بڑی قیادت کا اایک مسئلہ یہ بھی رہا کہ قومی سوچ نہ
اپناسکی۔محدود ذہنیت نے اسے ایک حد سے زیادہ نا دیکھنے دیا۔نا سمجھنے ۔نتیجہ
یہ نکلا کہ درست فیصلے نہ کیے جاسکے۔غلط فیصلوں کے سبب ان کے ساتھ ساتھ
ریاست بھی خمیازہ بھگتنے پر مجبور ہوئی۔کبھی کبھی یہ بھی ہوا۔کہ اس طرح کے
فیصلوں سے قیادت کو تو فائدہ ہوا۔مگر مملکت کواکچھ نہ ملا۔الٹا بھاری قیمت
چکانا پڑی۔قیادت کی کوتاہ اندیشی اور کم ظرفی نے کوئی مناسب سسٹم نہیں بننے
دیا۔اور ڈنگ ٹپاؤ پالیسی ہمارا مقدر بن گئی۔سابق صدر پرویز مشرف بھی اسی
کوتاہ اندیشی کے شکارہوئے۔دہشت گردی کے خلاف ان کی کارکردگی نہایت بری
تھی۔ان کی نیم دلانہ کوششیں اس بات کا شک پیداکرتی تھی کہ وہ خو داس عفریت
کو ٹھکانے لگانے پر آمادہ نہیں ۔عموما مشرف حکومت دہشت گردی کے معاملے کو
غیر سنجیدہ مسئلہ تصور کرتی ۔مگر جب کبھی کوئی اعلی عہدے کا امریکی
پاکستان یا افغانستان کا دور ہ کرتا۔تب کسی قسم کا ہنگامی اپریشن کرکے
دکھاوے کے لیے کچھ سر فراہم کردیے جاتے۔ایساہی ڈرامہ تب کیا جاتاجب پاکستان
کا کوئی بڑے منصب پر بیٹھاشخص امریکہ یاتر ہ پر نکلتا۔ان دو مواقع کے علاو
ہ مشر ف حکومت نے دہشت گردی کے خلاف کبھی کوئی جاندار کاروائی نہیں کی۔ان
کی اس روش کو دیکھنے کے بعدہی مقتدر حلقوں میں مشرف کے متبادل کی تلاش شروع
ہوئی تھی۔یہ خیال آیا کہ گولی او رلاٹھی کی بجائے مذاکرات کا طریقہ اپنایا
جائے۔این آراور کے ذریعے پی پی قیادت کو وطن آنے پر تحفظ ملنے کی ضمانت دی
گئی۔اگر مشرف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ذمہ دارانہ کردار اداکرتے تو شاید
این آر او رکی کبھی ضرورت نہ پڑتی۔ان کا اقتدار تو پھیلتا رہا۔مگر اس
خودغرضانہ حکمرانی نے ریاست کو خود کش بمبار نامی ایک نئی مصیبت سے روشناس
کروادیا۔
خودغرضی اور آپا دھاپی کی صورت حال اب بھی جاری ہے۔لندن میں شریف فیملی
موجود ہے۔کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ پاکستان سے باہر جانے کا مقصدشریف فیملی کو
اپنے آئندہ کے سیاسی لائحہ عمل کرنا ہے۔محترمہ کلثوم نواز کا علاج چل
رہاہے۔شریف فیملی محترمہ کی عیادت کو وہاں موجود ہے۔اس موجودگی کو کئی نام
دیے جارہے ہیں۔حالانکہ محترمہ کے گلے کی سرجری کے تین مراحل ہوچکے۔پھر بھی
شریف فیملی کی لندن موجودگی پر طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔سابق
وزیر اعظم نوازشریف ۔وزیر اعلی پنجاب شہبازشریف ۔حمزہ شہباز شریف اور مریم
نوازبھی لندن میں موجودرہیں۔تاثر دیا جارہا ہے۔کہ لندن میں شریف فیملی کا
اکٹھ ایک طرح سے سیاسی پلاننگ کے لیے ہے۔حلقہ ایک سو بیس کا الیکشن جیتنے
کے بعد نوازشریف خاصے پرامید ہوچکے ہیں۔بالخصوص ایسے حالات میں جب کہ ٹاپ
لیڈر شپ وطن سے باہر تھی۔اکیلی مریم نوازکی بدولت یہ الیکشن جیتنا اس بات
کا ثبوت ہے کہ آج بھی مسلم لیگ ن کی ااصل طاقت نوازشریف ہیں۔حلقہ کے عوام
نے مخالفین کے منفی پراپیگنڈے کو مستردکرتے ہوئے ۔نوازشریف کے امیدوار کو
کامیاب کروایا۔سابق وزیر اعظم خوش ہیں۔اور اپنے اگلے لائحہ عمل کی تیاریوں
میں مصروف ہیں۔
لندن میں شریف فیملی کی آمد اور قیام کسی نئے لندن پلان کو جنم دے
سکتاہے۔نوازشریف ان دنوں سخت دباؤ میں ہیں۔وہ اب بھی اپنے آ پ کو سچا اور
حق پر تصور کرتے ہیں۔سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ان کا خیال ہے
کہ جتنی نرمی انہوں نے اپنے موجودہ دورحکومت میں دکھائی ۔بے مثا ل تھی۔مگر
اس کے باوجود انہیں تنگ کرنے کا کوئی موقع نہیں جانے دیا گیا۔جانے کیوں
اسٹیبلشمنٹ ان سے متعلق اپنا دل صاف کرنے کے موڈمیں نہیں ہے۔نوازشریف مسلسل
اپنی حکومت کے خلاف سازشیں کیے جانے کا ذکرکرتے ہیں۔باربار ڈگڈگی والوں کا
ذکر کرتے ہیں۔اب ان کا لندن کا طویل قیام بھی انہی ڈگڈگی والوں کے لیے کوئی
لائحہ عمل تیارکرناہے۔محترمہ کلثوم نواز کی بیماری نے انہیں کافی وقت
پاکستان سے باہر گزارنے کا موقع دے دیا۔وہ لندن میں اپنے پارٹی رہمناؤں سے
مسلسل مشاورت لے رہے ہیں۔اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے انٹرنیشنل تعلقات کو
بروئے کارلانے کے امکانات بھی دیکھ رہے ہیں۔ان کی تمام تر توجہ اپنے سیاسی
کیر ئیر کی بقا پر ہے۔جس طرح سے انہیں تاحیا ت نااہلی کا سامنا کرنا پڑا ۔وہ
بہت زیادہ غیر مطمئن ہیں۔
پاکستان اگلے کئی مہینوں تک سیاسی عدم استحکام کی طرف بڑھتانظر آرہاہے۔سابق
وزیر اعظم لندن میں قیام کو اپنے سیاسی لائحہ عمل کی تیاری کے لیے سازگار
سمجھ رہے ہیں۔اور ادھر پاکستان میں ان کے خلاف ڈگڈگی تماشہ رکنے میں نہیں
آرہا۔ان کی نااہلی کو دوسرا مہینہ ہونے کو آچکا مگر ان کے مخالفین ابھی تک
ٹھنڈے نہیں پڑے۔لگتاہے نوازشریف اور انکے حاضر اور غائب دونوں مخالف اس
کھیل کو منطقی انجام تک پہنچائے بغیر چین سے نہ بیٹھنے کا فیصلہ کرچکے
ہیں۔پاکستان میں نوازشریف کو نیست ونابود کرنے کی پلاننگ ختم نہیں ہوپارہی
اور لندن میں نوازشریف اپنی بھرپور واپسی کی پلاننگ میں لگے ہوئے ہیں۔دونوں
میں سے جیت کسی ایک کی ہوئی ہے۔گھمسان کا رن پڑ سکتاہے۔جیت کسی کی بھی
ہو۔مگر ریاست ہر حال میں نقصان میں رہے گی۔ملٹری اسٹیبشمنٹ اپنی تمام تر
کوتاہیو ں کے باوجود غیر اہم نہیں۔نہ ہی نوازشریف جیسے عظیم لیڈر کا کوئی
متبادل موجودہے۔دونوں میں سے کسی ایک کا نقصان قوم کا نقصان ہوگا۔ریاست کو
تکلیف پہنچے گی۔مشرف نے اپنے چندروزہ اقتدار کو طول دینے کے لیے مصنوعی
کھیل تماشے کیے رکھے۔مگر یہ ریاست کو کئی طرح کی مصیبتیں چمٹا گئے۔کیا اب
بھی نوازشریف اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ اپنی زور آزمائی کے لیے ریاست اور قوم
کو مشکل میں ڈالنے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ان میں سے
کسی ایک کی جیت بھی ریاست کی ہار کا سبب بن سکتی ہے۔
|