اللہ تعالی نے ابتدائے آفرینش سے چار مہینوں کو حرمت والا
قرار دیا ہے وہ ہیں ۔ ذی قعدہ ، ذی الحجہ ،محرم اور رجب ۔ اللہ تعالی کا
فرمان ہے :
إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ
اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ
حُرُمٌ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ ۚ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ
أَنفُسَكُمْ ۚ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ
كَافَّةً ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ (التوبة:36)
ترجمہ : مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ کی ہے ، اسی دن
سے جب سے آسمان وزمین کو اس نے پیدا کیا ہے ، ان میں سے چار حرمت وادب کے
ہیں ۔ یہی درست دین ہے ۔ تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرواور تم
تمام مشرکوں سے جہاد کرو جیسے کہ وہ تم سب سے لڑتے ہیں اور جان رکھو کہ
اللہ تعالی متقیوں کے ساتھ ہے ۔
فی کتاب اللہ سے مراد لوح محفوظ یعنی تقدیر الہی ہے ۔ یعنی ابتدائے آفرینش
سے ہی اللہ تعالی نے بارہ مہینے مقرر فرمائے ہیں جن میں چار حرمت والے ہیں
جن میں قتال وجدال کی بالخصوص ممانعت ہے ۔ اسی بات کو نبی کریم ﷺ نے اس طرح
فرمایا ہے کہ "زمانہ گھوم گھماکر پھراسی حالت پر آگیا ہے جس حالت پر اس وقت
تھا جب اللہ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق فرمائی ۔ سال بارہ مہینوں کا ہے
جن میں چار حرمت والے ہیں ، تین پے درپے ۔ذوالقعدہ ، ذوالحجہ اور محرم اور
چوتھا رجب مضر،جو جمادی الآخر اور شعبان کے درمیان ہے (صحیح بخاری-کتاب
التفسیر،سورہ توبہ وصحیح مسلم ،کتاب القسامۃ ،باب تغلیظ تحریم
الدماء۔۔۔)زمانہ اسی حالت پر آگیا ہے کا مطلب ،مشرکین عرب مہینوں میں جو
تقدیم وتاخیر کرتے تھے اس کا خاتمہ ہوگیا۔ (تفسیر احسن البیان )
ادب واحترام کی وجہ سے اس مہینے کو محرم کہاجاتا ہے ۔ اس میں جنگ وجدال ،
فتنہ وفساد، ظلم وبربریت ، لڑائی وجھگڑا کرنا بالخصوص منع ہے ۔ اس ممانعت
کی پاسداری زمانہ جہالت سے بلکہ تخلیق کائنات سے چلی آرہی ہے ۔یہ مہینہ
حرمت والے مہینے میں سب سے افضل ہے ۔
محرم الحرام اور بدعات کا طوفان : یہ مہینہ ادب واحترام والا ہونے کے
باوجود صوفیوں اور بدعتیوں نے سوگ منانے اور کھانے پینے کےسیکڑوں گمراہ
راستے ایجاد کرلئے ۔ شہادت حسین کا ماتم، تعزیہ کے نام پہ عزاداری، نوحہ
وزاری،قوالی ومرثیہ ،دیگیں اور سبیلیں ، نحوست وعزا کا اظہار، شہداء کی
نذرونیاز، جسم لہولہان کرنا، عورتوں ومردوں کا اختلاط اور ناچ گانے ، ڈھول
تماشے وغیرہ سارے کام نوایجاد اوربدعات کے قبیل سے ہیں ان سب کا ٹھکانہ
جہنم ہے ۔ اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ احترام والے مہینے کا احترام کرے جس
طرح اہل زمانہ نے کیاہے ۔ اللہ کے حدود کی پامالی عذاب کا پیش خیمہ ہے ۔
اللہ تعالی امت مسلمہ کو دین کی صحیح سمجھ دے کہیں ایسا نہ ہوکہ ان بدعات
کے ارتکاب سے اللہ امت پر عذاب عام کردے ۔ الحفظ والاماں
اس مہینے کے بے شمار فضائل ہیں یہاں صرف ایک اہم فضیلت کا ذکر کیاجاتا ہے
وہ ہے محرم میں روزہ رکھنا بالخصوص عاشوراء کا ۔
محرم الحرام اور عاشوراء کے روزے
(1) محرم کے اکثرروزے کی فضیلت : محرم کے مہینے میں پورے مہینے کا روزہ
رکھنا جائز ہے اور بعض فقہاء نے ذکر بھی کیا ہے پورے محرم کا روزہ رکھنا
چاہئے، مگر نبی ﷺ سے رمضان کے علاوہ کسی مہینے میں مکمل روزہ رکھنا ثابت
نہیں ہے ۔رمضان کے علاوہ صرف شعبان میں اکثردن کا روزہ رکھتے تھے ۔
اس لئے تمام نصوص کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جائے گاکہ حدیث :
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال قال رسول اللہ ﷺ افضل الصیام بعد
رمضان شھر اللہ المحرم وافضل الصلوۃ بعد الفریضۃ صلٰوۃ اللیل (اخرجہ مسلم ص
۳۶۸ ج۱، ایضا ابو داؤد، الترمذی، النسائی)
ترجمہ : رمضان کے بعد سب سے افضل روزے ماہِ محرم کے روزے ہیں اور فرض
نمازوں کے بعد سب سے افضل رات کی نماز (تہجد) ہے۔
محرم کے زیادہ تر روزہ رکھنے پہ محمول کی جائے گی نہ کہ پورے محرم کے روزے
پہ ۔
٭شیخ ابن بازرحمہ اللہ نے اس حدیث سے محرم کے ابتدائی دس روزے مراد لئے
ہیں۔
٭ شیخ محمد صالح العثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا پورے محرم کا روزہ
رکھنے والا بدعتی کہلائے ؟ توآپ نے کہا نہیں ، لیکن نبی ﷺ سے رمضان کے
علاوہ کسی مہینے کا مکمل روزہ رکھنا ثابت نہیں ہے اور شعبان کا اکثر و
بیشتر روزہ رکھتے تھے ۔ (کلام کا اختصار)
٭ شیخ محمد صالح المنجد فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ سے رمضان کے علاوہ کسی مہینے
میں مکمل روزہ رکھنا ثابت نہیں ہے ، لہذا یہ حدیث محرم میں بکثرت روزہ
رکھنے پہ محمول ہوگی نہ پورے مہینے پہ ۔
(2) صرف دسویں محرم کے روزے کی فضیلت :نبی ﷺ نے دسویں محرم کا روزہ رکھا ہے
، آپ نے اس روزے کا برا اجر ذکرفرمایاہے ۔
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یوم
عاشوراء (محرم کی دس تاریخ) کے روزہ کے متعلق سوال کیے گئے ، تو آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:انی احتسب علی اللہ ان یکفر السنة التی قبلہ۔
(صحیح مسلم:1162) .
ترجمہ :مجھے امید ہے کہ عاشوراء کے دن کا روزہ گذشتہ سال کے گناہوں کا
کفارہ ہوجائے گا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ما رأیتُ النبیَّ صلی اللّٰہ علیہ
وسلم یَتَحَرّیٰ صیامَ یومٍ فضَّلَہ علی غیرِہ الّا ہذا الیومَ یومَ
عاشوراءَ وہذا الشہرَ یعنی شہرَ رَمَضَان (بخاری و مسلم)
ترجمہ : میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوکسی فضیلت والے دن کے روزہ
کا اہتمام بہت زیادہ کرتے نہیں دیکھا، سوائے اس دن یعنی یومِ عاشوراء کے
اور سوائے اس ماہ یعنی ماہِ رمضان المبارک کے۔
اس لئے نبی ﷺ نے خود بھی دسویں محرم کا روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی اس کی
تاکید کی ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے:
كان يومُ عاشوراءَ تصومُه قريشٌ في الجاهليةِ، وكان رسولُ اللهِ صلَّى
اللهُ عليه وسلَّم يصومُه، فلما قَدِمَ المدينةَ صامه وأمَر بصيامِه، فلما
فُرِضَ رمضانُ ترك يومَ عاشوراءَ، فمَن شاء صامه ومَن شاء ترَكَه .(صحيح
البخاري:2002)
ترجمہ : قریش کے لوگ دورِ جاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے اور نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ روزہ رکھتے تھے۔ پھر جب آپ مدینہ تشریف لے
آئے تو تب بھی عاشوراء کا روزہ رکھتے اور صحابہ کرام کو بھی اس دن روزہ
رکھنے کا آپ نے حکم دے رکھا تھا۔ البتہ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو
عاشوراء کی فرضیت ختم ہوگئی۔ لہٰذا اب جو چاہے یہ روزہ رکھے اور جو چاہے نہ
رکھے۔
(3) صرف نومحرم کا روزہ : عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے
ہيں:
حين صام رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يومَ عاشوراءَ وأمرَ
بصيامِه ، قالوا : يا رسولَ الله ! إنه يومٌ تُعظِمُه اليهودُ والنصارى .
فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ : فإذا كان العامُ المُقبلُ إن
شاءَ اللهُ ، صُمْنا اليومَ التاسعَ . قال : فلمْ يأتِ العامُ المُقبلُ ،
حتى تُوفِّيَ رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ .(صحيح مسلم:1134)
ترجمہ: جب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشوراء کا روزہ خود بھی
رکھا اوردوسروں کو بھی اس کا حکم دیا تو صحابہ کرام انہیں کہنے لگے یہودی
اورعیسائي تو اس دن کی تعظیم کرتے ہیں ۔تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
فرمانے لگے , آئندہ برس ہم ان شاء اللہ نو محرم کا روزہ رکھیں گے ، ابن
عباس رضي اللہ تعالی کہتے ہیں کہ آئندہ برس آنے سے قبل ہی رسول اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے ۔
(4) نو اور دس یا دس اور گیارہ محرم کا روزہ رکھنا: بعض روایات میں عاشوراء
کو ایک دن پہلے یا ایک دن بعد میں ملانے کا ذکر ملتا ہے ۔ روایت دیکھیں :
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عہنما سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
صوموا يومَ عاشوراءَ ، وخالفوا فيه اليهودَ ، صوموا قبلَه يومًا ، و بعدَه
يومًا۔
ترجمہ: عاشوراء کا روزہ رکھو اور اس میں یہودیوں کی مخالفت کرو۔ ایک دن
پہلے اور ایک دن بعد اس کے ساتھ روزہ رکھو۔
اس روایت کو شیخ البانی اور علامہ شوکانی وغیرہم نے ضعیف قرار دیا ہے ۔
دیکھیں (ضعيف الجامع: 3506، نيل الأوطار 4/330 )
ایک دوسری حدیث میں واء کی بجائے او کا ذکر ہے ۔
صوموا يومَ عاشوراءَ وخالِفوا اليَهودَ ، صوموا قبلَهُ يومًا أو بعدَهُ
يومًا۔
اس حدیث کو بھی شیخ البانی نے ضعیف قرار دیا ہے ( صحيح ابن خزيمة:2095)
اسی طرح ایک اور روایت اس طرح کی ملتی ہے ۔ نبی ﷺ فرماتے ہیں :
لئن بقيتُ لآمُرَنَّ بصيامِ يومٍ قبلَه أو يومٍ بعدَه . يومِ عاشوراءَ۔
ترجمہ : اگر میں (اگلے سال ) زندہ رہا تو میں عاشوراء کے ساتھ ایک دن پہلے
یا ایک دن بعد میں روزہ رکھنے کا حکم دوں گا۔
اسے شیخ البانی نے منکر کہاہے ۔ ( السلسلة الضعيفة:4297)
روزوں کے متعلق مذکورہ چارووں اقسام سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ محرم میں دو
قسم کا روزہ رکھنا بڑے اجروثواب کا کام ہے ۔
ایک تو عمومی طور پر بکثرت روزہ رکھ سکتے ہیں کیونکہ اس میں روزہ رکھنا
رمضان کے روزوں کے بعد سب سے افضل قرار دیا گیا ہے ۔ دوسرا عاشوراء کا روزہ
۔ عاشوراء کے متعلق یہ اختلاف ہے کہ کون سا روزہ رکھنا افضل ہے ؟
اس سلسلہ میں سب سے عمدہ قول یہ ہے کہ نومحرم اوریوم عاشوراء یعنی دس محرم
دونوں کا روزہ رکھنا افضل ہے اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دس محرم
کا روزہ رکھا اورنو محرم کا روزہ رکھنے کی نیت کی ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ
لکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جونومحرم کے روزے کا ارادہ اورقصد
کیا اس کے معنی میں احتمال ہے کہ صرف نو پرہی منحصر نہیں بلکہ اس کے ساتھ
دس کا بھی اضافہ کیا جائے گا ، یا تو اس کی احتیاط کےلیے یا پھر یھود
ونصاری کی مخالفت کی وجہ سے اوریہی راجح ہے جو مسلم کی بعض روایات سے بھی
معلوم ہوتا ہے ۔ (فتح الباری: 4 / 245 ) ۔
تاہم اکیلے دس محرم یا اکیلے نو محرم کا روزہ رکھنا بھی مسنون ہے جیساکہ
دلیل سے ثابت ہے ۔ رہا نو اور دس یا دس اور گیارہ یا نو ،دس اور گیارہ تو
علماء نے ان صورتوں کو بھی جائز کہاہے کیونکہ اس مسئلہ کی روایات میں ضعف
ہلکا ہے ۔ میری نظر میں نو اور دس محرم کا روزہ رکھنا بہتر وافضل ہے ۔
عاشوراء کے دیگر مسائل
(1) نو یا دس محرم کا اکیلا روزہ ہفتہ یا جمعہ کو پڑجائے تو اس دن اکیلا
روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے جیساکہ عرفہ کا روزہ ۔
(2) اگر کسی کے اوپر رمضان کا روزہ قضا ہو وہ بھی عاشوراء کا روزہ رکھ سکتا
ہے کیونکہ قضا کے لئے بالفور روزہ رکھنا ضروری نہیں ہے ۔
(3) اکثر جگہوں پہ عیسوی تاریخ رائج ہے جس کی وجہ سے کہیں کہیں لوگوں کو
رات میں عربی تاریخ کا علم نہیں ہوپاتا ایسے لوگ فجر کے بعد دن میں بھی
عاشوراء کی نیت کرسکتے ہیں کیونکہ نفلی روزہ میں نبی ﷺ سے دن میں بھی روزہ
کی نیت کرنی ثابت ہے شرط یہ ہے کہ فجر کے بعد کچھ کھایاپیا نہ ہو۔
(4) مسافر کو اگر روزہ رکھنے میں مشقت نہ ہوتو عاشوراء کا روزہ رکھنا اولی
ہے تاکہ اس کی فضیلت پاسکے ۔
(5) قضا روزے اور عاشوراء کو ایک نیت میں اکٹھا کرسکتے ہیں مگر افضل صورت
یہی ہے کہ قضا الگ رکھے جائیں اور عاشوراء الگ ۔
(6) اگر عاشوراء سوموار یا جمعرات کو آجائے تو اس سومواروجمعرات کی نیت سے
عاشوراء کو بھی ملاسکتے ہیں ۔
(7) کفارات کا روزہ(جوکہ واجبی ہے) عاشوراء کے ساتھ ایک نیت میں نہیں رکھ
سکتے کیونکہ کفارات کی نیت سے عاشوراء کا اجر نہیں ملے گا۔ بعض اہل علم نے
دونوں کا جمع کرنے کا بھی ذکر کیا ہے ۔
(8) عاشواء کی بعد میں قضا نہیں ہے اس لئے جس سے یہ روزہ چھوٹ جائے وہ اس
کی قضا نہ کرے ۔
(9) جس کی نیت عاشوراء کا روزہ رکھنے کی تھی مگر کسی عذر کی وجہ سے نہیں
رکھ سکا تو اللہ کا فضل وسیع ہے وہ نیت کے حساب سے بھی اجر دیتا ہے ۔ مثلا
کوئی عین وقت پر بیمار پڑگیا یا عورت کو حیض یا نفاس کا خون آگیا وغیرہ ۔
(10) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ طہارت ، نماز، رمضان
کا روزہ ، صوم عرفہ اور صوم عاشوراء سے صرف گناہ صغیرہ معاف ہوتے ہیں ۔
صوم عاشوراء کے منفی امور
احادیث کی روشنی میں ظاہر ہے کہ اس مہینے میں صرف روزے کا ذکر ملتا ہے
مگراس کے برخلاف بدعتیوں نے کھانے پینے کے مختلف بدعتی دروازے کھول رکھے
ہیں ، خود بھی اجر سے محروم ہوکر بدعت کی گمراہی میں ڈوبے ہوئے ہیں اور
سادے عوام کو بھی فتنہ میں مبتلا کررکھے ہیں ۔
بدعتیوں کا کہنا ہے کہ شہداء کربلا پہ پانی بند ہونے کی یاد میں سبیل لگانا
اور ان کی ارواح کے لئے فاتحہ کے ذریعہ ایصال ثواب کرنا چاہئے ۔ یہ سراسر
بدعت ہے اور ہربدعت گمراہی ہے اور ہرگمراہی کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔ اس لئے
مسلمانوں کا عاشوراء میں اچھے اچھے پکوان بنانے کھانے سے اجتناب کرکے اس دن
کا روزہ رکھنا چاہئے ۔
عاشوراء سے متعلق ضعیف وموضوع روایات
(1) إنَّ اللهَ خلق السماواتِ والأرضَ يومَ عاشوراءَ (موضوع)
ترجمہ : نے شک اللہ نے عاشوراء کے دن زمین وآسمان کو پیدا کیا۔
(2) مَنِ اكتحلَ بالإثمدِ يومَ عاشوراءَ لم يرمَدْ أبدًا۔ موضوع( السلسلة
الضعيفة:624)
ترجمہ: جس نے یوم عاشوراء کو سرمہ لگایا تو اسے کبھی تکلیف نہیں ہوگی۔
(3) من صام يومَ عاشوراءَ كتب اللهُ له عبادةَ ستِّين سنةً بصيامِها
وقيامِها-موضوع
(موضوعات ابن الجوزي2/570)
ترجمہ: جس نے یوم عاشوراء کو روزہ رکھا اللہ اس کے لئے ساٹھ سال روزے اور
قیام کا اجر لکھے گا۔
(4) مَن وَسَّعَ على عِيَالِهِ في يومِ عاشوراءَ ، وَسَّعَ اللهُ عليه في
سَنَتِهِ كلِّها-ضعیف(ضعيف الجامع: 5873)
ترجمہ: جوشخص عاشوراء کے دن اپنے اہل و عیال پر فراخی سے خرچ کرے گا، اللہ
تعالیٰ سال بھر اس کو فراخی عطا فرمائے گا۔
(5) إن آدم تاب الله عليه يوم عاشوراء ، ونوحاً نجاه الله يوم عاشوراء
وإبراهيم نجاه الله من النار يوم عاشوراء ويونس أخرجه الله من بطن الحوت
يوم عاشوراء ويعقوب اجتمع بيوسف يوم عاشوراء والتوراة نزلت يوم عاشوراء ۔
ترجمہ: یوم عاشوراء کو آدم علیہ السلام نے توبہ کی، اور نوح علیہ السلام کو
اللہ نے یوم عاشوراء کو نجات دی، اور ابراہیم علیہ السلام کو اللہ نے
عاشوراء کو آگ سے نجات دی ، اور یونس علیہ السلام کو اللہ نے مچھلی کے پیٹ
سے عاشوراء کو نکالا، اور یعقوب و یوسف علیہما السلام عاشوراء کو ملے اور
تورات عاشوراء کو نازل ہوئی ۔
اس قسم کی ساری روایات ضعیف وموضوع ہیں ۔
(6) أن أعرابيًّا سأل النبي صلى الله عليه وسلم عن صوم يوم عرفة ويوم
عاشوراء، فقال: يوم عاشوراء يكفر العام الذي قبله والذي بعده، ويوم عرفة
يكفر العام الذي قبله۔(رواہ ابویعلی الموصلی بسند ضعیف : اتحاف الخیرہ
3/84)
ترجمہ : ایک دیہاتی نے نبی ﷺ سے عرفہ اور عاشوراء کے روزہ کے متعلق دریافت
کیا تو آپ نے فرمایا: عاشوراء سے ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہ اور
عرفہ سے ایک سال گذشتہ کے گناہ معاف ہوتے ہیں ۔
٭ یہ روایت ضعیف ہے اس کی سند و متن دونوں میں خرابی ہے ۔
(7) من صلَّى يومَ عاشوراءَ ما بين الظُّهرِ والعصرِ أربعين ركعةً يقرأُ في
كلِّ ركعةٍ بفاتحةِ الكتابِ مرَّةً ، وآيةِ الكرسيِّ عشرَ مرَّاتٍ ، و{
قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ} إحدَى عشرةَ مرَّةً ، والمُعوِّذَتْين خمسَ
مرَّاتٍ ، فإذا سلَّم استغفرَ سبعين مرَّةً أعطاه اللهُ في الفردوسِ
قُبَّةً بيضاءَ ، فيها بيتٌ من زمردُّةٍ خضراءَ ، سعةُ ذلك البيتِ مثلُ
الدُّنيا ثلاثَ مرَّاتٍ ، وفي ذلك البيتِ سريرٌ من نورٍ ، قوائمُ السَّريرِ
من العنبرِ الأشهبِ على ذلك السَّريرِ ألفُ فراشٍ من الزَّعفرانِ- موضوع
(موضوعات ابن الجوزي: 2/433)
یہ خود ساختہ نمازکا طریقہ ہے کہ جس نے عاشوراء کے دن ظہروعصر کے درمیان
چالیس رکعت پڑھی ۔ ہررکعت میں ایک مرتبہ سورہ فاتحہ، دس مرتبہ آیۃ الکرسی،
{ قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ} گیارہ مرتبہ، معوذتین پانچ مرتبہ میں پڑھے ۔ اور
جب سلام پھیرے تو ستر مرتبہ استغفار کرے تو اللہ یہ وہ محل سے نوازے گا ۔
یہ گھڑی ہوئی روایت ہے ۔
(8) ومن أشبع أهل بيت مساكين يوم عاشوراء مر على الصراط كالبرق الخاطف ومن
تصدق بصدقة فكأنما لم يرد سائلا قط ومن اغتسل يوم عاشوراء لم يمرض إلا مرض
الموت۔ موضوع
ترجمہ : جس نے اہل بیت کے مساکین کو عاشوراء کے دن کھلایا وہ پل صراط پہ
بجلی کی رفتار سے گذرے گا اور جس نے صدقہ کیا وہ محتاج نہیں ہوگا اور جس نے
عاشوراء کو غسل کیا اسے موت کے مرض کے علاوہ کوئی مرض لاحق نہیں ہوگا۔
(9) ما من عبد يبكي يوم قتل الحسين يعني يوم عاشوراء إلا كان يوم القيامة
مع أولي العزم من الرسل۔موضوع
ترجمہ : جو کوئی قتل حسین کے دن یعنی عاشوراء کو روئے گا وہ قیامت کے دن
اولوالعزم پیغمبروں کے ساتھ ہوگا۔
(10) من صام يوم عاشوراء أعطى ثواب عشرة آلاف ملك- موضوع
ترجمہ : یومِ عاشوراء میں روزہ رکھنے والے کو دس ہزار فرشتوں کا ثواب دیا
جائے گا۔
ان کے علاوہ بھی بہت سی ضعیف وموضوع روایات بیان کی جاتی ہیں جن کے حصر کا
یہ مقام نہیں ۔
|