جراتِ رندانہ

بڑے لیڈر کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے مو قف کے حق میں پوری قوم کو اعتماد میں لیتا ہے اور انھں اپنے موقف کے حق میں قائل کرتا ہے ۔ قا ئد کو قریہ قریہ،کوچہ کوچہ اور گلی گلی عوام سے رابطہ کرنا پڑتا ہے اور یہی رابطہ اسے عوام کی نفسیات اور ان کے مسائل کو سمجھنے میں اس کی رہنمائی کرتا ہے۔کبھی کبھی قائد کو ایک انتہائی مشکل مقدمہ لڑنا پڑتا ہے لیکن اگر اس کے مقدمے میں عوامی حاکمیت کی روح موجود ہوتو وہ اس میں کامیاب وکامران ٹھہرتا ہے اور اس کا فلسفہ عوام میں پذیرائی حاصل کر لیتا ہے۔اگر اس کا مقدمہ عوامی امنگوں کا ترجمان نہ ہوتو اسے عوام کی عدمِ توجہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔برِ صفیر پاک و ہند میں ایک علیحدہ اسلامی ریاست کا مقدمہ اپنی نوعیت کا انتہائی مشکل مقدمہ تھا ۔اگرچہ اس مقدمہ کی مخالف قوتیں بڑی طاقتور تھیں لیکن چونکہ اس میں اسلام کی نشاۃِ ثانیہ اور عوامی حاکمیت کی روح جھلمل جھمل کر رہی تھی اس لئے عوام نے قائدِ اعظم محمد علی جناح کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ان کے پیش کردہ مقدمے کو دل و جان سے پذیرائی بخشی اور مخالفین کی ساری ریشہ دوانیوں کو شکست سے ہمکنار کیا ۔ انگریزوں، ہندوؤں اور نیشلنسٹ علماء کی باہمی یگانگت کو شکست دینا ایک غیر معمولی واقعہ تھا لیکن ایسا ہو اور سرِ عام ہوا ا ۔ذولفقار علی بھٹو کا نعرہ کہ طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں در اصل عوامی جذبات کا آئینہ دار تھا اس لئے بے مثال پذیرائی سے ہمکنار ہوا ۔ یہ الگ بات کہ عوامی طاقت کے سرچشمہ کے خالق کو ایک فوجی آمر کے ہاتھوں سرِ دار جھولنا پڑا لیکن آمریت کا ریاستی جبر بھی عوام کی حاکمیت کے تصور،روایات، جمہوری قدروں اور ان کی ترویج کے جذبوں کو گہنا نہ سکا۔عوام کو وقتی طور پر سزاؤں اورعقوبت خانوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن چونکہ اس مقدمہ کی روح میں سچائی کا بیج تھا اس لئے یہ برگ و بار لا کر رہا۔آمریت کی سیاہ رات کے باوجود عوام نے امید اور آزادی ِاظہار کا دامن نہ چھوڑا جس کی وجہ سے جمہوری روح کے سامنے آمرِ وقت کو بھی جھکنا پڑا ۔عوام اب بھی جمہوری روح اور عوامی حاکمیت کی سوچ پر دل و جان سے فدا ہیں۔طالع آزماؤں کی طالع آزمائیاں اور ہتھکنڈے اپنی جگہ جاری و ساری ہیں لیکن جمہوریت کے دیوانے اپنی تصوراتی دنیا اصول پسندی کی طاقت سے جمہوری جنگ پو ری شان سے لڑ رہے ہیں ۔ایک معرکہ ہے جو ان دونوں کے درمیان برپا ہے ۔ وقتی طور پر طالع آزماؤں کا پلڑا بھاری لگتا ہے کیونکہ ان کے پاس ایسے ڈھنڈورچی ہیں جو ان کیلئے شورو غوغہ مچاتے ہیں اورمیڈیا جھنیں غیر معمولی اہمیت دیتا ہے تاکہ اسٹیبلشمنٹ کی سرپر ستی ان کے سروں پر سلامت رہے۔ جمہوریت اور طالع آزمائی کی یہ جنگ اب ایک فیصلہ کن دور میں داخل ہو چکی ہے ۔اب فیصلہ ہو جائیگا کہ اس ملک کا مقدر جمہوریت ہے یا طالع آزماؤں کے شب خون ہیں۔،۔

میاں محمد نواز شریف کی نااہلی نے سارے پردے اٹھا دئے ہیں ۔اب کوئی ابہام باقی نہیں رہا کہ جمہوری حکو متوں کی اکھاڑ بچھاڑ کے پیچھے کون کھڑا ہوتاہے؟میاں محمد نواز شریف نے عوامی ووٹ کے تقدس و توقیر کے لئے جو دوٹوک اعلان کیا ہے اس نے اسٹیبلشمنٹ کے ایوانوں میں زلزلہ پیدا کر دیا ہے۔دو تہائی اکثریت کی حامل جماعت کے قائد نے جب اعلان کر دیا ہے تو پھر آئینی تبدیلی کو حقیقت بننے سے کوئی روک نہیں سکے گا ۔ پی ٹی آئی،مسلم لیگ (ق)، عوامی مسلم لیگ اور جماعت اسلامی کی جانب سے حکومت کا ساتھ دینے کا کوئی امکان نہیں لیکن اس کے بر عکس وہ تمام جماعتیں جو اسٹیبلشمنٹ کے جبر ،دباؤ اور زیادتیوں کی ڈسی ہوئی ہیں وہ میاں محمد نواز شریف کے ساتھ کھڑی ہیں اور آئین میں ضروری ترامیم کی حمائت کررہی ہیں تا کہ پارلیمنٹ کی بالا دستی قائم ہو اور اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں جمہوری قیادتوں کا جو جھٹکا ہوتا ہے اس سے ان کی جان چھوٹ جائے۔سب سے دلچسپ صورتِ حال پی پی پی کی ہے جو صاف چھپتی بھی نہیں اور سامنے آتی بھی نہیں کا منظر پیش کر رہی ہے۔پی پی پی کا و جود، پہچان اور خمیر تو جمہوریت کی بقا اور استحکام سے اٹھا ہے لیکن وہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے دامن سے بھی چمٹے رہنا چاہتی ہے ۔اسے علم ہے کہ پاکستان میں اقتدار کا راستہ اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی کے بغیر طے نہیں ہو سکتا اس لئے وہ کسی واضح موقف سے گریز کر رہی ہے۔آصف علی زرداری کو علم ہے کہ آئین میں بہت سے سقم ہیں جن میں ترمیم کی جانی ضروری ہیں لیکن وہ اسٹیبلشمنٹ کی ناراضگی کے پیشِ نظر ترامیم کا اعلان نہیں کر رہے۔سب کو علم ہے کہ پی پی پی چند سال پہلے۲ ۶ اور ۶۳ کی شقوں کو ّئین سے نکال باہر کرنے کیلئے بڑی بے تاب تھی لیکن میاں محمد نوازشریف کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے وہ جنرل ضیا الحق کی عطا کردہ ان دونوں شقوں کو آئین سے نکلوانے میں کامیاب نہیں ہو سکی تھی ۔لیکن وہ چیز جو کل غلط تھی آج کیسے درست قرار پا سکتی ہے؟ دنیا کی کوئی طاقت غلط کو درست قرار نہیں دے سکتی۔پی پی پی کی سیاسی فکر کی روح سے ۶۲ اور ۶۳ ایک آمر کا تحفہ ہے لہذا اس میں تبدیلی ضروری ہے ۔ عمران خان بھی ماضی میں اسی موقف کے حامی تھے یہ الگ بات کہ مسلم لیگ(ن) کی مخاصمت میں انھوں نے اپنا موقف بدل لیا ہے۔میاں محمد نواز شریف جھنیں اسٹیبلشمنٹ کا چہیتا کہا جاتا تھا اگر انھوں نے چند سال قبل ان دونوں شقوں کے اخراج کی مخالفت کی تھی تو اس میں جمہور کو کوئی حیرانگی نہیں لیکن اگر پی پی پی جیسی جماعت ان دونوں شقوں میں تبدیلی سے پس و پیش سے کام لے گی تو جمہور کو حیرانگی ہو گی کیونکہ ایسا کرنا پی پی پی کے بنیادی فلسفے سے بغاوت اور اپنے قائدین کے ساتھ غداری کے مترادف ہو گا۔ یہ سچ ہے کہ اس وقت میاں محمد نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے غم و غصہ کا شکار ہیں کیونکہ وہ عوامی حاکمیت کے فلسفہ سے دستبردار ہونے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔ ۱۹۷۳؁ کے آئین کی بحالی کے نعرے کے ساتھ ہی ان کے خلاف ڈان لیکس اور پھر کرپشن کے لا تعداد مقدمات کا ایک سلسلہ شروع ہو چکا ہے جس میں انھیں عدالتوں کی خاک چھاننی پڑے گی اور سخت مراحل سے گزرنا پڑیگا لہذا انھیں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا ہو گا ۔کیا محترمہ بے نظیر بھٹو ان مراحل سے نہیں گزری تھیں ؟کیا آصف علی زرداری نے گیارہ سالوں تک جیل کی سختیوں کا سامنا نہیں کیاتھا؟ ذولفقار علی بھٹو کے ساتھ وہ کونسا ظلم تھا جو روا نہیں رکھا گیا تھا؟قائد مشکلات سے نہیں گھبراتے بلکہ مشکلات ہی انھیں کامیابیوں سے ہمکنار کرتی ہیں۔،۔
تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب ۔،۔ یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے

میاں محمد نواز شریف کی دشمنی کے معنی یہ نہیں کہ پی پی پی حق کو حق کہنے سے مکر جائے۔ پی پی پی کی لیڈر شپ کو یاد رکھنا چائیے کہ سیاسی مخالفت میں اصولوں کا خون نہیں کیا جاسکتا ۔جو بات سچ ہے وہ سچ ہی رہیگی چاہے وہ کسی دشمن،عدو یا مخالف کی زبان سے ادا ہو۔سینیٹ کے چیرمین رضا ربانی نے کھلے الفاظ میں نئے عمرانی معاہدے کی حمائت کی ہے لیکن پی پی پی نے رضا ربانی کے نظریات کو کوئی اہمیت نہیں دی جس کی وجہ سے رضا ربانی کو خاموشی اختیار کرنی پڑی لیکن خاموشی کے معنی یہ تو نہیں کہ جمہوری روح کو ذبح ہونے دیا جائے ۔پاکستان میں آئین وجمہوریت کی جنگ پی پی پی نے بڑی جوانمردی سے لڑی ہے لہذا اسے اپنی ذمہ داریوں سے بھاگنے کی بجائے جمہویت کے استحکام کا ساتھ دینے کا اعلان کرنا چائیے ۔پی پی پی کیلئے یہ ایک سنہری موقعہ ہے کہ وہ جمہوریت کی مضبوطی اور آئینی سقموں کو دور کرنے کیلئے جراتِ رندانہ کا مظاہرہ کرے کیونکہ آئین کی مضبوطی پاکستان کی مضبوطی ہے لہذا آئین کے اندر ایسی ترامیم ناگزیر ہیں جن سے وزیرِ اعظم کو سازشوں سے وزارتِ عظمی سے ہٹایا نہ جا سکے۔وزرائے اعظم کے خلاف جس طرح کے حربے استعمال ہوتے ہیں اب عوام ان حربوں سے آشنا ہو چکے ہیں لہذا وہ ایسے گھٹیا حربوں کا خاتمہ چاہتے ہیں۔پی پی پی کو سیاسی مفادات سے بالا تر ہو کر جمہوری روح کو زندہ رکھنے کیلئے آئینی ترامیم کی غیر مشروط حمائت کا اعلان کرنا چائیے تاکہ طالع آزما ئی اپنی موت آپ مر جائے اور جمہوری کلچر عوام کا مقدر ٹھہرے۔یاد رہے کہ آئینی ترامیم کی حمائت نواز شریف کی حمائت نہیں بلکہ جمہوریت کی حمائت ہے۔،۔

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 515509 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.