میجر عزیز بھٹی شہید کا آج 12 ستمبر کو 52واں یوم شہادت
بھر پور طریقے سے منایا جا رہا ہے۔اس موقعہ پر شہید کی آخری آرام گاہ پر
پھولوں کی چادر چڑھائی جائے گی اور فاتحہ خوانی کی جائے گی۔اس کے علاوہ ملک
بھر میں مختلف تنظیموں کی جانب سے شہید کی یاد میں مختلف تقریبات کا بھی
اہتما م کیا جائیگا۔میجر عزیز بھٹی شہید ،میجر شبیر شریف شہید اور جنرل
راحیل شریف کے ماموں تھے۔اس طرح اس خاندان کو دو اعلیٰ فوجی اعزاز نشان
حیدرحاصل کرنے کا شرف بھی حاصل ہوا۔
راجہ میجر عزیز بھٹی شہیدکے والد ملازمت کے سلسلے میں ہانگ کانگ میں مقیم
تھے جہاں ان کے ہاں 6 اگست 1928 کو میجر عزیز بھٹی شہید پیدا ہوئے۔دوسری
جنگ عظیم کے اختتام پر ان کے والد اپنے آبائی گاؤں لادیاں (گجرات) واپس آ
گئے۔قیام پاکستان کے بعدمیجر عزیز بھٹی شہید 21جنوری1948 کو ملٹری اکیڈمی
میں شامل ہو گئے۔1950میں ان کو پاکستان ملٹری اکیڈمی کی پہلے ریگولر کورس
کی پاسنگ آؤٹ پریڈ میں اس وقت کے وزیر اعظم شہید قائد ملت لیاقت علی خان نے
بہترین کیڈٹ کے اعزاز کے علاوہ اعزازی شمشیر اور نارمن گولڈ میڈل سے بھی
نواز ا۔اس کے بعد آپ 17 پنجاب رجمنٹ میں سکینڈ لیفٹینٹ کے طور پر شامل ہوئے
اور ترقی کرتے ہوئے آپ میجر کے عہدے پر پہنچ گئے۔
ستمبر 1965 کو ازلی دشمن بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا ،دشمن کا رادہ
تھا کہ شام تک لاہور پر قبضہ کر لیں گے اور صبح کا ناشتہ لاہور کے جم خانہ
میں کریں گے شاید ہندو قوم یہ بھول گئی کہ جن بہادر سپوتوں کے ساتھ اس کا
واسطہ پڑا ہے وہ کٹ تو سکتے ہیں لیکن کھبی جھک نہیں سکتے ۔بھارت کے پاس
فوج،ٹینک، توپ خانہ اور گولہ بارود کی کمی نہ تھی لیکن اس کے بر عکس ہماری
فوج اور قوم کے پاس جذبہ ایمانی تھا اور اسی جذبہ کے تحت ہم نے دشمن کے
دانت کھٹے کر دیئے اور اس کے ارادوں پر پانی پھیر دیا۔
اس وقت آپ لاہور کے علاقے برکی کے مقام پر تھے اور اپنی کمپنی6 کی کمان کر
رہے تھے۔اسی کمپنی کے دو پلاٹون نہر کے دوسرے کنارے پر موجود تھے۔آپ نے
اگلے مورچوں پر موجود پلاٹون کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا جبکہ اس وقت
دشمن بھر پور حملے کر رہا تھا اور اسے جنگ میں ٹینکوں اورتوپ خانہ کی بھی
مدد حاصل تھی لیکن ہمارے یہ بہادر سپوت دشمن کے سامنے آہنی دیوار بن کر ڈٹ
گئے اور خوب مقابلہ کیا۔اسی اثناء میں دشمن نے 9اور10ستمبر کو اپنی پوری
بٹالین سے اس سیکٹر پر ایک بھر پورحملہ کر دیا۔اس صورت حال میں آپ کو واپس
اپنی پوزیشن پر آنے کا حکم صادر ہوا ،لہذا آپ لڑائی جاری رکھتے ہوئے نہر کی
جانب بڑھتے رہے لیکن یہاں دشمن پہلے سے قابض ہو چکا تھا ۔لیکن آپ ڈٹے رہے
اور ایک سخت مقابلے کے بعد دشمن کو یہاں سے ہٹانے میں کامیاب ہو گئے اور اس
وقت تک لڑتے رہے جب تک تمام جوان اور گاڑیاں نہر کو پارنہ کر لیں۔یہاں پہنچ
کر آپ نے پھر ایک دفعہ کمپنی کو دفاع کے لئے تیار کیا ۔یہاں دشمن کی طرف سے
بھر پور گولہ بھاری جاری تھی آپ نے ڈٹ کر دشمن کے حملوں کا مقابلہ کیا ۔اسی
اثناء میں دشمن کے ٹینک کا ایک گولہ آپ کو آ کر لگا اور آپ موقعہ پر ہی
شہید ہوکر سرخ رو ہو گئے ۔اس دن 12ستمبر 1965 کا دن تھا۔
ستمبر 1965 کو اس وقت کے صدر مملکت فیلڈ مارشل ایوب خان نے 91افسروں اور
فوجیوں کو 26بہادری کے کارنامے انجام دینے والوں کو تغمات اور اعزات سے
نوازا۔انہی تغمات میں سے سب سے بڑا تغمہ نشان حیدر میجر عزیز بھٹی شہید کو
عطا کیا گیا۔میجر عزیز بھٹی شہید نشان حیدر پانے والے تیسرے شہید تھے۔ |