جماعت اسلامی کوغلطلیوں کا تدارک کرنا ہوگا

وہ ایک فیکٹری میں معمولی درجے کا ملازم تھا۔ تھوڑی سی تنخواہ ملتی تھی، جس سے دو وقت کا کھانا بھی مشکل تھا۔ اس دن وہ باریش بزرگ جو اس کے ساتھ والے محلے میں رہتا تھا اسے کہنے لگا کہ بھائی کب تک یوں ہی خوار پھرتے رہو گے ۔میرا دوست ایک ملٹی نیشنل فیکٹری میں اچھے عہدے پر ملازم ہے ۔ چاہو تو میں اس سے بات کرلیتا ہوں ،وہ اپنی فیکٹری میں آپ کے لیے مناسب جاب کا بندوبست کردے گا اور آپ دس ہزار کے بجائے مہینے کا تیس پیتیس ہزار باآسانی کما لوگے،کیونکہ تعلیم تو آپ کے پاس ہے اور کمپنی کو تعلیم یافتہ ملازمین کی ضرورت بھی ہے۔اس مزدور نے بزرگ سے کہا کہ میں گھر والوں سے مشورہ کرکے آپ کو ایک دو دن میں آگاہ کردوں گا۔وہ آیا اور گھر والوں کو ساری صورت حال بتا کرکہنے لگا کہ ابھی آ پ ہی مجھے مشورہ دیجیے کہ میں کیا کروں؟ اسی بات پر سب گھر والے سوچنے لگے کہ کیا کیا جائے۔ اتنے میں ابا حضور گویا ہوئے: بیٹے میرا کہا مانو تو یہ دس ہزار ہی ٹھیک ہے۔ تنخواہ ٹائم پر مل جاتی ہے ، اس کے علاوہ کبھی ایڈوانس کی ضرورت پڑجائے توسیٹھ صاحب منع نہیں کرتے۔وہ تو ٹھیک ہے اباجان لیکن ایڈوانس میں لیے گئے پیسے سیٹھ صاحب چھوڑتے تو نہیں ، تھوڑے تھوڑے کر کے آخر سارا پیسا واپس وصول کر ہی لیتا ہے بیٹے نے کہا۔بیٹے کی بات سن کر بزر گو نے کہا کہ تو بڑا ہی بے وقوف ہے، پاگل آج کل کون کسی کو مفت میں پیسے دے سکتا ہے اور ہاں ہمارے لیے یہ عزت کیا کم ہے کہ پچھلے مہینے جب تیری بہن بیماری کی وجہ سے انتقال کرگئی ، تو سیٹھ صاحب خود ہمارے ہاں تعزیت کے لیے آئے۔ کہاں وہ کھرب پتی انسان اور کہاں ہم غریب۔ میرا تو دل کرتا ہے کہ اگر ایسے عزت دار آدمی کے لیے بندہ مفت میں بھی کام کرلے تو بھی کم ہے۔میرا حکم تو یہ ہے کہ تو اسی فیکٹری میں کام کرتے رہو، آخر محلے کے اور بھی تو کئی لوگ اسی تنخواہ پر کام کررہے ہیں۔ پتہ نہیں کہ تو کیسے راتوں رات امیر بننے کا خواب دیکھنے لگا ہے۔ آخر آپ میں کون سی سرخاب کے پر لگے ہوئے ہے کہ تم ایک دم دس ہزار کی جگہ پینتیس ہزار کمانے لگو گے۔ کونسا ہنر ہے تمہارے پاس۔ مجھے تو یہ سب فراڈ دکھائی دے رہا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پینتیس ہزار کے چکر میں ان دس ہزار سے بھی ہاتھ دو بیٹھو۔ اباں حضور نے اپنی بات مکمل کی تو اہلیہ کی طرف دیکھ کر کہنے لگے بیگم اب تو ہی اپنے لاڈلے کو سمجھا شائد تیری بات کا کچھ اثر ہو جائے، معلوم نہیں کہاں سے ترقی کا بھوت آکر اس کے سرپر سوار ہوگیامیاں خاموش ہوئے تو بڑی بی کو دل کا بھڑاس نکالنے کا موقع میسر آیا۔ کہنی لگی پتہ نہیں وہ صوفی تیرے ہی کو کیوں ورغلا تا ہے۔ اس کا اپنا بیٹا تو خود آٹھ ہزار روپے مدرسے میں بچوں کو پڑھاتا ہے۔ وہ اپنے بیٹے کے لیے کیوں نہیں سوچتا جو تیرے دس ہزار روپے تنخواہ کے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑا ہے۔ مجھے تو اب اس بندے سے ڈر لگنے لگا ہے کہ کیوں وہ ہمارے بارے میں اتنا فکر مند ہے حالانکہ اس کا اپنا ایک بیٹا بھی تو گھر میں بے روزگا ر بیٹھا مکھیاں ماررہا ہے۔ میں تو کبھی بھی اپنا دودھ نہ بخشوادوں اگر تم اس ملا کے باتوں میں آگئے اور یہ جو تم لوگوں کی بڑی بڑی کوٹھیاں اور چمکتی گاڑیاں دیکھ کر سوچتے ہو کہ ایسا کچھ تمہیں بھی مل جائے تو یہ تمہاری خام خیا لی ہے کیونکہ ہم غریب لوگ ہے اور غریبوں کو ایسا کبھی نہیں سوچنا چاہیے۔اب اگر اﷲ نے ہماری مقدر میں زیادہ نہیں لکھا ہے تو ہمیں بھی اس کے پیچھے نہیں بھاگنا چاہیے۔

ماں خاموش ہوئی توبیٹے نے کہا کہ ماں جی صوفی صاحب کے جس بے روزگا بیٹے کی آپ بات کررہی ہو ۔ وہ اب ہمارے علاقے کے ہائی سکول میں استاد لگ گیا ہے۔ ان کے دوسرے بیٹے کو بھی اچھی نوکری مل رہی تھی لیکن باپ نے کہا کہ تم دین کی خدمت کیا کر کہ اس جہاں کے لیے بھی کچھ کمانا چاہیے۔ان کا چھوٹا بیٹا بھی تعلیم مکمل کرکے گھر واپس آگیا ہے، دیکھنا وہ بھی کچھ ہی دنوں میں کہیں نہ کہیں اچھے عہدے پر چلا جائے گا۔ لیکن ایک آپ لوگ ہو کہ کسی کو کچھ کرنے نہیں دیتے۔ میرا کہا مانو اور مجھے اجازت دے دو ہوسکتا کہ ہمارے بھی دن پھر جائے اور گھر میں خوشحالی آجائے۔اتنا کہنا تھا کہ بڑی بھی نے رونا پیٹنا شروع کردیا کہ تو بڑا ہی نافرمان ثابت ہوا ہے۔ اباحضور نے بھی بڑی بی تائید کرتے ہوئے کہا کہ پتر اگر تو نے سیٹھ صاحب کے ساتھ بے وفائی کی تو پھر ہمارا آپ سے کچھ بھی لینا دینا نہیں۔

قارئین کرام! مندرجہ بالا کہا نی کو ذہن میں رکھیں اور اس کا موازنہ جماعت اسلامی پاکستان کی سیاست سے کیجیے۔ جماعت اسلامی وطن عزیزکی ایک اہم سیاسی جماعت ہے۔ یہ وطن عزیز کی وہ واحد پارٹی ہے کہ جس میں جمہوریت صحیح معنوں میں موجود ہے۔اس پارٹی کے اندر عہدیداروں کا چناؤ مالی حیثیت دیکھ کر نہیں بلکہ قابلیت اور خدمات کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ سابق امیر جناب سید منور حسن اور موجودہ امیر بطورمثال ہمارے سامنے ہیں۔یہ واحد پارٹی ہے جو دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کے لیے سب سے پہلے میدان عمل میں اترتی ہے اور مظلوموں کا مقدور بھر مدد کرنے کی کوشش کرتی ہے۔جماعت اسلامی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے پاس تربیت یافتہ کارکنان کا ایک منظم سیٹ اپ موجود ہے۔جماعت اسلامی کے فلاحی ادارے الخدمت فاؤنڈیشن کو ملک کے سب سے بڑے رفاہی ادارے کا اعزاز حاصل ہے ۔ ان دنوں بنگلہ دیش میں روہنگیا مسلمانوں کی داد رسی کے لیے الخدمت اہل پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے مصروف عمل ہے۔ جماعت اسلامی کے پاس منظم میڈیا ٹیم موجود ہے ۔ سوشل میڈیا کے میدان میں بھی جماعت اسلامی کسی سے پیچھے نہیں۔اسلامی جمیعت طلبہ کی شکل میں لاکھوں طلبہ اس کے پیچھے کھڑے ہیں لیکن یہی جماعت اسلامی جب الیکشن میں اترتی ہے ، تو ان کی کارکردگی بد ترین ہوتی ہے ۔پچھلے دنوں لاہور کے حلقے این اے 120میں جماعت اسلامی نے بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نئے خدشات کو جنم دیا ہے۔ اس شکست کی وجوہات مختلف ہوسکتی ہے جس کے متعلق یقیناً ذمہ داران جماعت سر جوڑ کر بیٹھیں گے اور اس شکست کی وجوہات جاننے کی کوشش کریں گے۔میں سمجھتا ہوں کہ دو وجوہات ایسے ہے کہ جس کے بارے میں ذمہ دارانِ جماعت کو فی الفور غور کرنا ہوگا۔شکست کی پہلی وجہ جماعت اسلامی کا یہ نعرہ ہے کہ ہم پاکستان کو مدینہ منورہ کے طرز کا ایک اسلامی فلاحی ریاست بنائیں گے۔ یقیناً جماعت اسلامی کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے کہ اگر وہ بر سر اقتدار آجائے تو وہ پاکستان کوایک اسلامی فلاحی مملکت بنا سکتی ہیں۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی یہ نعرہ ایک ایسے قوم کے سامنے بلند کرتی ہے کہ جو نسل در نسل موروثی سیاست میں جکڑی ہوئی ہیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ وطن عزیز میں ہر طرف کرپشن، اقربا پروری اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا دور دورہ ہے۔ تعلقات اور سفارش کے بغیر ایک عام پاکستانی تھانے میں FIRدرج نہیں کراسکتا ، تعلقات اور سفارش کا انتظام اگر نہ ہوتو کوئی غریب اپنا علاج مناسب طریقے سے سرکاری اسپتالوں سے نہیں کراسکتااور پیسہ اگر نہ ہو آپ مظلوم ہوکر بھی ماتحت عدالتوں سے ظالم ثابت ہوسکتے ہے۔ دوسری طرف عوام کے پاس پینے کو صاف پانی میسر نہیں، چوبیس گھنٹے ڈیوٹی کرکے بھی غریب آدمی اپنے کنبے کے لیے مناسب روزی روٹی کا انتظام نہیں کرسکتا، کروڑں لوگوں کو سر چھپانے کے لیے چھت میسر نہیں اور کروڑوں بچوں کو باوجود خواہش کے والدین سکول بھیجنے سے قاصر ہے۔ ایسے میں جب ایک عام آدمی پاکستان کے موجودہ صورتِ حال کو دیکھتا ہے اور مدینہ کے ماڈل ریاست کو، آخر میں جب وہ جماعت اسلامی کے نعرے پر غور کرتا ہے تو وہ یہی سوچتا ہے کہ یہ سب کیسے ممکن ہوگا۔وہ جب گھر والوں سے اور عزیزوں سے اس بات کا اظہار کرتا ہے تو وہ بھی یہی پوچھتے ہیں کہ یہ سب کیسے ہوگا ۔ اس کیسے کا جواب جب وہ نہیں دے پاتاتو ان کو مندرجہ بالا کہانی کی طرح یہی مشورہ ملتا ہے کہ پرانے چہرے ہی مناسب ہے کم از کم غمی خوشی میں دیدار کرانے تو آتے ہیں۔ باپ ان کو بھی یہی کہتا ہے کہ بیٹا کہاں یہ کرپشن زدہ ماحول اور کہاں مدینہ کی مسحور کن زندگی۔لہٰذا ایسا ممکن نہیں کہ پاکستان مدینہ طرز کا ایک مثالی مملکت بن جائے۔ایسے میں وہ عام آدمی مایوس ہوجاتا ہے۔

اب یہ جماعت اسلامی پاکستان کے ذمہ داران کا فرض بنتا ہے کہ اس کیسے کا جواب دلائل کے ساتھ دے کر عام آدمی کو مطمئن کریں۔ انہیں چاہیے کہ وہ اس حوالے سے ایک پورا روڈ میپ عوام کے سامنے لائے۔ وہ لوگوں کو یہ بتائے کہ مدینہ کے طرز کی ریاست اگر منزل ہے تو اس منزل کی طرف فلاں فلاں راستہ جاتا ہے۔ ذمہ داران جماعت کا فرض بنتا ہے کہ اس منزل کی جانب جانے والے راستوں، ان راستوں پر چلتے وقت پیش آنے والے مشکلات ،ان مشکلات سے نبرد آزما رہنے کے گر اور مشکلات سے نکلنے کے بعدملنے والی سرور راحت کے بارے میں عوام کو تفصیلاً بتائے۔ دوسری اہم بات یہ کہ جماعت کے بعض ذمہ داران دیگر سیاسی پارٹیوں کے لیڈران کی طرح پروٹوکول کے عادی بن گئے ہیں ۔ انہیں لوگوں پر رعب جمانے اور خود کو برتر سمجھنے سے گریز کرنا ہوگا، اس کے بجائے انہیں عجز و انکساری اور خدمت خلق کو شعار بنانا ہوگا۔ تیسری اور آخری لیکن اہم بات یہ کہ جماعت کے علاقائی عہدیداروں کو خوابِ غفلت سے بیدار ہونا ہوگا اور جماعت کا پیغام عام لوگوں تک پہنچانا ہوگا۔ بدقسمتی سے ان دنوں جماعت اسلامی میں نیا خون شامل نہیں ہورہا اس سلسلے میں جماعت اسلامی کے علاقائی عہدیداران کی کوتاہی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔مندرجہ بالا عوامل پر غور اور کوتاہیوں کا سدباب کرکے ہی جماعت اسلامی پارلیمانی سیاست میں مناسب جگہ بناسکتی ہے۔
٭……٭……٭
 

Saeed Ullah Saeed
About the Author: Saeed Ullah Saeed Read More Articles by Saeed Ullah Saeed: 3 Articles with 1958 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.