تیرتے گاؤں

پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں کشتیوں میں گاؤں ، سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں

دنیا کے مختلف ممالک میں سطح آب پر بنی بستیوں کے بارے میں تو پڑھتے رہتے ہیں، جو بانسوں اور شہتیروں کے سہارے بنائے گئے ،گھروں پر مشتمل ہیں ۔ پاکستان کے صوبہ سندھ میں بھی ایک ایسا گاؤں موجود ہے جو منچھر جھیل کے وسط میںکشتیوں میں آباد ہے، جس میں درجنوں خاندان رہتے ہیں، اس کے علاوہ میانمار میں کشتیوں پر تیرتے ہوئے کھیت اور چندتیرتے ہوئے گاؤں کا تذکرہ نذر قارئین ہے۔

منچھر جھیل، کراچی سے 280کلومیٹر کے فاصلے پر ضلع دادو کے تعلقہ جوہی میں کیرتھر کے پہاڑی سلسلے میں سیہون شریف سے 18کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ اسے ایشیا میں میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل کہا جاتا ہے،جو پاکستان کے بڑے آبی ذخائر میں سے ایک ہے۔ اس کے بارے میںکہا جاتا ہے کہ یہ جھیل موئن جو دڑو اور ہڑپہ کی تہذیبوں سے بھی زیادہ قدیم ہے لیکن کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ 1930میں سکھر بیراج کی تعمیر کے وقت یہ جھیل بنائی گئی تھی۔ اس میں پانی کا منبع بلوچستان کی کیرتھر پہاڑیوں سے بہہ کر آتا ہے لیکن بارش کا پانی بھی جھیل کی سطح آب میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ اس کا رقبہ موسم کے اعتبار سے گھٹتا بڑھتا رہتاہے، جو عموماً 350سے 520رقبے پر مشتمل ہوتا ہے اور یہ جھانگارہ سے شاہ حسن بوبک تک پھیلی ہوئی ہے ۔

ویسے تو قدرتی مناظر اور جنگلی حیات کی وجہ سے یہ جھیل دنیا بھر میں مشہورہے لیکن اس کا اصل حسن ،سطح آب پر لکڑیوں کی کشتیاں ہیں، جن پرگاؤں آبادہے۔ اسے دیکھنے کےلیے ملکی و غیر ملکی سیاح آتے ہیں،جو منچھر جھیل کے کنارےسےکشتی کرائے پر لے کر اس بستی میں جاتے،اوریہاں کے باسیوں کے طرز زندگی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ اس تیرتے ہوئے گاؤں میں ’’موہانا‘‘ قبیلے کے افراد رہتے ہیں، جنہیں ’’میر بحر‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ کئی نسلوں سے کشتیوں پرزندگی گزار رہے ہیں۔یہاں کے لوگوں کے مطابق چند عشرے قبل تک یہاںتقریباً 400 کشتیاں تھیں، جن پرسیکڑوںوں خاندان،رہتے تھے، لیکن اب ان کی تعداد گھٹ کر بہت کم رہ گئی ہے۔ ان لوگوں کا کھانا پینا، سونا، حتیٰ کہ شادیاں بھی انہی کشتیوں پرہوتی تھیں۔

دو کشتیاں ملا کر ان پر چھپر ڈال دیاجاتا ہے، جو جھونپڑے کی مانند معلوم ہوتاہے، ، یہ چھپر سطح آب پر رہنے والے باسیوں کو دھوپ، سردیوں کی یخ بستہ ہواؤں اور بارش سے محفوظ رکھتا ہے۔ برسات کے دنوں میں جب جھیل میں سیلابی کیفیت ہوتی ہے، توکشتیوں کو کنارے پر لگادیا جاتا ہے۔ان آبی گھروں کےاندرکمروں کی صورت میں بانس اور چٹائیوں کی مدد سے کمپارٹمنٹ بنے ہوتے ہیں، جن میں چارپائیاں بھی بچھی ہوتی ہیں۔ پانی کی ٹنکیاں،اشیائے ضروریہ، باہرکی جانب رسی پر لٹکےرنگ برنگے کپڑےلوگوں کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں۔اس تیرتی ہوئی بستی کے رہائشیوں کا یہی کل اثاثہ ہے۔ اس جھیل میں اب ایسی چند ہی رہائش گاہیں رہ گئی ہیں، ورنہ کبھی یہاں پورا ’’محلہ‘‘ آباد تھا۔ کشتیوں کے ساتھ جھیل میں بنے خشکی کے چھوٹے چھوٹے قطعات یا تقریباً 50مربع گز رقبے پر مشتمل چھوٹے چھوٹے جزائر بھی ماہی گیروں کا مسکن رہے ہیں، جو اب جھیل سے نکل کر کنارےپر آباد ہو گئے ہیں۔ ان ننھے منے جزیروں میں سے ایک پر بنا ،بڑا سا مٹی کا چولھا اور دوسرے پر عمارت کے آثار اب بھی موجود ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بھی کبھی آبادی تھی۔ اکثر کشتیوںکے اندرجھولے بھی ہیں، جن میں یا تویہ لوگ اپنے بچوں کو سلاتے ہیںیا پھر بیٹھتے ہیں۔۔ ان کا بستر رنگ برنگی رلیاں ہوتی ہیں، جو دن کے وقت کشتی کے چھپرو ں پر ڈال دیتے ہیں۔ہر کشتی میں آٹھ سے دس افراد رہتے ہیں۔ ان کا پیشہ ماہی گیری ہے۔ گاؤں کے ہر خاندان کے پاس ایک چھوٹی کشتی بھی ہوتی ہے جس پر بیٹھ کر یہ لوگ جھیل میں مچھلیاںپکڑتے ہیں۔ ان کا رہن سہن خالص قدرتی ماحول پر مبنی ہے، موم بتی یا لالٹین جلا کر رات کی تاریکی میں اجالا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جب کہ ایک حصےمیںانہوں نے مٹی کے چولہے بنائے ہوئے ہیں جن میں آبی پودے اور جھاڑیوں کو خشک کرکے آگ جلاتے ہیں،ان پر کھانا پکایا جاتا ہے۔ جھیل میں کنول کی بیلوں کی بہتات ہے۔ زیادہ تر افراد، کنول کے بیجوں، کلیوں اور اس کی جڑوں کو بطور سبزی پکا کر کھاتے ہیں جو ان کی پسندیدہ خوراک ہے۔ ان کی خواتین کشتیوں پر ہی کپڑے دھوکر سکھاتی ہیں۔ اکثر سائبریا اور دیگر ٹھنڈے ممالک سے پرندے منچھر جھیل میں آتے ہیں،ان پرندوں کی متعدد اقسام ہیں۔ مثلاً ہنس لاکو جانی، راج ہنس، آڑی (آری جل مرغی) نیگری ( نیل سر) کا نیرو (چونچ بزا) ڈگوش ( چھوٹی بطخ) کنگھا ( لنگور) چنچلوں ( چکیکلو بطخ) گنگ مرغیاں اور مختلف بطخیںوغیرہ ، جب کہ مقامی پرندے جن میں کلغی والے ہنس شامل ہیں، کشتیوں پر آکر بیٹھ جاتے ہیں ،جنہیں یہ لوگ پکڑکر فروخت کردیتے ہیں، اس سے انہیں گزراوقات کے لیے کچھ روپے مل جاتے ہیں۔ جھیل کے وسط میں ایک مزار ہے جو دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے آبی جھاڑیوں میں چھپ گیا ہے۔

دس سال قبل تک منچھر جھیل میں 400 اقسام کی مچھلیاں آبی حیات کی صورت میں تھیں جس کی وجہ سے گاؤں کے باسی خوش حال زندگی گزارتے تھے، لیکن اب یہاں کی صورت حال ناگفتہ بہ ہے اور پاکستان کی یہ تیرتی ہوئی بستی بھی معدومیت کے قریب ہے۔ قریبی علاقوں میں صنعتوں کے قیام کی وجہ سے فضلا بہہ کر جھیل میں آتا ہے جس کی وجہ سے اس کا پانی زہریلا ہوگیا ہے اور مچھلیوں کی صرف 40 اقسام باقی رہ گئی ہیںجب کہ غیر ملکی پرندوںکی آمد میں بھی کمی واقع ہوئی ہے ۔بستی کے لوگ جو مچھلیاں پکڑتے ہیں انھیں ایجنٹ کم قیمت میں خریدتے ہیںجب کہ خود بازار میں چار گنا زیادہ نرخ پر فروخت کرتے ہیں۔ اس وجہ سےیہاں کےزیادہ تر باسی نقل مکانی کرچکے ہیں ۔

ٹماٹر کا باغ
بابل و نینوا کے معلق باغات کے بارے میں تو سنا تھا لیکن میانمار میں سطح آب پر تیرتے ہوئے باغات اور کھیت موجود ہیں جن میں پھل اور سبزیاں اگائی جاتی ہیں۔ میانمار کی ریاست ’’شان‘‘ میں ضلع ٹانگی کے نیاشیوکے قصبے کے نزدیک پہاڑوں کے درمیان سطح سمندر سے 2900فٹ کی بلندی پر ’’انلے جھیل ‘‘ ہے، جس کی لمبائی 14اور چوڑائی سات میل ہے۔جھیل میں درختوں کے بڑے بڑے شہتیروں پر مضبوط پلیٹ فارم بنا کر جھونپڑیوں پر مشتمل ایک گاؤں بنایا گیا ہے جسے ’’لارپاگاؤں‘‘ کہتے ہیں، اس کے باسیوں نےبڑی بڑی کشتیوں کے بیڑے بنا کر بانسوں کی مدد سے کیاریاں بنائی ہیں، جن میں سبزیاں، پھل اور ٹماٹر کی کاشت کی جاتی ہے۔ اس آبی کھیت میں سب سے زیادہ ٹماٹراگائے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے اس کا نام’’تیرتا ہوا ٹماٹر کا باغ‘‘ رکھ دیا گیا ہے۔ اس باغ میں وافر مقدار میں سبزیاں بھی اگائی جاتی ہیں، جن کی فروخت سے گاؤں کے افراد خوش حال زندگی بسر کرتے ہیں۔

ویت نام کا تیرتاگاؤں
ویت نام کے شمال مشرق میں خلیج ’’ہالانگ‘‘ ہے جس کی سطح آب پر تیرتا ہوا گاؤں ہے، جودنیابھر سے آنے والے سیاحوں کے لیے باعث کشش ہے۔اس گاؤں کوایک صدی قبل جنگ کی تباہ کاریوں کی وجہ سے سرحدی قصبات اور شہروں سے نقل مکانی کرنے والے خاندانوں نے آباد کیا تھا ۔ ویت نام کی ہنگاموں بھری زندگی سے دور یہ ایک پرسکون جگہ ہے، جہاں کے لوگ سمندر کی تند و تیزلہروں کے رحم و کرم پرہیں،لیکن پرسکون زندگی گزار رہے ہیں۔جب لوگ یہاں پہنچے تو خلیج کے آس پاس کا تمام علاقہ چٹانی زمین پرمشتمل تھا، ہے جہاں نہ تو کاشت کاری ہوسکتی تھی، اور نہ ہی کوئی معاش کا ذریعہ تھا۔چناں چہ لوگوں نے بڑی بڑی کشتیاں بنا کران میں بانس اور کھپریل کی مدد سے گھر بنائے جو بعد میں ’’محلّوں‘‘ کی شکل اختیار کرگئے۔ یہاں کے باسیوں کی گزراوقات کا ذریعہ ماہی گیری ہے۔ وہ دن بھر ، مچھلیوں کا شکار کرتے ہیں، شام کو آس پاس کے علاقوں سےتاجر بڑی کشتیوں میں آ کر ان یہ مچھلیاں خریدلیتے ہیں۔

کوپانی گاؤں
کوپانی گاؤں تھائی لینڈ کےصوبے’’پھانگ نگا‘‘ کے ضلع ’’ موئنگ ‘‘میں واقع ہے۔ 360گھروں پر مشتمل یہ گاؤںبھی کشتیوں پر ہے ، جس میں 1500 سے2000 تک نفوس زندگی گزار رہے ہیں۔18ویں صدی کے آخر میں ملائشین مسلمانوں کے’’ نومیڈک ‘‘قبیلے کے کچھ خاندان یہاں آکر آباد ہوگئے تھے، جو بعض وجوہات کی بنا پر کشتیوں میں گھر بنا کر رہنے لگے۔آج اس گزاؤں میں مسلمان بچے اور بچیوں کے لیے ایک اسکول بھی ہے جس میں لڑکے اور لڑکیاںپڑھتےہیں۔ 1986ء کے فیفا ورلڈ کپ کے موقع پر یہاں کے بچوں کا بنایا ہوا فلوٹ بھی اختتامی تقریب میں پیش کیا گیا تھا جواس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ یہ گاؤں پانی پرآباد ہے اور لوگ پانی پر ہی زندگی بسر کرتے ہیں کیونکہ ان کا ذریعہ آمدنی صرف اور صرف ماہی گیری ہے۔ اس گاؤں کا نام ’’کوپانی ‘‘ ہے، جب کہ ملائشیا کی مقامی زبان میں اسے ’’پالاؤچی‘‘ گاؤں کہتے ہیں۔ کشتیوں میں ہی ایک بازار ہےجس میں کپڑے ادویات اور دیگر اشیائے ضروریہ دستیاب ہیں۔

پیرو کا تیرتا ہوا گاؤں
جنوبی امریکا کے ملک پیرو میں ’’پونو‘‘ شہر کے قریب جھیل ’’ٹی ٹی کاکا‘‘ واقع ہے جس میں صدیوں سے یورو قبیلہ آباد ہے۔اس قبیلے کے افراد کا عقیدہ ہے کہ وہ اس جھیل کے مالک ہیں، سیکڑوں سال قبل وہ جھیل میں کشتیوں پر گھر بنا کر رہنے لگے۔ آج ان گھروں کو آمدنی کا ذریعہ بنالیا گیا ہے۔دنیا کے دیگر ممالک سے لوگ جب جنوبی امریکا کی سیر کے لیے آتے ہیں تو وہ پیرو میں مذکورہ جھیل پر بھی تفریح کے لیے آتے ہیںاور ان گھروں میں قیام کرتے ہیں۔ کشتیوں میں بنائے گئے گھروں کی بالکونیوں میں بیٹھ کر مچھلیاں پکڑتے ہیں۔ پرندوں کیلئے پھندے لگاتے ہیں اور ٹولیوں کی صورت میں بہتے مکان ایک راستے سے چلتے ہوئے دوسرے راستے سے واپس اپنی جگہ پر آ کر رک جاتے ہیں-یہ تیرتا ہوا گاؤں سیاحوں کو ایک انوکھےتجربے سے دوچار کرتا ہے۔

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 213 Articles with 223218 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.