کئی عالمی بین الاقوامی تنظیموں کے دفاتر واقع ہونے کی
حیثیت سے جنیوا کوعالمی شہر کی حیثیت حاصل ہے۔اقوام متحدہ کے چارٹرڈ کے
مطابق اراکین ممالک پر لازم ہے کہ مشترکہ مساعی سے بین الاقوامی امن اور
تحفظ قائم کریں ۔قوموں کے درمیان دوستانہ تعلقات کو بڑھایا جائے۔بین
الاقوامی اقتصادی، سماجی، ثقافتی اور انسانوں کو بہتری سے متعلق گتھیوں کو
سلجھانے کی خاطر بین الاقوامی تعاون پیدا کرنا انسانی حقوق اور بنیادی
آزادیوں کے لیے لوگوں کے دلوں میں عزت پیدا کی جائے اورایک ایسا مرکز پیدا
کریں جس کے ذریعے قومیں رابطہ عمل پیدا کر کے ان مشترکہ مقاصد کو حاصل کر
سکیں۔آرٹیکل نمبر 2 کے تحت تمام رکن ممالک کو مرتبہ برابری کی بنیاد پر
ہے۔جنیوا نے پاکستان کی آزاد ریاست کے خلاف ملک دشمن عناصر کی بھارتی فنڈنگ
سے جاری اشتہاری مہم کی اجازت دے کر عالمی قوانین اور خود جنیوا کنویشن کی
خلاف ورزی کی جو قابل مذمت ہے۔جنیوا میں’ آزاد بلوچستا ن ‘ کے نام پر ملک
دشمن تنظیم "بلوچ لبریشن آرمی"نے شہر کے مختلف علاقوں اور پبلک ٹرانسپورٹ
میں پاکستان مخالف بینر اور اشتہاری مہم شروع کی ہوئی ہے۔ جنیوا جو کہ ایک
عالمی شہر کی حیثیت رکھتا ہے ۔ پاکستان مخالف اشتہاری مہم چلانے کے حوالے
سے اقوام متحدہ کے چارٹرڈ کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے۔ پاکستان ایک آزاد
مملکت ہے اور یہاں لسانی اکائیوں اورمذہبی و نسلی اقلیتوں کے تحفظ کیلئے
قیام پاکستان سے لیکر آج تک قیام پاکستان کے نظریات و مقاصد کے برخلاف کوئی
ایسے ریاستی اقدامات نہیں اٹھائے گئے ، جس سے ظاہر ہو کہ پاکستان میں کسی
لسانی یا نسلی اکائی کے خلاف امتیازی سلوک روا برتا جارہا ہے۔ بلوچستان میں
علیحدگی پسند گروہوں کی جانب سے ریاست کے خلاف عسکری دہشت گردکاروائیاں
مسلسل کیں جاتی ہیں لاپتہ اور مسخ شدہ لاشوں کا ملنا قوم پرستوں جماعتوں کے
درمیان باہمی چپقلش کا نتیجہ بھی ہے جس میں ریاست کو دنیا بھر میں بدنام
کرنے کیلئے بھارت کی منصوبہ بندی پر یہ کھیل کھیلا جاتا رہا ہے۔ حساس
اداروں نے بھارتی فنڈنگ سے قائم ایسے کئی نیٹ ورک کا خاتمہ کیا ہے جو مملکت
کو عدم استحکام کا شکار کرنا چاہتے ہیں۔ مسخ شدہ اور شہریوں کے اغوا کے
واقعات کی کمی اس کا بیّن ثبوت ہے کہ بھارت بلوچ علیحدگی پسند لیڈروں کا
سہولت کار ہے۔ کلبھوشن یادواور عزیر بلوچ کی گرفتاری کے بعد انکشافات سے
ثابت ہوچکا ہے کہ بھارت ، بلوچستان کے داخلی مداخلت میں براہ راست مداخلت
کررہا ہے۔
بلوچستان میں کسی ایک لسانی اکائی کی اکثریت نہیں ہے۔صوبہ بلوچستان پاکستان
میں رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے جو پاکستان کی کُل رقبے کا43.65
فیصد بنتا ہے۔1998کی مردم شماری کے مطابق بلوچستان کی کُل
آبادی65لاکھ65ہزار885نفوس پر مشتمل تھی۔2017کی مردم شماری کے مطابق رواں
سال 15 مارچ سے 25 مئی تک ہونے والی ملک کی چھٹی مردم شماری کے نتائج کے
مطابق بلوچستان کی کل آبادی ایک کروڑ 23 لاکھ 44 ہزار 408 نفوس پر مشتمل ہے
جس میں مردوں کی تعداد 64لاکھ 83 ہزار 653 جبکہ خواتین کی تعداد 58 لاکھ 60
ہزار 646 ہے۔ پورے صوبہ بلوچستان میں کچے پکے مکانات کی تعداد 17 لاکھ 75
ہزار 937 ہے اور دیہی علاقوں میں 13لاکھ 1 ہزار 212 مکانات موجود ہیں۔ شہری
علاقوں میں 4 لاکھ 74 ہزار 725 مکانات موجود ہیں۔ پورے ملک میں پکے مکانات
کی یہ سب سے کم شرح ہے۔ مقامِ حیرت تو یہ ہے کہ پورے ملک کو گیس سپلائی
کرنے والا صوبہ کچے مکانات سے بھرا پڑا ہے۔بلوچستان میں ترقی کی راہ میں
حائل بعض قبائل کے سربراہ ہیں جو حکومت سے رائلٹی کے نام اربوں روپے تو
لیتے ہیں لیکن اپنی عوام کو بنیادی سہولیات سے محروم رکھتے ہیں۔
صوبہ بلوچستان میں شدت پسند تنظیم لشکر جھنگوی، ایرانی بلوچستان میں سر گرم
عمل جیش العدل اور کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیموں نے اپنے مشترکہ اہداف
پر حملوں کے لئے ایک خفیہ اتحاد قائم کیا ہواہے، جسے صوبے میں قیام امن کے
لئے ہونے والی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی ایک نئی سازش سے تعبیر کیا جاتا
ہے۔بلوچ آزادی پسند جماعتوں بلوچستان لبریشن یونائیٹڈ فرنٹ،بلوچستان ری
پبلکن پارٹی، بلوچ نیشنل موومنٹ، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آزاد) اور بلوچ
ری پبلکن اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن شامل ہیں۔بھارت نواز و علیحدگی پسندوں کے پے
رولسے منسلک بعض سیاسی اور انسانی حقوق کے کارکنوں سے بلوچستان کے مسئلہ پر
پاکستان مخالف لابنگ کا حصہ رہے ہیں۔ بلوچستان علیحدگی پسندوں کا موقف ہے
کہ بلوچ اس خطے کی قدیم ترین اقوام میں سے ایک ہے، ہم ہزاروں سال سے اس سر
زمین پر آباد ہیں،1839 میں برطانوی قبضے کے وقت تک ہمارا اپنا ریاست تھا۔
جبکہ حقائق اس کے برخلاف ہیں ۔برطانیہ حکومت نے براہوی ریاست سے جن علاقہ
جات کو لیز پر لیا تھا انکو (بلوچستان) کے نام دیا۔ یہی نام انگریزی حکومت
کے مفاد میں تھا کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ براہوئی ریاست قائم رہے، 1970
میں جب ون یونٹ ختم ہوا تو کچھ پشتون بیلٹ کو اور تمام براہوی ریاست یا
براہویستان کو بغیر رائے شماری کے بلوچستان کا نام دیا اس نام سے زیادہ تر
براہوی قوم کو نقصان ہو اہے۔ براہوی نوجوان بلوچیت کے نام پر قتل ہو رہے
ہیں۔ براہوئی زبان بلوچیت کے مفاد کے خاطر بے پرسان حال ہیں۔براہوی یہ بھی
اعتراض کرتے ہیں کہ ہماری تاریخ کا تہذیبی ورثہ بلوچوں کے نام منتقل کیا جا
رہا ہے حالانکہ 1931 سے پہلے براہوی قوم کی حکومت بننے تک براہوی عوام بلوچ
کے برعکس براہوی ہونے پر فخر کرتے تھے۔ 20 اگست 1749 کو نصیرخان براہوی
قلات میں حاکم تھے اور ان کی سلطنت افغانستان ایران، ہندوستان پنجاب، سندھ
اور پشاور تک تسلیم کی جاتی تھی اور ان کی فوج کو براہوی فوج کہا جاتا
تھا۔11 اگست1947 جب یہ طے پایا گیا کہ برطانوی اقتدار اعلی کے ختم ہوتے ہی
ہندوستان کی ریاستیں آزاد اور خود مختار ہونگی اور اپنے لائحہ عمل کے مطابق
آزاد ہونگی اس ایک نقطے پر میر احمد یار خان نے ریاست قلات کی آزادی کا
اعلان کیا اور جمعے کے خطبے میں بار بار عظیم تر بلوچستان کی بات کی مگر جب
7 اور 17 مارچ 1948 کو لسبیلہ اور مکران کی ریاستیں پاکستان میں شامل ہو
گئیں تو بعد میں میر احمد یار خان جو عظیم تر بلوچستان کا خان اعظم بننے کا
خواب دیکھ رہا تھا تو اپنی ریاست قلات کو 27 مارچ 1948 کو پاکستان کے ساتھ
الحاق کا اعلان کر دیا۔ بلوچستان ایک قوم اور ایک زبان کا سیاسی خواب
شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا تو اس سے ان کے سپردکاروں نے یہ وتیرہ بنا لیا ہے
کہ پاکستان مخالف اشتہاری مہم دنیا بھر میں بیرونی عناصر جس میں بھارت پیش
پیش ہے۔بھارت ، پاکستان کے قدرتی وسائل کے سب سے بڑے اور اہم صوبے کے خلاف
مسلسل سازش رچ رہا ہے ۔
بلوچستان کی حقیقی تاریخ کو مسخ کرکے بلوچ نوجوانوں کو گمراہ کیا جارہا ہے۔
بلوچ قوم کے خلاف بھارت سازشوں سے پاکستان میں متعدد مسائل کو جنم دیا ہے ۔
گو کہ بلوچستان میں فاٹا اور خیبر پختونخوا کی طرح ایسے فوجی آپریشن نہیں
کئے گئے جس میں دہشت گردوں کے خلاف پاک فضائیہ اور بھاری اسلحہ استعمال کیا
گیا ہو ، فاٹا اور خیبر پختونخوا میں متعدد آپریشن کے دوران لاکھوں پختون
عوام کو نقل مکانی کرنی پڑی ، لیکن بلوچستان میں قبائل کے درمیان وسائل پر
قبضے کی جنگ میں تو مختلف قوموں کا نقصان ہوا ہے لیکن پاکستانی ریاست کی
جانب سے ہمیشہ بلوچستان کے عسکری پسندوں کو ناراض گروپ کہا جاتا ہے ، انھیں
دہشت گرد اور انتہا پسند کہہ کر پوری قوم کے خلاف سخت فوجی آپریشن سے گریز
کیا گیا ہے۔ ٹارگٹڈ آپریشن کے دوران کئی گروپوں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ مسلح
گروپوں نے ریاست کے سامنے خود کو گرفتاری کیلئے بھی پیش کیا ہے ۔ مختلف
گروہ عسکری مزاحمت ترک کرکے قومی دھارے میں شامل ہو رہے ہیں ۔ بلوچستان کے
کئی علیحدگی پسند رہنما بھارتی پاسپورٹ پر سفر کرتے ہیں ۔پاکستانی صوبہ
بلوچستان میں سرگرم علیحدگی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ (BLF) کے
سربراہ اﷲ نذر بلوچ نے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران اپنے پہلے ویڈیو انٹرویو
میں اس عزم کا اظہار بھی کیا تھاکہ چین پاکستان اکنامک کوریڈور پر مزید
حملے کیے جائیں گے۔ پاکستان چین تجارتی راہداری بلوچستان سے گزرتی ہے۔ اﷲ
نذر بلوچ کا کہنا تھا، "ہماری خواہش ہے کہ صرف بھارت ہی بلوچوں کی قومی
جدوجہد کی سفارتی اور مالی مدد نہ کرے بلکہ پوری دنیا کو ایسا کرنا چاہیے"
۔بلوچستان ری پبلکن پارٹی کے سربراہ براہمداغ بگٹی سوئٹزرلینڈ میں پناہ
حاصل کیے ہوئے ہیں۔براہمداغ بگٹی بھارت میں ’سیاسی پناہ‘ کی درخواست دے چکے
ہیں۔کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی کے رہنما براہمداغ بگٹی بلوچستان کی
علیحدگی پسندکمیونٹی کے لیے بھارت کو اپنے دروازے کھولنے کا مطالبہ کرچکے
ہیں۔ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے بلوچستان کامعاملہ دنیا کا
سامنے پیش کرنے پر بھارتی وزیر اعظم کی کوششوں کو بھی سراہا۔بھارتی وزیر
اعظم نریندر مودی نیاپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ" پاکستان کو بلوچستان اور
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مبینہ زیادتیوں کے لیے دنیا کے سامنے جواب
دہ ہونا ہو گا"۔جس پرکوئٹہ کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے دیگر اضلاع مستونگ،
سبی، لورالائی، نوشکی، چاغی، تربت پنجگور، گوادر، پشین اواران، سبی، ڈیرہ
مراد جمالی، چمن اور دیگر اضلاع میں بھی احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ ان
مظاہروں کے دوران شرکاء نے صوبے میں ہونے والی دہشت گردی کا ذمہ دار بھارتی
خفیہ ایجنسی ’را‘ کو ٹھہراتے ہوئے بھارتی حکومت کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ
بنایا تھا۔ بلوچستان ، پاکستان کا دِل ہے اس کے خلاف کہیں بھی ، کسی بھی
قسم کی سازشیں ناقابل برداشت ہیں۔ |