ارض شام ۔۔ماضی ،حال ،مستقبل

شام ۔۔۔ارض مبارک ،سرمین انبیاء ۔۔اسلامی تہذیب وتمدن کا مرکزاور تابندہ تاریخ کی یادگا رہے ۔۔۔ امام نووی، علامہ شامی، ابن عساکر، حافظ ابن حجر عسقلانی، المقدسی، یاقوت حموی، الحلبی اور الطرطوسی رحمھم اللہ جیسے کبار علماء کرام اور ائمہ کا یہ مسکن رہا ہے جب کہ اصحاب رسول ﷺمیں سے کبار صحابہ کرام سیف اللہ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ،سیدنا عیاض بن غنم رضی اﷲ عنہ، عبیداللہ بن عمررضی اﷲ عنہ، سیدنا ابودرداء رضی اﷲ عنہ، حضرت بلال حبشی رضی اﷲ عنہ اور سیدنا ابوذر غفاری رضی اﷲ عنہ کے مزارات مقدسہ بھی اسی مقدس سرزمین میں ہیں،امر واقعہ یہ ہے کہ خلافت عثمانیہ کے خاتمے اور عرب دنیا کی تقسیم سے زوال کا نیا سفر شروع ہوا ،یہاں تک کہ شام میں ایک عیسائی مائیکل عفلق نے بعث پارٹی (حزب البعث) قائم کی، جس نے سازشوں کے ذریعے مسلمانوں کی قوت کو کمزور کرکے 1963 میں عراق وشام میں فوجی انقلاب برپا کر کے اقتدار حاصل کیا،جب کہ 1970ء میں علوی وزیر دفاع حافظ الاسد نے بعثی صدر نور الدین العطاشی اور وزیراعظم یوسف زین کا تختہ الٹ کر خود اقتدار سنبھال لیا۔بلاشبہ حافظ الاسد کے تیس سالہ دورمیں ظلم و ستم ک ایک تاریخ رقم کی ،جب کہ فروری 1982ء میں شام کے شہرحماۃ کے مسلمان، نصیری مظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو حافظ الاسد کی فوج نے وہاں ٹینکوں سے گولہ باری کرکے خون کی ندیاں بہا دیں ،نتیجتا 45 ہزار مسلمان شہید ہوئے اور جامع مسجد حماۃ شہداء کے خون سے رنگ دی گئی۔

شامی مسلمانوں پر دوسرا اور موجودہ ظلم و استبداد کا دور آمر حافظ الاسدکے جون 2000ء میں مرنے سے شروع ہوا جس میں تیزی فروری 2011 کے عرب بہار کے عنوان سے خطے میں ہونے والی تبدیلیوں سے آئی ،شامی عوام بشار الاسد کے مظالم کے خلاف اٹھے تو نصیری شیعہ حکومت نے پرامن مظاہرین پر ٹینک چڑھا دیئے ،ایک اخباری رپورٹ کے مطابق ’’شامی عوام انسانیت سے عاری ایک مجرم (بشار الاسد) اور اخلاق سے عاری گروہ (علویوں) کے ہاتھوں مجموعی طور پر 17 سال سے ظلم و تشددکا نشانہ بنے ہوئے ہیں، سرکاری اہلکار ان کے خلاف تعذیب و تشدد کے تمام ہتھیار استعمال کر رہے ہیں جن میں خواتین کی آبرو ریزی، بچوں کا قتل، ہاتھ پائوں کاٹنا، زندہ جلا دینا یا سب کے سامنے زندہ دفن کر دینا، آنکھیں نکال دینا جیسی ہولناک کارروائیاں ہیں ،جب کہ مساجد مسمار کرنا، قرآن مجید جلانا ، گھروں کو لوٹ کراہل خانہ سمیت گھر جلانا ،بھاری اور ہلکے آتشیں اسلحہ سمیت حریت پسندوں کے خلاف ہر نوع کا ہتھیار استعمال کرنا ،عام شہریوں پر خطرناک کیمیائی ہتھیار وں کا بے دریغ استعمال کرنا ،بشار رجیم کے وہ جرائم ہیں جن پر ہر انسان تڑپ اٹھا ،علاوہ ازین عربوں اور اقوام متحدہ کی امن کوششوں کے باوجود شام کا وحشی اپنے جرائم سے باز نہیں آیا ،جب کہ اس کی پشت پناہی روس، ایرانی، عراقی اورلبنانی ملیشیاپیش پیش ہیں ۔
فروری 2017ء کو ایمنیسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے پیش کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے "2016ء کے اختتام تک اس تنازعہ میں 300،000 سے زائد اموات واقع ہو چکی ہیں"۔ لیکن حقیقی اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ اسد رجیم اور اس کی کمانڈ میں موجود ملٹری گروہ اس وقت یقینی طور پر 600،000 سے زاید افراد کو موت کے گھاٹ اتار چکے ہیں، ایمنیسٹی رپورٹ بتاتی ہے کہ "2011ء سے 2016ء کے اختتام تک 4.8ملین افراد شام سے نکل مکانی پر مجبور ہوئے۔ اقوام متحدہ کی مہاجرین بارے ادارہ، یو این ایچ سی آر کے مطابق صرف 2016ء میں 200،000 مہاجر بن گئے۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی امور کے مطابق اسی چھ سالہ عرصہ میں 6.6ملین شامی شام کے اندر ہی نکل مکانی کر گئے جن میں آدھے بچے تھے۔ مزید ہزاروں افراد بحیرہ روم اور ایجین سمندروں کے ٹھنڈے پانیوں میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یونیسف کے مطابق 8ملین شامی بچوں کو ہنگامی طور پر خوراک کی ضرورت ہے جن میں 2ملین شامی مہاجر بچے شامل ہیں۔

اس میں دو رائے نہیں کہ اقتدار کی ہوس میں اندھے اور بہرے سفاک نصیری رافضی اسد رجیم کو اپنے ہم وطنو کے خلاف کیمیائی اور متنازعہ ہتھیار استعمال کرنے سے نہ تو جینیوا عمل روک سکا اور نہ ہی آستانہ میں ہونے والی مزاکراتی بیٹھکیں ، اس بات کا ادراک کرتے ہوئے کہ دنیا اس کی خونریزی اور انسانیت سو ز مظالم کو کھلی آنکھوں "دیکھ" رہی ہے،مزید یہ کہ ایرانی پاسداران انقلاب ، ایرانی معاونت سے داعش کا خود ساختہ وجود ،اور شیعہ ملیشیا فورسسز خطہ کی تباہی میں بشار رجیم کے ظلم کی سیاہ رات کو مزید طول دینے میں کلیدی کردار ادا کررہی ہیں ،لیکن یہ طے شدہ آفاقی حقیقت ہے کہ ظلم کی سیاہ رات جتنی گہری ہو ،اتنی ہی خوبصورت امن و انصاف کی صبح ہو تی ہے ۔

Molana Tanveer Ahmad Awan
About the Author: Molana Tanveer Ahmad Awan Read More Articles by Molana Tanveer Ahmad Awan: 212 Articles with 250776 views writter in national news pepers ,teacher,wellfare and social worker... View More