 کو اپنے لاکھوں مداحوں
اورلواحقین کو سوگوار چھوڑکر اس دار فانی سے کوچ کرگئے اور دنیائے فن ایک
منفرد اور صاحب طرز مزاحیہ اداکار سے ہمیشہ کے لیئے محروم ہوگئی لیکن ان کا
کام ان کی شاہکار فلموں کی صورت میں ان کے نام کو زندہ کھنے کے لیئے کافی
ہے ان کی مزاحیہ اداکاری سے سجی ہوئی یادگار یں ہمیں ہمیشہ ان کی یاد دلاتی
رہیں گی کہ فنکار جسمانی طور پر تو مر جاتا ہے لیکن اس کا فن اس کے نام کو
مرنے نہیں دیتا ۔مزاحیہ اداکاری کے حوالے سے لہری کوئی ایسا نام نہیں کہ
اسے دوچار سالوں میں فراموش کردیا جائے وہ یقیناً مدتوں اپنے فن کی صورت
میں زندہ رہیں گے۔
اداکار لہری نے آخری ایام اپنے چھوٹے بیٹے کے ہمراہ کراچی میں ا الہٰ دین
پارک کے قریب واقع ایک فلیٹ میں اپنی آخری رہائش گاہ پرگزارے جہاں ان کی
عیادت کے لیئے کئی بڑے اور نامور فنکار بھی آیا کرتے تھے جب گزشتہ دنوں
اداکارہ شبنم بنگلہ دیش سے پاکستان آئیں تو انہوں نے بھی لہری کے گھر جا
کران کی عیادت کی۔ جبکہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے پہلے دور حکومت میں
اداکار لہری کے لیئے دو ہزار پانچ سو روپے کی ماہانہ رقم بطور وظیفہ مقرر
کی تھی جو ان کو تادم مرگ ملتی رہی اس کے علاوہ نواز شریف کے دور حکومت میں
بھی ان کوعلاج معالجے کی مد میں تین لاکھ روپے دیئے گئے اس کے بعد موجودہ
حکومت نے بھی ان کی مالی امداد جاری رکھی اورحکومت کی جانب سے ان کو امدادی
رقوم کے چیک دیے جاتے رہے۔آخری دنوں میں جب اداکار لہری ہسپتال میں داخل
تھے تو اس وقت کے گورنر سندھ عشرت العباد نے بھی ان کی عیادت کرتے ہوئے ان
کوپانچ لاکھ روپے کی امداددی رقم کا چیک دیا تھاجس سے اندازہ لگایا جاسکتا
ہے کہ اداکار لہری نہ صرف فلم بینوں کے پسندیدہ اداکار تھے بلکہ سیاست
دانوں اور حکمرانوں میں بھی ان کو کافی مقبولیت حاصل تھی۔
مزاحیہ اداکار ی میں منفرد شائستہ اسلوب کے بانی، شہنشاہ ظرافت عظیم اداکار
لہری کی وفات سے پاکستان فلم انڈسٹری ایک ایسے بلند پایہ مزاحیہ اداکارسے
محروم ہوگئی ہے جس کا نعمل بدل ملنااگرناممکن نہیں تو مشکل ضرورہے۔ اداکار
لہری 13 ستمبر2012 کی صبح طویل علالت کے بعد لیاقت نیشنل ہسپتال کراچی میں
انتقال کرگئے جس کے بعد سینکڑوں سوگواروں کی موجودگی میں انہیں یاسین آباد
کے قبرستان میں سپردخاک کردیا گیا ۔انتقال کے وقت لہری کی عمر83 سال
تھی،مرحوم نے لواحقین میں 5 بیٹوں،2 بیٹیوں اوربیوہ کو سوگوار چھوڑا ہے۔صا
حب طرزاداکار لہری کی نمازہ جنازہ اور تدفین13 ستمبر 2012 کی شام کو کراچی
میں ہوئی جس میں اہل خانہ ،فنکاروں ،سیاست دانوں ،وزرا ،صحافیوں اورسینکڑوں
مداحوں کے ہمراہ صحافیوں اور اہلہ علاقہ کی ایک بڑی تعدادنے شرکت کی۔اداکار
لہری کی وفات کے ساتھ ہی مزاح کے ایک منفرد دور کا خاتمہ ہوگیا، ان جیسا
صاحب طرزفنکار پیدا ہونا بہت مشکل ہے، ان کی وفات سے جو خلا پیداہواہے وہ
شاید کبھی پورا نہ ہوسکے۔ میری دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ لہری مرحوم کو غریق
رحمت کرتے ہوئے ان کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر
جمیل کی توفیق عطا فرمائے(آمین |