کل کی بات

اچھے کل کا نتظار سیاسی قیادت کو ہمیشہ آج کے دن بڑی بڑی غلطیاں کرنے پر اکساتارہا ہے۔اس امید پر غلطیاں کی گئیں کہ کل کو نہ صرف انہیں ترک کردیا جائے گا۔بلکہ ان کا ازالہ بھی کرلیا جائے گا۔یہ سوچ ہمیشہ کارخانہ قدرت کی مخصوص چال کی نذر ہوگئی۔آنے والاکل ان کی توقع کے برعکس نکلا اور ان کی کی گئی غلطیاں آنے والے کل کے مذید بوجھل بننے کا سبب بن گئیں۔قریبا تمام قائدین اس کوتاہی کا کفارہ اداکرچکی مگر نہ راہ بدلنے کا آمادہ ہے نہ وطیرہ۔جب حقیقی قیادت وطن واپس آچکی تو سابق صدر اور آرمی چیف جنرل (ر)پرویز مشر ف کچھ اسی قسم کی بدتدبیری کے شکارہوئے۔وہ اگر چہ محترمہ کے سا تھ بطور صدر کام کرنے کا ذہن بنا چکے تھے۔این آر او ان کے تخلیق نہ تھی۔مگر ساری جاتی دیکھتے ہوئے انہوں نے آدھی بانٹ دینے کا راستہ چن لیا۔و ہ بے نظیر کو وزیر اعظم قبول کرنے پر آمادہ تھے۔بظاہر تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ مشرف کے اختیارات اور برتری جاری رہنے کے امکانا ت تھے۔مگر ایسا نہیں ہوسکا۔مشرف نے آنے والے دنوں کی جو پلاننگ کی تھی۔دھری کی دھری رہ گئی۔قدرت نے اپنے نظام تلے ساری پلاننگ روند کر رکھ دی۔ فوجی آمر کو بدتدریج اپنی قوت سے دستبردار ہونا پڑگیا۔پے در پے حالات ان کے لیے غیرموافق ہوتے چلے گئے۔پچیس نومبر کو نوازشریف پاکستان واپس آئے تو اس غیر متوقع آفتاد نے مشرف کو دھچکہ لگایا۔اس سے قبل وہ چیف جسٹس کے معاملے پر پریشان تھے۔نوازشریف اور بے نظیر کی واپسی نے انہیں مذید بد حواس کردیا۔پھر جب محترمہ کی ناگہانی وفات ہوگئی۔تو مشرف کے ہاتھ سے معاملا ت مکمل طور پر نکل گئے۔خیال کیا جاتاہے۔کہ اگر محترمہ کے ساتھ یہ حادثہ نہ ہوتاتو شاید پرویز مشرف ان کے ساتھ مل کر نوازشریف کو دیوار سے لگانے کا راستہ اپناتے۔مگر محترمہ قتل کردی گئیں۔پرویزمشرف کے لیے اچھے او رمحفوظ کل کے لیے کیے گئے سارے بندوبست دھرے کے دھرے رہ گئے۔

سابق صدر آصف زرداری نے کہا ہے کہ اگلی حکومت پی پی بنائے گی۔نوازشریف کا کوئی مستقبل نہیں۔انہیں نہ پہلے حکومت کرنی آئی تھی۔نہ آج۔ان کی سیاست کاباب بند ہوچکاہے۔او روہ ماضی کا قصہ بن چکے ہیں۔نوازشریف نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا۔سابق صدر ان دنوں کے پی کے میں پارٹی رہنماؤں سے ملاقاتیں کررہے ہیں۔اسی دوران ہی انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔نئے الیکشن سر پرہیں۔پی پی سمیت سبھی سیاسی جماعتیں سیاسی جوڑ توڑ میں مصروف ہیں۔ماضی کے اتحادی ایک دوسرے سے رابطے کررہے ہیں۔اور بدلتے حالات میں نئے سیاسی اتحاد بننے کی باتیں ہورہی ہیں۔اگلے الیکشن میں کامیاب ہوکر اگلی حکومت بنانے کے لیے تحریک انصاف اور پی پی کے درمیان سخت مقابلہ ہے۔ابھی کل تک صورت حال بالکل مختلف تھی۔مسلم لیگ ن بھی اس مقابلے میں شریک تھی۔بلکہ سب سے آگے تھی۔مگر نوازشریف کی نااہلی کے بعد صورتحال یکسر بدل گئی۔اگر وہ نااہل نہ ہوتے تو سیاسی منظر نامے میں پی پی دور دور تک نظرنہیں آرہی تھی۔لگ یہی رہاتھا۔کہ مسلم لیگ ن کا مقابلہ اگلے الیکشن میں پی ٹی آئی سے ہونے جارہا ہے۔ایک مسلسل پراپیگنڈے کے ذریعے ایسی فضا قائم کردی گئی ہے۔جیسے اگلے سیاسی منظر نامے میں مسلم لیگ ن کی کوئی جگہ نہیں۔زرداری صاحب اسی منظرنامے کو ہائی لائٹ کرنے کی کوشش میں ہیں۔مسلم لیگ ن کی طرف سے سابق صدر کے اس دعوے کو دیوانے کی بڑ قرار دیا جارہاہے۔خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ لوگ ابھی تک زرداری دور کے گرینڈ سکینڈلز کو نہیں بھولی۔جانے کس بنیاد پر وہ امید لگائے ہوئے ہیں۔

مسلم لیگ ن او رپی پی دوبڑی جماعتیں ہیں۔ان کے باہمی تعلقات عموما ناخوشگوار ہی رہے ہیں۔سبب برابر کی چوٹ کی جماعتیں ہونا ہے۔دونوں نے اب تک ایک دوسرے کو مار کر ہی راستہ بنانے کا فلسفہ اپنایاہے۔اس روش نے ان کے مشرکہ دشمن کو ہمیشہ فائدہ پہنچایا۔یہ جماعتیں مسلسل نقصان اٹھاتی رہیں۔مگر اب بھی زرداری صاحب اس ایک دوسرے کی لاش پر کھڑا ہوکر اونچاہونے کی سیاست ترک کرنے پر آمادہ نظرنہیں آرہے۔وہ نوازشریف کی اس غلطی سے سبق سیکھنے پر نہیں ہورہے۔جو انہوں نے اپنے حالیہ دور میں کی۔ سبھی نکتہ دان متفق ہیں کہ نوازشریف نے اپنے موجودہ دور میں پی پی سے بگاڑ پیدا کرکے غلطی کی۔انہوں بیک وقت پی پی اور اسٹیبلشمنٹ سے معاملات بگاڑلیے۔جس کا خمیازہ بھگتا۔انہیں کم از کم کسی ایک سے تعلقات بہتر رکھنے چاہیے تھے۔نوازشریف نے اپنا اصل ٹاسک غیر جمہوری قوتوں کو بنایا۔مگر جانے کیوں وہ پی پی سے معاملات خراب کربیٹھے۔کچھ لوگ اس خرابی کو سابقہ وزیر داخلہ چوہدری نثار سے جوڑتے ہیں۔جو کسی طرف سے ملنے والے اشاروں پر پی پی سے چھیڑ چھاڑ کرکے دونوں جماعتوں کے درمیان دوریاں بڑھاتے ہے۔ممکن ہے۔چوہدری نثار کا رول واقعی ایسا ہی ہے۔مگر ان کی شرارتوں کی راہ روکنا بھی تو سابق وزیر اعظم میاں نوازشریف کی ذمہ داری تھی۔وہ اپنے وزیر داخلہ کو بذور اس کام سے روک سکتے تھے۔ان سے استعفی لیاجاسکتاتھا۔ان کی وزارت بدلی جاسکتی تھی۔نوازشریف نے چوہدری نثار کے معاملے پر کوتاہی دکھائی۔ وزیر داخلہ کے ساتھ ناراضگی کی بیشتر خبریں تو لیک ہوئیں۔مگر اصل مسئلہ جو دونوں بڑی جماعتوں کے درمیان اختلافات بڑھانے سے متعلق تھا۔اس کے بارے میں نوازشریف کوئی بڑاسٹینڈ نہ لے پائے۔اگر وہ پی پی کے ساتھ بداعتمادی کی نہچ تک نہ پہنچتے تو ان کی نااہلی اتنی آسان نہ ہوتی۔اول تو انہیں نااہلی کا سامنا ہی نہ ہوتا۔اگر بالفرض وہ نااہل کروابھی دیے جاتے۔تو سڑکوں پر پی پی ان کے ساتھ ہوتی۔نوازشریف نے سستی کی اور آج سزابھگت رہے ہیں۔لگتاہے زرداری صاحب بھی کسی روز اپنی آج کی غلطیوں کا خمیازہ بھگتتے نظر آئیں گے۔وہ اسٹیبلشمنٹ کی تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی کو سمجھ نہیں پارہی۔آج زرداری صاحب پھینکے گئے دانے چننے میں مصروف ہیں۔یہ دانے شاید انہیں ایک بار پھر صدارت یا وزارت عظمی دلوادے مگر یہ کس قدر مضبوط اور مستحکم ہونگے۔اگر پی پی آج مسلم لیگ ن جیسی غلطی نہ کرے تو اپنا کل محفوظ بناسکتی ہے۔زرداری صاحب میاں صاحب کو غلطیوں سے سبق نہ سیکھنے کا طعنہ تو دے رہے ہیں۔مگر کیا وہ خود بھی اپنے آنے والے کل کے لیے کچھ کرنے پر آمادہ ہیں۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 123773 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.