حکمراں سیاست دانوں پاکستان کا دار الخلافہ لندن لے جاؤ

کالم نگاروں کے لیے ان کے قارئین اہمیت رکھتے ہیں، قاری کا کالم پڑھنا ، پسند کا اظہار کرنا ، اپنی رائے دینا کالم نگار کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث ہوتا ہے۔کئی دن سے کالم کا ناغہ ہورہا تھا، آج بھی کمپیوٹر کھولے بیٹھا تھا۔ کیا لکھنا ہے یہ مجھے بھی معلوم نہیں تھا ۔ دوپہر کا وقت تھا ، اچانک دستک ہوئی میرے چھوٹے بھائی تھے۔ میں نے انہیں اپنے قریب ہی بٹھا لیا۔ کمپیوٹر بند کر دیا اور مختلف موضوعات پر گفتگو شروع ہوئی، عام طور پرگفتگو کی ٹانگ سیاسی موضوعات پر ٹوٹتی ہے اور ایسا ہی ہوا۔ مختلف سیاسی موضوعات پر گفتگو ہوتے ہوتے لندن پر بات آکر رک گئی۔ آخر ہمارے سیاست داں بھاگ بھاگ کر لندن ہی کیوں جاتے ہیں؟ اس کی مختلف وجوہات زیر بحث رہیں ۔ آخر میں انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ میں اس موضوع پر کالم لکھو کہ حکمراں سیاست دانوں کو چاہیے کہ وہ خود بھاگ بھاگ کر لندن جانے کے بجائے پاکستان کا دارالخلافہ لندن کو بنالیں اگر برطانوی حکومت کو اعتراض نہ ہوتو ، میرا خیال ہے اعتراض ہوگا بھی نہیں، اس لیے کہ اب بھی تو پاکستانی حکمرانوں کی اکثریت کسی نہ کسی بھانے لندن میں ہی تو رہتی ہے ، اگر واپس بھی آجاتی ہے تو اپنے وطن میں اس کا دل ہی نہیں لگتا ، اپنے بھائی کے اس مشورہ کے بعد میں ان کے موجودگی میں اور ان کے چلے جانے کے بعد بہت دیر تک سوچ کے سمندر میں غوطے لگاتا رہا، کبھی کوئی وجہ سامنے آتی کبھی کوئی وجہ ، آخر لند میں ایسی کونسی گیدڑ سنگھی موجود ہے جس کی وجہ سے جس سیاست داں کو دیکھو لندن کا رخ کرتا ہے۔ ایک خدشہ ذہن میں یہ بھی آیا کہ یہ بات کہہ دینا الگ بات ہے اور تحریر میں لے آنا گویا آپ نے ثبوت فراہم کردیا، یہ بات خدا نہ کرے بغاوت کے دائرہ میں تو نہیں آرہی ، پھر سوچ کا دھارا اس جانب ہو گیا کہ نہیں اس بات کا تعلق پاکستان سے محبت ہے، پاکستان سے عقیدت ہے، ملک کی خیر خواہی ہے، پاکستانی عوام کی خیر خواہی ہے۔ مقصد در اصل بھاگ بھاگ کر لندن جانے والے سیاست دانون کو احساس دلانا ہے، شرم دلانی ہے، خدا را ملک و قوم کا سرمایا برباد نہ کرو۔ ہمارے ملک کے امیر، کبیر، دولت مند، متمول افراد، دوسرے معنوں میں یہ کہا جائے کہ حکمران طبقہ، سیاست داں، وزیر اعظم، وزراء جسے دیکھو لندن دوڑا چلا جارہا ہے۔ حکمرانوں ! سیاست دانوں! تمہیں لندن اتنا ہی پسند ہے، وہاں کی سرزمین سے تمہیں اتنی ہی محبت ہے، وہاں کی گوری چمڑی تمہیں اتنی ہی اچھی لگتی ہے، تمہیں نزلہ زکام ہوجائے ، پیٹ میں درد ہوجائے، دل کا عارضہ یا کینسر تو بہت بڑی بات ہے ان بیماریوں کا علاج تو پاکستان میں ممکن ہی نہیں ۔ سیاست دانوں ایک کام کرو کسی طرح لندن والوں سے سفارش کرا کے موت کے فرشتے کا داخلہ لندن میں ممنون قرار دلوادو ۔ تب تو ہے مزاہ ،پھر چین کی نیند سونا لندن میں، بیماری توبیماری موت کی فکر بھی نہیں ہوگی تمہیں ۔ ابھی تو تم بیماری کے علاج کے لیے اور اپنی سیکیورٹی کے لیے دوڑ دوڑ کے لندن جاتے ہو، پھر لندن کو اپنا مستقل ٹھکانا بنا لینا۔ جیسا کہ بعض سیاستدانوں نے بنا یا ہوا ہے۔ پاکستان میں امیر طبقہ صرف سیاست دانوں کا ہی تو ہے۔ وہ سیاست داں جو حکمرانی کے مزے لوٹتے رہے یا لوٹ رہے ہیں۔ صوبائی اسمبلی یا قومی اسمبلی کا رکن بن جانے کے بعد وہ تو دوسری دنیا کی مخلوق بن جاتا ہے۔ موٹر سائیکل پر گھومنے والا، بعض کو تو یہ بھی نصیب نہیں تھا ، پینٹ شرٹ کے نیچے دو پٹی کے چپل پہن کر شہر میں گھومنے والا، رکن اسمبلی بنا ، وزیر بن گیا تو کیا بات ہے، وارے کے نیارے ، سیاست داں کہلانے لگا ، ٹی پر آیا تو فلسفی بن گیا ، دنیا میں اس سے بڑھ کرکو ئی عالم فاضل نہیں، سوٹ بوٹ کے ساتھ نئے ماڈل کی کرولا آگئی، اورنگی ٹاؤن، لیاقت آباد، لیاری، نیوکراچی ، ملیر ، لانڈھی، کونگی میں رہاش رکھنے والا کلفٹن، ڈیفنس ، بحریہ ٹاؤن اور عسکری جیسی رہاشی بستیوں کے مکین بن جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی جائیدادیں اور سرمایا لندن منتقل ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ نام گنوانے کی ضرورت نہیں آج سے 30سال قبل کے ان سیاست دانوں کو اپنے ذہنوں میں لائیں جو اس وقت نئے نئے رکن قومی اسمبلی یا رکن صوبائی اسمبلی ، وزیر بنے تھے آج وہ پاکستان میں نظر نہیں آتے ہیں، ان کی جائے پناہ لندن ہے، وہ شخص جو بذریعہ ریل کراچی سے لاہوراور لاہور سے کراچی نہیں آجاسکتا تھا، اسٹیج پر لوگوں کی نقل اتار کر لوگوں کو ہنسایا کرتا تھا،کلرک تھا، پان کی دکان تھی، اس سیاست کے ہیر پھیر سے لندن کا مکین بنا ہوا ہے۔ واپسی کی کب اور کیوں سوچے گا جب پاکستان میں اس کے لیے وزارت تیار رکھی ہوگی فوری آجائے گا۔ پاکستان میں سالوں حکمرانی کے مزے لینے والے،طویل مدتی گورنری کا ریکارڈ قائم کرنے والے جب تک گھوڑے پر سوار رہے پاکستان اچھا ، سب کچھ اچھا جوں ہی حالات نے انہیں گھوڑے سے نیچے اتارا ، ان کی اوقات یاد دلائی، انہیں پاکستان کا کوئی شہر اچھا نہیں لگا دوڑ پڑے کہاں؟ لندن۔ آخر ایسی کیا خوبی ہے اس شہر میں کہ جس کے نیچے کرولا آجائے، ڈیفنس میں گھر بن جائے، لندن کی جانب دوڑ پڑتا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ جو مزاہ اپنے وطن میں ہے وہ کسی ملک میں کہاں۔ ہمیں تو سعودی عرب جیسے ملک میں کئی بار جانے کا اتفاق ہوا، جہاں ہمارے قیام کی مدت شاید چار سے پانچ ماہ ہوئی ، ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ نہیں بھئی نہیں اپنا وطن اپنا وطن ہوتا ہے، چاہے حالات کیسے بھی ہوں۔ دہشت گردی کا جو بھی حال ہو، موبائل کتنے ہی چھینے جاتے ہوں، ڈکیتیا ں کتنی ہی کیوں نا ہوتی ہوں،سڑکوں کا کتنا ہی برا حال ہو، ٹریفک کس قدر ہی بے ہنگم کیوں نہ ہو پھر بھی اپنا ملک اپناملک ہوتا ہے ۔ جو سکون اور اطمینان اپنے ملک اپنے شہر اور اپنے گھر میں میسر آتا ہے وہ کہیں اور نہیں۔ حیرت ہوتی ہے ان دولت کے پچاریوں پر کیسے اپنے وطن کو ،اپنے شہر کو، اپنے بیوی بچوں اور عزیز رشتے داروں کو چھوڑ کر لندن میں طویل عرصہ رہتے ہیں، لگتا ہے انہیں اپنی جائیداد کی، اپنے ناجائز بنک بیلنس کی فکر زیادہ ہوتی ہے وہ اپنی اس عزیز ترین چیز دولت ، سرمایہ ، جائیداد کو ہر چیز پر فوقیت دیتے ہیں اور لندن کی آب ہوا میں اپنے آپ کو خوش و خرم رکھتے ہیں۔ کتنے ہی سیاست داں ایسے گزرے ہیں جو لندن سے تابوت میں وطن لائے گئے، اگر لگیج میں رکھے تابوت میں انہیں ہوش آجاتا، اللہ ان کی روح کو واپس بھیج دیتا اور انہیں یہ علم ہوجاتا کہ انہیں لندن سے پاکستان لے جایا جارہا ہے تو واویلا مچا کر طیارے کا رخ لندن کی جانب تبدیل کر ا کے دم لیتے۔ لمحہ موجود کے سیاست دانوں جنہوں نے لندن کو اپنا سب کچھ سمجھا ہوا ہے ڈرواُس وقت سے جب تم بھی تابوت میں لائے جاؤگے۔ اس لیے کہ لندن کی سرزمین غیر وطن کے مردہ جسم کو قبول نہیں کرتی ، یہ تو پاک سرزمین ہی ہے کہ اس زمین سے بے وفائی کرنے کے باوجود یہ ہر ایک کو اپنے سینے سے لگالیتی ہے۔تم لندن میں کتنے ہی عیش و عشرت کی زندگی گزار لو تمہیں مادر وطن کی مٹی ہی دو گز زمین فراہم کرے گی۔ تم نے دفن اسی سرزمین میں ہونا ہے۔ یہ دولت جو تم نے ناجائز طریقے سے اپنے وطن سے لندن پہنچا دی ہے یہ تمہارے کام نہ آسکے گی۔ یہ دولت تمہیں لندن کی زمین می دفن بھی نہیں کرسکے گی۔ اب بھی وقت ہے ہوش کے ناخن لو، اللہ سے توبہ کرو اور اپنا قبلہ درست کر لو ۔

جب پاکستان کے سیاست داں لندن میں بیٹھ کر پاکستان میں اپنی سیاسی جماعتیں برسوں چلا سکتے ہیں اور چلا رہے ہیں، پاکستان میں پابندی لگی دوڑ گئے لندن، پاکستان میں حکمرانی کا دور ختم ہوابھاگ گئے لندن ،عدالت سے ضمانت ہوئی سیدھے لندن، جب ہمارے سیاسی رہنماؤں نے لندن میں ہی اپنا جینا مرنا کرنا ہے، سیاست وہاں سے، پارٹی قیادت وہاں سے، علاج وہاں پر، جائیدادیں لندن میں،بچے لندن میں، ان کی تعلیم لندن میں، بچوں کی جائیدادیں لندن میں، اپنا سرمایا جائز و ناجائز طریقے سے لندن کے بنکوں میں تو پھر یہ تجویز بری نہیں کہ لندن کو پاکستان کا ذیلی مرکز بنا دیا جائے۔ اس طرح کوئی انگلی تو نہیں اٹھائے گا، ویسے بھی ہمارے سیاست داں اس معاملے میں بڑے نڈر اور دلیر ہیں۔ دنیا کچھ بھی کہے وہ لندن کو اپنا دل و جان تصور کرتے ہیں۔ پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم کو امریکہ میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنا تھی۔ بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ لندن میں حاضری کے بغیر وہ نیویارک چلے جاتے۔ اپنی تمام تر بارات کے ساتھ پہلے لندن تشریف لے گئے ،آشیرواد حاصل کی ، سر پر شفقت کا ہاتھ پھروایا، ایک ہزار بار شکریہ ادا کیا کہ حضور ، مائی باپ آپ کی نظر عنایت مجھ ناچیز پر اس عہدہ کے لیے پڑی آپ کی بڑی مہر بانی۔ آپ نے اپنے سب سے سینئر رفیق کار، صاف ستھرے سیاست داں، وزیر داخلہ کو بھی خاطر میں نہ لاتے ہوئے میرا انتخاب کیا، آپ نے اپنے تمام درباریوں میں مجھے فوقیت دی میں آپ کی خدمات میں حاضر ہوں، قبلہ مجھے آشرواد دیجئے۔ میں رونالڈ ٹرمپ کے شہر میں جارہا ہوں جو اس وقت بپھرے ہوئے شیر کی مانند دھاڑ رہا ہے۔ دعا کیجئے مجھ سے اس کی ملاقات ہوجائے ورنہ اپنے ملک جاکر کیا منہ دکھاؤں گا۔ ممکن ہو تو اسے ایک کال کردیجئے کہ وہ مجھ سے کسی کھانے کی تقریب میں کچھ نہ کرے صرف مصافحہ ہی کر لے بس میرے لیے یہی بہت بڑی بات ہوگی۔ویسے سچ بات یہ ہے کہ جب آپ جیسا تجربہ کار سیاست داں پرچی رکھ کرامریکہ کے صدر سے بات کرتا ہے تو میری کیا مجال کہ میں ٹرمپ کے سامنے بول سکوں گا۔

میاں صاحب خیر سے اس وقت تو اپنی بیگم صاحبہ کی بیماری کے باعث لندن میں ہیں لیکن سوچیے نا اہل ہونے کے بعدکتنی بار لندن گے، دل کا بائی پاس لندن میں،پارٹی کا اجلاس لندن میں۔ یہی حال سابق صدر آصف علی زرداری صاحب کا ہے، لندن، امریکہ اور دبئی، معمولی سا خطرہ نظر آیا دوڑ گئے لندن، ڈاکٹر عاصم پابند سلاسل تھے ، جوں ہی آزاد ہوئے چلے گئے لندن،سندھ کے شہروں کی نمائندہ جماعت کے سربراہ بلکہ سابق سربراہ، ایک دھڑے کے ابھی بھی سربراہ ہیں کتنے سال سے لندن میں آرام فرما ہیں۔ لندن میں بیٹھ کر کیا خوب سیاست کی، پارٹی کو اتنے ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا کہ پاکستان مسلم لیگ بھی اتنے دھڑوں میں منقسم نہیں۔ لندن کی آب و ہوا سیاست دانوں کو مرغوب ہے اور ایسی راس آتی ہے کہ ان کا بس چلے تو لندن کی پوجا پاٹ شروع کردیں۔ بات یہاں سے شروع ہوئی تھی کہ پاکستانی امیروں خاص طور پر سیاسی امیروں ، کبیروں اور حکمرانوں کو لندن سے اس قدر محبت ہے کہ جس کی مثال نہیں ملتی ۔ کیوں نہ لندن سے ایساتعلق قائم کر لیں کہ یہ لندن کے ہی ہو کر رہ جائیں،اس طرح پاکستان کی سرزمین بہت بڑے بوجھ سے آزاد ہوجائے گی۔

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1279293 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More