زندگی کا پہلا دورہ گلگت

یوں تو انسان کی خوائش ہوتی ہے کہ وہ ساری دنیا کی سیر کر لے لیکن تین مقامات دیکھنے کا مجھے جنون کی حد تک شوق تھا۔ وہ تھے مکہ۔مدینہ۔ ویلی کشمیر اور گلگت بلتستان۔ بھارتی مقبوضہ کشمیرکی ویلی کا تو ابھی کوئی چانس نظر نہیں آ رہا لیکن مکہ۔مدینہ اور گلگت کا جب بھی میں نے ارادہ کیا تو اچانک غیر متوقع حالات و واقعات آڑے آ جاتے رہے۔ جب اﷲ تعالی کو منظور ہوا تو مکہ۔مدینہ کی حاضری کا انتظام بھی راتو ں رات ہو گیا۔ گلگت بلتستسان کے بارے میں ہم آزاد کشمیر کے لوگوں کے دلوں میں بڑا خوف پایا جاتا ہے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ یہاں امن و امان کا بڑا مسلہ ہے۔ بائی روڈ سفر بہت لمبا اور دشوار گزار ہے ۔ گزشتہ سال جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے سپریم ہیڈ امانﷲ خان کو جب ان کے آبائی خطے گلگت میں دفن کرنے کا جماعتی فیصلہ ہوا تو مجھے سٹنٹ پڑنے کی وجہ سے ساتھیوں نے سفر نہ کرنے کا مشورہ دیاجبکہ ہوائی سفر میں گلگت کے لیے قبل از وقت ٹکٹیں پہلے تو جار ہی نہیں کی جاتیں اور اگر سیٹ مل بھی جائے تو وقت پر فلائٹ کے جانے کا پورا یقین نہیں ہوتا۔ اس بار جب میں نے پکا ارادہ کیا تو راستے خود بخود بنتے گے۔ اسلام آباد ائر پورٹ پر پہنچ کر فلائٹ کا پتہ کیا تو کونٹر پر انتہائی بااخلاق افسر نے مجھے مشورہ دیا کہ میں ٹکٹ لیے بغیر صبح پانچ بجے اس کے کونٹر پر پہنچ جاؤں وہ مجھے بھیجنے کی پوری کوشش کرے گا اور ایسا ہی ہوا۔ نصف گھنٹے کے اندر اندر میں جہاز پر سوار ہو گیا۔ صبح چھ بجے کا وقت تھا۔ گلگت جسکو بھی اچانک آمد کا فون کیا تو ہر ایک کا فون بند جا رہا تھا۔ ہر ایک نے مجھے اکیلے جانے سے منع کررکھا تھا لیکن اب میرا جہاز آدھے آسمان پہنچ چکا تھا۔ جہاز اڑنے سے پہلے گلگت اسمبلی کے چاک و چو بند رکن محمد نواز خان ناجی کا بھی جب فون نہ لگا تو میں نے اپنی آمد کا پیغام چھوڑ دیا۔ ٹھیک ایک گھنٹہ بعد جب جہاز گلگت اترا تو وہ تمام باتیں میرے زہن میں گھومنے لگیں جو یورپ میں قیام کے دوران وہاں سے آنے والے سیاح اس خطے کی قدرتی خوبصورتی کے حوالے سے مجھے بتایا کرتے تھے۔ میں سوچا کرتا تھا کہ میں کتنا بد نصیب ہوں کہ دنیا بھر کے لوگ ہمارے اس خوبصوت ملک کو دیکھنے جاتے ہیں لیکن کشمیرمنقسم ہو جانے کے باعث ہم خود ایک خطے سے دوسرے میں نہیں جا سکتے۔ گو گلگت بلتستان میں ایسی پابندیا ں نہ تھیں لیکن آزاد کشمیر حکومت نے پاکستان کے ساتھ معاہدہ کراچی کر کے اس خطے کو جس طرح نظر انداز کیا اس سے ہمیں یہی تاثر ملتا تھا کہ گلگت کوئی ایسی خوف ناک جگہ ہے جہاں عام انسان کو جانے کے بارے سوچنا بھی نہیں چائیے۔ برحال جب میں گلگت ائر پورٹ پر اترا نظم و ضبط بہت ہی اچھا نظر آیا۔ سٹاف کا رویہ بڑا مہذبانہ تھا۔ جب میں اپنا بکس اٹھا کر بائر نکلنے لگا تو ایک افسر نے مجھے کہا آپکے بھیگ پر ٹیگ نہیں آپ کسی اورکا سامان تو نہیں اٹھا کے لے جا رہے تو میں نے کہا میں چانس کی سیٹ پر آیا ہوں اسلام آباد والوں نے ٹیگ لگایا ہی نہیں۔ اس نے مسکرا کر مجھے جانے دیا۔ جس کسی سے رہنمائی کی درخواست کی اچھا جواب ملا۔ پاکستان کے جس بھی کسی اہر پورٹ پر میں کبھی اتر وہاں پہلے تو مسافروں کو قطاریں تور کر افر تفری کا ماحول پیدا کرتے دیکھا۔ باہر نکلنے پر ٹیکسی ڈرائیورز اور گدا گر مسافروں کے ہوش اڑا دیتے ہیں۔ کسی گداگر کو پاکستانی کرنسی دی جائے تو وہ اسے توئین سمجھ کر ڈالر پونڈ اور یورو کا مطالبہ کرتا ہے جبکہ ٹیکسی والے بھی مسافر کو سوچنے کا موقع نہیں دیتے۔ گلگت ائر پورٹ پر ایسا کوئی تجربہ نہیں ہوا۔ ٹیکسیاں اپنی اپنی جگہ پر کھڑی تھیں۔ جس بھی مسافر کو ٹیکسی کی ضرورت پڑی وہ خود ٹیکسی کے پاس گیا۔ میں نے سوچا کہ کسی قریبی ہوٹل میں جا کر ناشتہ کر لوں تو اتنے میں دوست جاگ جائیں گے اور شاید کسی سے رابطہ بھی ہو جائے۔ ایسا ہی ہوا۔ رکن اسمبلی نواز خان ناجی صاحب کا فون آ گیا۔ کوٹلی آزاد کشمیر سے لبریشن فرنٹ کے چیف ارگنائزر راجہ حق نواز خان نے بھی مقامی ساتھیوں کے نمبرز دئیے۔ ائرپورٹ پر قائم مدینہ ٹو ہوٹل میں میں نے ناشتہ کیا۔ وہاں بے شمار غیر ملکی بھی تھے۔ ہوٹل کے ملازمین کی ڈیلنگ کسی بھی یورپی ملک کے سٹاف سے کم نہ تھی۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں بھی دال۔ چھولے چاول اور چپاتی کے علاوہ اکثر ہوٹلوں میں اور کوئی چیز نہیں ملتی۔ کھانوں میں مرچ مسالہ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ غیر ملکی مسافر پہلے مرحلے میں ہی معدے میں گیس کا شکار ہو جاتے ہیں لیکن مدینہ ٹو ہوٹل میں ناشتے کی چوئس تھی۔ زیادہ تر لائٹ قسم کے چینی کھانے مل رہے تھے۔ نواز خان ناجی اتنے دور تھے کہ انکو پہنچے میں دو گھنٹوں کا وقت چائیے تھا ۔ میں نے ہوٹل والے سے پوچھا کہ مرکزی قبرستان جہاں امان اﷲ خان دفن ہیں وہ کتنے دور ہے تو اس نے کہا ٹیکسی پر پندرہ منٹ کا سفر ہے۔ رکن اسمبلی نواز خان ناجی صاحب کے آنے تک میں نے امان اﷲ خان کی قبر پرحاضری دینے کا فیصلہ کیا۔ ناجی صاحب آئے تو وہ پہلے مجھے اسمبلی سیکرٹریٹ لے گے جہاں ہمیں نواز ناجی صاحب اور سٹاف افسر مسٹر شگری اسمبلی ہال کا دورہ کروایا گیا سیکرٹری اسمبلی سے پوچھا گیا کہ وزیر اعلی سمیت اور کون کون سیکرٹریٹ میں موجود ہے۔ معلوم ہوا وزیر اعلی اور گورنر موجود نہیں لیکن ڈپٹی سپیکر جعفر اﷲ خان موجود ہیں جنہوں نے سیکرٹر ی اسمبلی اعبداﷲ خان کی طرف سے رابطہ کرنے پر بلا تاخیر ہمیں ملاقات کا شرف بخشا۔ آزاد کشمیر سے آمد کی خبر ملنے پر وہ ہمیں بڑی گرم جوشی سے ملے اور انتہائی دلچسپ و معلوماتی گفتگو کی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ انکی حکومت کی سب سے بری کامیابی کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ امن و امان اور لوٹ مار کے بجائے خدمت گاری کا جذبہ پیدا کرنا۔ انہوں نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا یہاں بہت زیادہ مذہبی فسادات ہوا کرتے تھے۔ ہم نے ہر علاقے و فرقے کے لوگوں کے ساتھ باالمشافہ ملاقاتیں کیں۔ غلط فہمیاں دور کرنے کے لیے جد و جہد کی۔ لوگوں کو پیار محبت اور امن و سکون کے ساتھ مل جل کر زندگی گزارنے کے لیے امن ترقی و خوشحالی میں کردار ادا کرنے کی درخواست کی۔ انہیں باور کروایا کہ ہم ایک ہیں ایک ہو کر رہنا ہے اور امن کے بغیر ترقی و خوشحالی نہیں آ سکتی۔ ہم تمام پس منظر کے مالک لوگوں کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ہمارے جذبے کی قدر کی اور آج ہم امن و خوشحالی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سالانہ بجٹ کے بارے سوال پر انہوں نے کہا کہ ترقیاتی بجٹ ۱ٹھاراں عرب جبکہ غیر ترقیاتی بجٹ بتیس عرب ہے۔ سی پیک میں سے ہمیں بائیس عرب دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت انفراسٹرکچر کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ڈپٹی سپیکر سے ملاقات کے بعد نواز خان ناجی صاحب نے مجھے مہاراجہ کے آخری گورنر گھنسارا سنگھ کی رہائش اور وہ جگہ دکھائی جہاں اسے مرزا کرنل حسن جرال کی قیادت میں کپتان جابر خان۔ شاہ خان اور صوبیدار صفی اﷲ خان نے گرفتار کیا تھا۔ کرنل حسن خان اور ساتھی بھی اسے حاطے میں مدفون ہیں۔ (باقی اگلی قسط میں)
(باقی اگلی قسط میں)
 

Quayyum Raja
About the Author: Quayyum Raja Read More Articles by Quayyum Raja: 55 Articles with 47595 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.