جب ایک ایسے جمہوری وزیراعظم کو بغیر سوچے سمجھے گھر بھیج
دیا جائے کہ اس سے ملک کو کتنا نقصان ہو گا اور وزیراعظم بھی ایسا کہ جس کے
پاس پارلیمنٹ میں واضح اکثریت ہو تو یقینا حالات کسی بڑے طوفان کی نوید سنا
رہے ہوتے ہیں۔ چند ماہ قبل جب سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف حکومتی
بھاگ دوڑ سنبھالے ہوئے تھے تو سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا مگر اُن کے جانے کے
بعد ایک دم ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے کسی بھی ٹیم کا کپتان میچ سے باہر ہو
تو یقینا ٹیم کی کارکردگی پر بُرا اثر پڑتا ہے حالانکہ وہی کپتان باؤنڈری
لائن سے باہر ٹیم کو ہدایات دے رہا ہوتا ہے مگر باہر سے ہدایات دینا اور
ٹیم کے ساتھ کھیلنے میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے۔ چونکہ ایک بااختیار وزیراعظم
اور ایک ’’کٹھ پتلی‘‘ وزیراعظم میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے شاید یہی وجہ
ہے کہ جب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کو برطرف کیا گیا ہے تو ملکی حالات
کچھ اچھے نہیں ہیں اور پاکستان کے لئے بین الاقوامی سطح پر بھی مایوس کن
خبریں سننے کو مل رہی ہیں۔ 2008ء کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی
کی حکومت قائم ہوئی اور سب کو اس بات کا علم ہے کہ اُن کو محترمہ بے نظیر
بھٹو کی شہادت کی وجہ سے ہمدردی کا ووٹ ملا تھا۔ اُن کی حکومت قائم ہوئی
مگر اس حکومت نے کیا کیا گل کھلائے سب کے سامنے ہے۔ اُن کے بوئے ہوئے کانٹے
آج بھی موجودہ حکومت اُٹھا رہی ہے۔ اس کی مثال صرف دو عالمی اُمور میں لی
جا سکتی ہے۔ ان کے گذشتہ دورِ حکومت میں سینڈک، سونے اور کاپر کے ذخائر
بلوچستان سے نکالنے کے لئے ایک معاہدہ ٹی تیان نامی کمپنی کے ساتھ ہوا تھا
مگر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے اس معاہدے
کو کینسل کر دیا تھا اور یوں یہ کمپنی عالمی عدالت انصاف میں چلی گئی اور
اب عالمی عدالت انصاف نے پاکستان پر 6 ارب ڈالر جرمانہ عائد کر دیا ہے۔
یقینی طور پر جب ملکی خزانے کے حالات ویسے ہی اتنے خراب ہیں تو اتنا بڑا
جرمانہ ادا کرنا بہت بڑا نقصان ہو گا۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کے ہی گذشتہ دورِ
حکومت میں مشہورِ زمانہ ’’رینٹل پاور پراجیکٹ‘‘ منصوبہ شروع کیا گیا تھا۔
یہ منصوبہ ترکی کی کمپنی کارکے کے ساتھ معاہدہ کیا گیا تھا، اس پر بھی اُس
وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ازخود نوٹس لیا تھا اور یہ ازخود
نوٹس کسی حد تک عوام کے مفاد میں بھی تھا چونکہ اس معاہدے سے بجلی کی فی
یونٹ حکومت کو 40 روپے مل رہی تھی، یقینا یہ بہت مہنگا ٹیرف تھا۔ اس منصوبے
کو بھی ختم کیا گیا اور یوں یہ کمپنی بھی عالمی عدالت انصاف میں چلی گئی
اور اس پر بھی پاکستان کو 700 ملین ڈالر کا جرمانہ عائد کیا گیا، یہ بھی
حکومتی خزانے کے لئے ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔ اسی طرح HBL نیویارک برانچ
کی سرگرمیوں کو بغور دیکھنے والے ریگولیٹر اتھارٹی نے بینک انتظامیہ کو
آگاہ کیا کہ وہ مشکوک ٹرانزکشن نہ کریں، اسی برانچ نے 2006ء میں بھی منی
لانڈرنگ کی تھی، اب پھر اُنہوں نے مشکوک ٹرانزکشن کیں، اب ریگولیٹر اتھارٹی
نے نہ صرف نیویارک برانچ بند کر دی ہے بلکہ ان پر 60 کروڑ ڈالر کا جرمانہ
بھی عائد کر دیا ہے، بعد میں ان کی منت سماجت کر کے جرمانے کو 28 کروڑ ڈالر
تک لے آئے یقینا اس سے ملکی بدنامی بھی ہوئی اور ملکی خزانے کو ناقابل
تلافی نقصان بھی پہنچا۔ اسی طرح ابھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان کے
حوالے سے نئی پالیسی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہ پاکستان پر اقتصادی
پابندیاں لگانے کا سوچ رہے ہیں اور پاکستان کی فوجی مدد بھی ختم کر دی ہے۔
اسی طرح کپتان کے جانے کے بعد حالیہ دنوں میں 2 ڈرون حملے بھی ہو چکے ہیں۔
چند ماہ قبل چین میں Brics آرگنائزیشن کا اجلاس ہوا اور اس کا مشترکہ
اعلامیہ بھی غور طلب ہے اس میں انہوں نے واضح الفاظ میں لشکر طیبہ اور جیش
محمد کو دہشت گرد تنظیموں میں شامل کیا ہے۔ ان تنظیموں کے حوالے سے پہلے
معاملہ سلامتی کونسل میں جا چکا ہے مگر اُس وقت چین نے ویٹو کیا تھا اب
شاید چین بھی ایسا نہ کرے۔ بلوچستان کے حوالے سے خبریں حوصلہ افزاء نہیں
ہیں۔ ابھی چند دن قبل سوئٹزر لینڈ میں بلوچیوں نے احتجاج کیا۔ اسی طرح
جاپان کے وزیراعظم کا حالیہ دورۂ بھارت بھی اہمیت کا حامل ہے۔ اُس نے بھارت
کے مؤقف کی حمایت کی ہے۔ یہ تمام تر خبریں یقینا پاکستان کے لئے مایوس کن
ہیں اور یہ تمام خبریں اُس وقت منظر عام پر آئی ہیں جب منتخب وزیراعظم کو
گھر بھیج دیا گیا اور کٹھ پتلی وزیراعظم کی موجودگی میں عالمی تنظیمیں اور
ادارے بات چیت یا اعتماد کی فضا قائم نہیں رہ سکے۔ پاکستان کے اندرونی
حالات بھی حوصلہ افزاء نہیں ہیں۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ پھر شروع ہو گئی ہے،
بجلی مہنگی بھی کر دی گئی ہے۔ پاکستانیوں کو یاد ہو گا کہ کپتان کے جانے سے
کچھ دن قبل اُنہوں نے اعلان کیا تھا کہ لوڈشیڈنگ کو خدا حافظ اب بجلی سستی
ملے گی۔ پاکستان میں پٹرول کی بھی قلت نظر آرہی ہے۔ روپیہ اپنی قدر کھوتا
ہوا نظر آرہا ہے۔ ٹماٹر 200 روپے کلو گاہک کو آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ پیاز
100 روپے کلو ہو چکے ہیں۔ چینی یوٹیلیٹی سٹورز پر دستیاب نہیں۔ یقینا
عدالتی فیصلے کرتے ہوئے یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ اس فیصلے سے پاکستان کو
کتنا فائدہ اور کتنا نقصان ہو گا۔ اگر تو لوٹا ہوا پیسہ واپس قومی خزانے
میں جمع کرا دیا گیا ہے تو پھر تو یہ بہت اچھی خبر ہے لیکن اگر ایسا نہیں
ہے صرف عوام کی واہ واہ کے لئے عدالتی فیصلے کئے جا رہے ہیں تو پھر اس میں
پاکستان کی بھلائی نہیں ہے۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔ |