جرمن الیکشن اور ترکی

(محمدقاسم حمدان)

جرمنی میں24ستمبر کوانتخابی معرکہ ہونے والاہے۔دائیں اور بائیں بازوکی جماعتیں اپنے اپنے منشور کے ساتھ ووٹرکو متوجہ کر رہی ہیں۔ جرمنی میں مسلم تارکین وطن کی تعداد تقریباً چار ملین شمارکی جاتی ہے جن میں سے ایک ملین جرمنی کے انتخاب میں حق رائے دہی رکھتے ہیں۔ان میں غالب اکثریت ترکوں کی ہے جنھوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد اپنے خون پسینے سے تباہ حال جرمنی کو ترقی یافتہ ملک بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن جب طیب اردوان جیسے انقلابی ہیرونے بیمار ترکی کو ترقی کا ٹانک پلایا تو بہت سے ترکوں نے جرمنی کی خوشحال زندگی کو چھوڑ کر اپنے آبائی ملک کو ترجیح دی۔ یوں ایک ملین ترک وطن واپس چلے گئے۔

جرمن میں وزیراعظم کی بجائے ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے چانسلر کوپارلیمنٹ ارکان منتخب کرتے ہیں لیکن جرمنی میں انتخابی عمل ددوسرے ممالک سے یکسر مختلف ہے۔وفاقی جرمن پارلیمنٹ کے ایوان زیریں یابنڈس ٹاگ کے لیے انتخابات کانظام خاصا پیچیدہ ہے۔اس دفعہ تقریباً ساٹھ ملین جرمن شہری ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔اہل ووٹروں کی سب سے بڑی تعداد 13.2 ملین صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیاسے ہے۔
24ستمبر کوجرمن شہری جب انتخابی مراکزپہنچیں گے تو ووٹ ڈالنے والے ہرشہری کو دوبیلٹ پیپردئیے جائیں گے۔ا یک بیلٹ پیپرکے ذریعے وہ اپنے حلقے سے اپنے کسی بھی پسندیدہ امیدوار کوبراہ راست اسمبلی کارکن چننے کے لیے ووٹ دیں گے جبکہ دوسرے بیلٹ پیپر کے ذریعے اپنی پسندیدہ پارٹی کوووٹ دیں گے۔یوں کسی بھی حلقہ انتخاب سے سب سے زیادہ ووٹ لینے والا امیدوار پارلیمنٹ کارکن بن جائے گا۔ ایسے ارکان کی تعداد299ہے۔اس کے بعد مجموعی طورپر پارلیمانی نشستوں کی تعداد630 پوری کرنے کے لیے ہرسیاسی جماعت کو ملنے والے ووٹوں کی شرح کے مطابق پوری کی جائے گی۔ جرمنی میں سیاسی جماعتوں کی پارلیمان میں نمائندگی کے لیے لازم ہے کہ اسے کم ازکم 5فیصد ووٹ ملے ہوں۔ جرمنی کی موجودہ پارلیمنٹ میں پانچ سیاسی جماعتوں کو نمائندگی حاصل ہے۔ بائیں بازو کی سیاسی جماعت اے ایف ڈی اور ایف ڈی پی گزشتہ انتخابات میں 5فیصد ووٹ حاصل نہیں کر پائی تھی جس کے باعث ان کاکوئی فردرکن پارلیمنٹ نہ بن سکا۔

جرمنی کی سیاسی جماعتوں میں سے سوشل ڈیموکریٹک پارٹی SPD کادعویٰ ہے کہ وہ دنیا کی قدیم ترین جماعت ہے‘ اس کے بانی فرڈینانڈلسالے تھے۔ 1918ء کو جب جرمنی کے امپیریل چانسلر قیصرولیم دوئم اقتدار سے الگ ہوئے توسوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے اصلاحات پسند دھڑے کامطالبہ تھا کہ اعتدال پسند جمہوری ریاست بننی چاہیے جبکہ انقلابی سوچ یا نای ازم سے متاثرہ افراد کااصرارتھا کہ سوشلسٹ کمیونسٹ جرمنی کی بنیادرکھی جائے۔

24ستمبر کے الیکشن کے لیے اس پارٹی کے امیدوار مارٹن شلس ہیں جویورپی یونین کی پارلیمان کے سابق سپیکر بھی ہیں۔وہ انگیلا مرکل کوشکست دینے کے لیے کافی پرامید ہیں۔ جرمنی کی سب سے بڑی پارٹی قدامت پسند کرسچن ڈیموکریٹک یونین ہے جس کی رہنما چانسلر مرکل ہیں۔ وفاقی جمہوریہ جرمنی کے اڑسٹھ سالہ دور میں اڑتالیس برس کرسچن ڈیموکریٹک (CDU)ہی اقتدارمیں رہی ہے۔

1949ء کے پہلے انتخابات میں CDUکوکامیابی ملی اور اس کے رہنماکونراڈ آڈے پہلے وفاقی چانسلربنے۔اس الیکشن کی اہم بات یہ تھی کہ وہ صرف ایک ووٹ کے فرق سے اس عہدے پر پہنچے اور یہ ووٹ ان کااپناتھا۔ کونراڈکہتے تھے کہ ایک دن منقسم جرمنی دوبارہ متحدہ ہوگالیکن یہ دن دیکھنے کے لیے وہ زندہ نہیں ہوں گے۔کونراڈ کے بعد1982ء میں سی ڈی یوکے رہنما ہیلمٹ کوہل وفاقی چانسلر بنے۔یکم اکتوبر1982ء سے لے کر 1998ء تک وہ چھ بار چانسلر رہے۔ انہی کے دور میں مشرقی اور مغربی جرمنی ریاستوں کااتحاد ممکن ہوا۔ انگیلا مرکل ان کے قریبی ساتھیوں میں سے ہیں۔کرشماتی انگیلا بھی بارہ سال تک جرمنی کی چانسلر رہی اور اب بھی وہ تمام سروے رپورٹس کے مطابق کامیاب ہوں گی۔ان کی جماعت نے بیس ملین یورو خرچ کرکے جرمنی بھرمیں ایک پوسٹرلگایا جس پر لکھا ہے ایسے جرمنی کے لیے جہاں ہم اچھی طرح اور شوق سے رہ سکیں۔مرکل نے حال میں دس لاکھ شامی مہاجروں کو قبول کرنے کااعلان کیاتھا۔

جرمنی کی ایک اورپارٹی اے ایف ڈی ہے جو مہاجرین کی آمدو آبادکاری اوریورپی یونین مخالف نعرے بازی کی وجہ سے مشہور ہے اوراسی بناپراس کی عوامی حمایت میں اضافہ ہواہے۔یہ پارٹی دوٹوک الفاظ میں کہتی ہے کہ اسلام جرمن معاشرے کاحصہ نہیں۔2013ء کے انتخابات میں یہ پارٹی 5فیصد ووٹ بھی حاصل نہ کر سکی اور پارلیمنٹ سے باہررہی لیکن 2014ء میں یورپی پارلیمان میں 7فیصد ووٹ سے کامیاب ہوئی باوجود اس کے کہ یہ متحدہ یورپ کے نظریے کی نفی کرتی ہے اور یورو کرنسی کے خاتمے کانعرہ لگاتی ہے۔ اے ایف ڈی سابق کیمونسٹ مشرقی جرمنی میں زیادہ مقبول ہے۔یہ پارٹی روایتی جرمن گھرانے کے نظریے کی حامی ہے اور اسقاط حمل کے خلاف ہے۔ جرمنی فرسٹ کانعرہ والی یہ پارٹی جرمنی میں نیونازی ایجنڈے کوفروغ دے رہی ہے۔

جیساکہ ابتدا میں بات ہوئی کہ دس لاکھ ترک نژاد ووٹرجرمنی کی تاریخ کو بدل سکتے ہیں۔ موجودہ جرمن پارلیمنٹ میں 37ایسے ارکان ہیں جو یاتوہجرت کر کے جرمنی آئے تھے یاپھر وہ تارکین وطن کی اولاد ہیں۔ 1994ء میں پہلی دفعہ جب چیم اوئز دیمیر ترک نژاد جرمن شہری کے طورپر جرمن پارلیمان کے رکن بنے تولوگوں نے سوال کیا کہ ایک ترک یہاں کیاکررہاہے اوراسے جرمن پارلیمنٹ میں بیٹھنے کی اجازت کس نے دی ہے۔ آج چیم اوئزدیمیر اہم سیاسی جماعت گرین پارٹی کے اہم رہنماہیں۔ ترک نژاد شہریوں کی 70فیصد تعداد سوشل ڈیموکریٹک کوووٹ دیتی ہے جس نے 1960ء کی دہائی میں ترک شہریوں کو خوش آمدید کہاتھااور دوہری شہریت کاقانون نافذکروایاتھا۔

آج آٹھ لاکھ ترک نژاد جرمنی شہری کچھ اورہی سوچ رکھتے ہیں۔ ترکی میں جب صدراردوان نے صدارتی ریفرنڈم کرایا تو مغرب کارویہ انتہائی منفی‘ جارحانہ اور متعصبانہ تھا۔ اردوان کے خلاف یہ پراپیگنڈا کیا گیاکہ وہ ترکی کے صدر بن کر بے تحاشا اختیار کے مالک بن جائیں گے اور اسلام کے احیاء میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہوگی۔ ہالینڈ،سوئٹزرلینڈ،آسٹریا اور جرمنی اردوان کو آئینی طورپر طاقتور نہیں دیکھناچاہتے کیونکہ وہ یورپی ممالک کو ناکوں چنے چبواسکتے ہیں۔ اسی لیے ہالینڈ اورجرمنی میں اردوان کے حامیوں کی ریلیوں کو طاقت سے منتشرکیاگیا۔اس کے ردعمل میں اردوان نے جرمن حکومت کو آڑے ہاتھوں لیااور اس کونازی دور کی یادگار قرار دیاہے۔اردوان نے تمام ترک نژاد جرمن شہریوں سے کہا ہے کہ وہ سوشل میڈیا ڈیموکریٹک اور کرسچن ڈیموکریٹک کوووٹ نہ دیں۔اس کے جواب میں جرمنی نے یورپی یونین اور ترکی کے درمیان رکنیت کے لیے ہونے والے مذاکرات کوختم کرنے کاکہاہے لیکن اس کی یورپی یونین کے ممالک نے ہی مخالفت کی ہے۔ فرانس کے رکن یورپی پارلیمان ایڈورڈفراند نے کہا کہ بیمار ترکی نہیں بلکہ بیمارہم ہیں۔صدر اردوان نے ترکی کو جمہوری،پرامن، ترقی یافتہ اور خوبصورت مضبوط معیشت کا حامل ملک بنادیاہے۔اس وقت ترکی کی یورپی یونین کو ضرورت ہے۔لہٰذا یورپ کو ترکی کے ساتھ اپنے رویے پرنظرثانی کرناہوگی۔

Munzir Habib
About the Author: Munzir Habib Read More Articles by Munzir Habib: 193 Articles with 119045 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.