اپیلیں مسترد:
نظر ثانی اپیلوں کی سماعت شروع ہوئی اور 13ِستمبر2017ء کو ریمارکس دیئے گئے
کہ نواز شریف کو تمام ججوں نے متفقہ طور پر نااہل کیا ہے۔فیصلے میں بہت
احتیاط کی ہے ۔وکلا ء دلائل جاری رہے اور جج ریمارکس دیتے رہے اور15ِ
ستمبر2017ء کو نواز شریف کی نااہلی کو برقرار رکھتے ہوئے سُپریم کورٹ
کے5رُکنی لارجر بنچ نے نظر ثانی کی اپیلیں مسترد کردیں اور تفصیلی فیصلہ
بعد میں جاری کرنے کا کہا۔ساتھ ہی نیب نے بھی اُس ہی دِن حدیبیہ کیس دوبارہ
کھولنے کیلئے ایک ہفتے میں اپیل کی یقین دہانی کروا دی۔
شریف فیملی کی19ِ ستمبر2017ء کو پھر طلبی:
13ِستمبر 2017ء کو اسلام آباد احتساب عدالت نے کرپشن ریفرنس پر شریف فیملی
کو 19ِ ستمبر2017ء کو طلب کیا۔ 19ِ ستمبر2017ء کی صبح ایک دفعہ پھر احتساب
عدالت میں شریف فیملی کی طرف سے کوئی پیش نہ ہوا ۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما و
خاندانی مشیر آصف کرمانی نے عدالت کو بتایا کہوہ سب لندن میں ہیں بوجہ بیگم
کلثوم نواز کی طبعیت خراب ہو نے کے۔جس پر عدالت نے آئندہ سماعت پر شریف
فیملی کے نامزد افراد کو ہر صورت پیش ہونے کا حُکم جاری کر دیا۔عدالت کے
علم میں یہ بھی لایا گیا کہ حسن و حسین حاضری کا حُکم نامہ وصول نہیں کیا
اور مریم نوازکی لاہور میں موجودگی کے دوران اُنکے سیکیورٹی گارڈ نے وصول
کیا تھا۔
نواز شریف ماضی میں بھی 2دفعہ :
پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف اوراُنکا خاندان جس صورتِ حال اس وقت
گزر رہا اُس سے وہ ماضی میں پہلے بھی 2 دفعہ دوچار ہو چکا ۔یعنی 3دفعہ نواز
شریف وزیرِ اعظم پاکستان بنے اور 3دفعہ ہی اپنے عہدے کی معیاد مکمل ہو نے
سے پہلے الگ کر دیئے گئے۔
پہلی دفعہ:
نواز شریف پاکستان کے کاروباری طبقے سے منسلک پہلے وزیرِ اعظم تھے۔ پہلی
دفعہ اُنھوں نے اپنے عہدے کا حلف نومبر 1990 ء میں اُٹھایا اور پھر ’’پیلی
ٹیکسی‘‘ اور دوسرا موٹر وے اسلام آباد سے لاہو ر تک کے دو ا ہم منصوبے شروع
کرکے پاکستانی عوام کے دل جیت لیئے۔ اسکے علاوہ اور بھی ملکی سطح پر عوامی
کام کر رہے تھے کہ اچانک کچھ ایسے سیاسی حالات پیدا ہونے شروع ہو گئے جو اُ
س وقت کے صدرِ پاکستان غلام اسحاق کو پسند نہیں آرہے تھے۔محلاتی سازشیں
بڑھنی شروع ہوئیں تو نوازشریف نے اپریل 1993 ء میں قوم سے براہِ راست خطاب
میں کہہ دیا کہ اپنے منصوبوں کی تکمیل کی خاطر نہ استعفیٰ دوں گا، نہ
اسمبلیاں توڑوں گا اور نہ ہی ڈکٹیشن لوں گا۔لیکن اسکے باوجود 18ِ اپریل
1993ء کی رات 8بجے صدر غلام اسحاق خان نے 1973ء کے آئین کی آٹھویں ترمیم کے
آرٹیکل 2-52 (بی) کے تحت وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت برطرف کر دی اور
قومی اسمبلی کو توڑ دی۔ سُپریم کورٹ نے 26ِ مئی 1993ء کو اپنے فیصلے میں
صدارتی حکم کو کالعدم قرار دے کر نواز شریف حکومت اور قومی اسمبلی بحال کر
دی۔ لیکن محلاتی سازشیں اتنی عروج پر تھیں کہ اُنھوں نے وزارتِ عظمیٰ کی
عہدے سے استعفیٰ ہی دے دیا ۔
دوسری دفعہ:
نواز شریف نے فروری 1997 ء کے انتخابات میں جب ایک دفعہ پھر کامیابی کے بعد
وزار تِ عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا تو سب سے پہلے اپنی جماعت مسلم لیگ (ن) کی
پارلیمانی اکثریت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے 13 ویں ترمیم کے تحت 8 ویں ترمیم
کا ہتھو ڑا ختم کروا کر با اختیار وزیر اعطم بن گئے۔ جسکے بعد مئی 1998 ء
میں اُنھوں نے پاکستان کی طرف سے ایٹم بم کا تجرباتی دھماکہ کر کے ملک کو
ایٹمی قوت بنا دیا۔یہ دونوں فیصلے اُن طاقتوں کو پسند نہ آئے جو اس ملک کی
تقدیر سے قیامِ پاکستان سے ہی کھیل رہی تھیں ۔لہذا اگلے سال بھارت کے ساتھ
کارگل کا تنازعہ ملکی سطح پر کچھ ایسا رنگ اختیار کر گیا کہ افواجِ پاکستان
کے اعلیٰ عہدے داروں سے اُنکی چپقلش شروع ہو گئی۔وزیر اعظم نواز شریف نے
اپنے رفقاء کے تعاون سے نے نیا اَرمی چیف آف سٹا ف لگانے کی کوشش کی ۔ ساتھ
میں اُس وقت کے اَرمی چیف آف سٹا ف جنرل پرویز مشرف جو اُس روز بیرونِ ملک
کے دورے کے بعد بذریعہ ہوائی جہاز واپس پاکستان آرہے تھے کے ہوائی جہاز کو
پاکستان میں لینڈنگ کرنے سے روکنے کی کوشش کی گئی تواس پر افواج ِ پاکستان
نے اُنکی حکومت کے خلاف بغاوت کر دی اور 12ِ اکتوبر 1999 ء کو نواز شریف کو
گرفتار کر کے اُنکو وزارت سے برطرف کردیا گیا ۔ساتھ میں اُنکی حکومت ختم کر
کے اَرمی چیف آف سٹا ف جنرل پرویز مشرف نے بذاتِ خود پاکستان کے چیف
ایگزیکٹو کا عہدہ سنبھال لیا۔۔ (جاری ہے)
|