امریکا بھارت دوستی کا انجام

ڈونلڈٹرمپ کے دھمکی آمیزروّیے پردوست ممالک روس اورچین کی جانب سے پاکستان کی مکمل حمائت اوراسلام آبادکے پہلی مرتبہ عسکری اور سول حکومت کے غیرلچکداراورسخت ردّ عمل نے امریکامیں کھلبلی مچادی ہے۔ امریکی پالیسی سازاور کئی بین الاقوامی سیاسی ودفاعی تجزیہ نگاروں نے وائٹ ہاؤس کومتنبہ کیاہے کہ اگرپاکستان نے تعاون سے ہاتھ کھینچ لیا تو افغانستان میں عسکری اخراجات اس قدربڑھ جائیں گے کہ امریکی معیشت کیلئے خطرہ کی ایسی گھنٹی بج جائے گی جس کے بعدامریکاکو سابقہ سوویت یونین جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ٹرمپ انتظامیہ کواس بات کا بھی خدشہ بڑھ گیاہے کہ پاکستان کی شمولیت سے خطے میں روس اورچین کی قیادت میں نیا بلاک سامنے آسکتاہے ۔اسی تناظرمیں معاملات درست کرنے کیلئے ہنگامی طور پر نائب امریکی وزیرخارجہ ایلس ویلزنے پاکستان کادورۂ کرکے پاکستان کاغصہ ٹھنڈاکرنے کیلئے آنے کی خواہش کا اظہارکیاجس پر پاکستان نے فی الحال معذرت کر لی اوراپنے قریبی دوستوں سے مشاورت کیلئے وزیرخارجہ خواجہ آصف نے چین ،ایران اورترکی کودورۂ کرکے اعلیٰ حکام سے اپنی مشاورت مکمل کرکے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے پاکستانی وزیراعظم خاقان عباسی کی معیت میں امریکاچلے گئے ہیں جہاں متعلقہ اعلیٰ امریکی حکام سے ملاقات میں اس نئی صورتحال پرتفصیلاً بات ہوگی کہ اب آئندہ پاک امریکاتعلقات زمینی حقائق کی بنیادپرکن شرائط پراستوارہوں گے۔

مبصرین کاکہناہے کہ حالیہ صورتحال میں پاکستان کوبہترین موقع ملاہے کہ وہ روس کے ساتھ اپنے تعلقات کومزید وسعت دیتے ہوئے مختلف شعبوں میں اپنے روابط بڑھائے ،اگر پاکستان،روس اورچین کے ساتھ مل کرتین ایٹمی طاقتوں کا بلاک بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تونہ صرف پاکستان امریکی دباؤ سے نکل آئے گابلکہ اقتصادی طورپربھی پاکستان کو فائدہ ہوگا۔امریکی ٹی وی بلوم برگ کوپاکستانی وزیراعظم نے اپنے ایک انٹرویو میں متنبہ کیا کہ ہم پہلے دن سے ٹرمپ کومشورہ دے رہے ہیں کہ افغانستان میں مزیدفوج بھیجنے اورموجودہ جارحانہ پالیسی سے امریکا کوخطرناک مسائل کاسامناکرناپڑے گا۔افغانستان میں جوکچھ بھی ہورہاہے ،وہیں سے ہوتاہے اوراس مقصدکیلئے ہماری سرزمین استعمال نہیں ہورہی بلکہ ہم نے توکابل کی معیشت کومستحکم کیاہے۔افغان مسئلے کاحل سیاسی ہے جس کیلئے اشرف غنی حکومت کوخودآگے بڑھ کرطالبان کے ساتھ مذاکرات کرنا ہوں گے ۔ اس مقصدکیلئے ہم بھی تعاون کیلئے تیارہیں اور دہشتگردی کے خلاف ہماری حمائت غیرمشروط ہے لیکن ہم افغان طالبان کوان کے جائز مطالبات پرمجبورنہیں کیاجاسکتا۔
پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جو شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں ،امریکاکو نہ صرف اس کااعتراف کرناچاہئے بلکہ غیر مناسب الزامات سے گریز کرنا چاہئے۔ حقیقت تویہ ہے کہ اب افغانستان میں بھارت کے توسط سے دہشتگردی کے مراکز کام کررہے ہیں جہاں سے پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات رونما ہوتے ہیں جس کے ٹھوس شواہدکئی بار امریکا ودیگرمغربی ممالک کے علاوہ اقوام متحدہ کوبھی فراہم کرچکے ہیں۔پاکستانی امریکا سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ بھارت کو اس مجرمانہ فعل سے سختی سے منع کرے نہ کہ وہ پاکستان کے خلاف بھارت کی پیٹھ تھپکے۔یادرہے کہ اس خطے میں پچھلی سات دہائیوں میں پاکستان نے امریکاکی دوستی کیلئے بے شمار قربانیاں دیں ہیں اوراسی افغان جنگ میں پاکستان کے تاریخی کردارکی بناء پرہی امریکا واحد سپر پاوربناہے جس کے جواب میں پاکستان اب تک ایک سوبیس ارب ڈالرکے خطیرمالی نقصان کے علاوہ ۷۰ہزارجانوں کی قربانیاں دے چکا ہے ۔اب پاکستانی سپہ سالار نے یوم دفاع کے موقع پراپنے خطاب میں پاکستانی قوم کی صحیح ترجمانی کرتے ہوئے ''نومور''اور اقوام عالم سے''ڈومور''کا مطالبہ کیاہے۔

پاکستانی وزیرخارجہ خواجہ آصف نے بھی اپنے انٹرویومیں کہاہے کہ ''ہم نے اتحادی بن کربہت زیادہ نقصان اٹھایاہے، اگر امریکاکوہم پریقین نہیں توافغان مہاجرین کی واپسی کا بندوبست کرے اورخطے میں اپنی ۱۶سالہ ناکامیوں کاملبہ پاکستان پرمت ڈالے۔ افغان فوجی طالبان کوامریکی اسلحہ فراہم کرتے ہیں جبکہ اس وقت پاکستا ن کے قیام امن کیلئے دو لاکھ فوجی دہشتگردوں کے خلااف شب وروزاپنی جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں ۔امریکاگزشتہ سترسال سے پاکستان کا بااعتمادساتھی رہاہے جبکہ ہم نے بہت زیادہ نقصان اٹھایاہے لیکن امریکی قیادت کے حالیہ پاکستان مخالف بیانات پرانتہائی تعجب اور افسوس ہے۔ہم امریکاسے تعلقات برقراررکھ کرغلط فہمیاں دورکرناچاہتے ہیں جس کیلئے اب امریکا کوپہل کرنے کی ضرورت ہے۔ہم افغانستان میں امن کے خواہاں ہیں کیونکہ یہ پاکستان کی اشد ضرورت ہے اوریہ امن اسی صورت واپس آسکتاہے جب امریکازمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے پاکستان کی قربانیوں اور کردارکوتسلیم کرے'' امریکااس بات کاکئی مرتبہ اعتراف کرچکاہے کہ افغانستان کے چالیس فیصدسے زائد علاقوں پرافغان طالبان کاقبضہ ہے اورپاکستان پر٩٠فیصد سے زائدحملے افغانستان کے ان علاقوں سے ہوتے ہیں جہاں امریکی فوج کی مددسے اشرف غنی کی حکومت ہے۔ اشرف غنی،امریکی فوج اور وائٹ ہاؤس کوبھی اس بات کاعلم ہے کہ ان دہشتگردوں کو بھارت کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ہم نے پاک افغان سرحدکو محفوظ بنانے کیلئے عملی اقدامات کرتے ہوئے سرحدی باڑاورسیکورٹی فورسز کی پوسٹیں قائم کرنے کاآغازکردیاہواہے لیکن افغانستان نے۶۵۰کلومیٹرتک سرحد پرکوئی پوسٹ تک نہیں بنائی۔امریکااگرواقعی اس خطے میں امن کاخواہاں ہے تو اسے پاک افغان سرحد پرلگانے میں پاکستان کی مددکرنی چاہئے اورافغان علاقے میں سرحدی پوسٹیں بناکر ہمیشہ کیلئے مداخلت کے الزام کاخاتمہ کرنا چاہئے۔

لیکن اس کے برعکس حال ہی میں افغانستان میں موجودامریکی جنرل نے طالبان رہنماؤں کی پشاوراورکوئٹہ میں موجودگی کاشوشہ چھوڑتے ہوئے داعش کاتعلق بھی پاکستان سے جوڑنے کی مضحکہ خیزکوشش کی ہے۔ غیر سرکاری افغان نشریاتی ادارے اورامریکی اخبار''واشنگٹن پوسٹ''کودیئے گئے انٹرویو میں جنرل نکلسن نے ایک مرتبہ پھرپاکستان پرطالبان کی حمائت کاالزام لگاتے ہوئے کہاکہ افغانستان سے باہرموجوددہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہیں سنجیدہ صورتحال اختیارکرچکی ہیں اوراس مسئلے کوحل کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیاکہ امریکاجانتاہے کہ طالبان کی قیادت کوئٹہ اورپشاور میں موجودہے۔اس حوالے سے پاکستان اورامریکی حکومت کے درمیان نجی طورپربات چیت کی گئی تھی لیکن ان کے خلاف کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ پاکستانی عوام نے دہشتگردوں کے ہاتھوں شدیدنقصان اٹھایاہے،ان کی سیکورٹی فورسزنے دہشت گردی کے خلاف جنگ بہت بہادری اورحوصلے سے لڑی،ہم اس کااحترام کرتے ہیں اوراس وقت دہشتگردوں اورعسکریت پسندوں کی حمائت میں کافی کمی آئی ہے تاہم اسے ختم ہوناچاہئے۔

امریکی کمانڈر کا کہنا تھاکہ افغانستان کے مسئلے کاسفارتی حل ممکن ہے لیکن ملک میں جاری فوجی کوششیں جاری رہیں گی اورامریکاافغانستان میں فوجی صلاحیتوں میں اضافہ کرے گا۔ میری توجہ توافغانستان میں جاری سرگرمیوں پر مرکوزہے لیکن دیگرحکام پاکستان میں موجودان دہشتگردوں کی پناہ گاہوں کے معاملات کودیکھ رہے ہیں۔ ہم امریکاپرحملہ روکنے کیلئے افغانستان میں موجود ہیں،یہی وجہ ہے کہ نائن الیون کے بعدامریکاپرکوئی بڑاحملہ نہیں ہوا،طالبان کی حکومت اس لئے ختم کی گئی کہ انہوں نے القاعدہ اوردیگردہشتگردوں کوپناہ دی ،القاعدہ اورطالبان ہنوزمیدانِ جنگ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی واپسی القاعدہ کی واپسی ہے اورالقاعدہ کی واپسی امریکا کی سلامتی کیلئے خطرہ ہے۔

دراصل امریکاافغانستان میں اپناقیام بڑھانے کیلئے ایسی بودی منطق کااظہارپہلے بھی کرچکاہے۔ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار نے اس سے پہلے افغانستان کے معدنی ذرائع پراپنے قبضے کی خواہش کابرملااظہارکرتے ہوئے کہاتھاکہ افغان جنگ میں امریکاکی لاگت وصول کرنے کایہ واحدذریعہ ہے جبکہ امریکایہ جان چکا ہے کہ اس خطے میں تین دہائیاں پہلے سوویت یونین کوشکست فاش دینے اوراس کے ٹکڑے کرنے کے بعدجوسبقت امریکاکوحاصل ہوئی ہے،اس کے نہ صرف ختم ہونے بلکہ اس خطے سے دیس نکالادینے کاوقت آن پہنچاہے۔اب اس خطے میں تین ایٹمی قوتوں کے اشتراک سے جوبلاک بننے جارہا ہے،اس کے بعدعالمی سطح پرنہ صرف عسکری بلکہ معاشی برتری کاامریکی تکبرختم ہوجائے گااور اس وقت امریکی ڈالروں کے توسط سے جس عالمی تجارت سے یومیہ دوسوملین ڈالرکاکمیشن امریکی خزانے میں جارہاہے،اس کارخ بھی ڈالرکی بجائے کسی اور عالمی کرنسی میں تبدیل ہوجائے گا۔یہی وجہ ہے کہ امریکااپنے مفادات کی آگ میں بھارت کوبھی ایندھن کے طورپراستعمال کرنے سے دریغ نہیں کرے گا کیونکہ یہ امریکاکی سرشت میں ہے کہ اس نے ہمیشہ اپنے دوستوں کواستعمال کرکے ان کی ''بلی''چڑھانے میں لمحہ بھرتاخیرنہیں کی۔

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 355528 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.