ہم سادہ دل تھے ہمیں یہ شخص بتاتا رہا کہ میں کوئی معاہدہ
کر کے نہیں آیا مرحوم قاری شکیل بھی اعتبار کر گئے ملک محی الدین رو ء و ف
طاہر بھی اور جدہ میں مقیم بہت سے پاکستانی بھی کہ جی ہمارے وزیر اعظم آپ
ہی ہیں بلکل اسی طرح جس طرح شاہد خاقان کہتے ہیں کہ میرے وزیر اعظم تو نواز
شریف ہیں یہ گردان سن ۲۰۰۰ میں بھی تھی جناب آپ آئینی وزیر اعظم ہیں مسلم
لیکیوں کی وہاں بھی عادت تھی ہاتھ بندھے ہوئے آنکھیں زمین پر اور ظل الہی
کو مخاطب ہونے سے پہلے کہا کرتے تھے جناب آئینی وزیر اعظم۔موصوف خوش ہو
جاتے ۔ان کے دستر خوان پر رنگ برنگے لوگ ہوا کرتے تھے ان میں حاجی اختر
حسین(البیلا) بھی ہوا کرتے جو انہیں ہنسانے کے لئے میز پر بیٹھے لوگوں کی
تضحیک کیا کرتے تھے۔روکھے اور پھس پھسے لطیفوں پر سارے ٹکڑ خور قہقہے لگایا
کرتے(ویسے کھانا بھی اکثر مفت کا ہوتا تھا مکہ ہوٹل اشرفیہ کا)۔میں جھوٹ
نہیں بول سکتا میں نے ان سے دو تین نشستیں کیں اور قاری شکیل سے معذرت کر
لی کہ مجھے سرور پیلیس آتے اچھا نہیں لگتا جو خبر بھیجنی ہو مجھے کہہ دیا
کریں میں بھیج دیا کروں گا(میں خبریں کا بیورو چیف تھا) اور ایسا ہی ہوتا
رہا میاں صاحبان کی خبریں بواسطہ قاری شکیل مجھ تک پہنچتیں میں ارشد خان
اور اپنے گھر کی فاکس مشین سے اسے لاہور بھیج دیا کرتا۔کتنا مضبوط شخص تھا
یہ اپنے چاہنے والوں کو کبھی نہیں بتایا کہ میں وعدہ کر کے آیا ہوں اور
معاہدہ کر کے آیا ہوں ۔کل نوابزادہ صاحب کی برسی تھی انہوں نے کیا خوب کہا
تھا کہ میں سیاست دانوں سے معاملات کرتا رہا مگر ایک تاجر کے ہاتھوں مات
کھا گیا۔جس وقت نوابزادہ صاحب کے ساتھ مشرفی آمریت کیے خلاف میٹینگ جاری
تھی دوسری جانب ان کے ان گنت بکسے تیار ہو رہے تھے اور ایک معاہدے کے تحت
موصوف جدہ پہنچ گئے۔میاں صاحب کا کمال یہ ہے کہ جب وہ جھوٹ بولتے ہیں تو ان
کے چہرے پر کوئی علامت نہیں واضح ہوتی یہ جھوٹ خانہ کعبہ میں بولتے
رہے۔قاری شکیل تو اب اس دنیا میں نہیں ہے ہمارے پیپلز پارٹی کے ایک دوست
دلشاد جانی اس بات کے گواہ ہیں کہحجر اسود کے پاس جب وہ ہم سے پہلی بار ملے
تو نماز عصر ہو چکی تھی اور مغرب قریب تھی وہاں بھی بتایا گیا میں کسی
معاہدے کے تحت نہیں آیا ہوں وہاں بھی وہ پیپلز پارٹی سے مدد مانگ رہے
تھے۔سردار شیر بہادر جو اس وقت سعودی پیپلز پارٹی کے سرگرم رکن تھے ان سے
پوچھ لیں۔لدھڑ کے چودھری شہباز حسین گواہ ہیں۔میں کس کس کا نام لوں ہزار
گواہیاں موجود ہیں۔سب کو کہتے رہے کہ میں کوئی معاہدہ کر کے نہیں آیا۔پھر
ہوا یوں کہ ۲۰۰۲ میں ہم پاکستان ّآ گئے اور تھوڑے ہی عرصے میں موصوف بھی
پاکستان پہنچنے کے لئے پر تولنے لگے۔اور ایک دن وہ پاکستان کی سر زمین پر
آن وارد ہوئے مگر انہیں بڑا بے آبرو کر کے اسلام آباد سے واپس سعودی عرب
بھیج دیا گیا۔پرنس مقرن بن عبدالعزیز جو سعودی خفیہ ایجینسی کے چیف تھے
انہوں نے اسلام آباد ایئر پورٹ پر پاکستانی صحافیوں کو بتایا کہ یہ ہمارا
مفرور ہے ہم اسے لے جا رہے ہیں۔میاں صاحب پاکستان کیسے آئے یہ موضوع آج کے
کالم کا نہیں ۔اصل موضوع میاں صاحب کا جھوٹ ہے۔میاں نواز شریف کو نوٹ کیجئے
جب وہ کھنگورا مار کے گفتگو کر رہے ہوتے ہیں یہ وہ وقت ہوتا ہے کہ جھوٹ ان
کے منہ سے نکل کر لوگوں کی سماعتوں سے ٹکرا رہا ہوتا ہے۔وہ کہہ رہے تھے کہ
میں نے کبھی آمر کے سامنے سر نہیں جھکایا یہ آج کی پریس بریفینگ کا سب سے
بڑا جھوٹ تھا جنرل جیلانی کی روح بھی آج قبر میں مسکرا دی ہو گی اور کہہ
رہی ہو گی جھوٹھیا وے اک جھوٹ ہور بول جا۔اور جنرل ضیاء الحق بھی ہنس دیئے
ہوں گے۔یہ اﷲ کے کام ہیں انہوں نے ایک موقع پر دعا دی تھی کہ اسے میری عمر
لگ جائے اور وہ قبول ہو گئی قوم ان کی اس دعا کو بھگت رہی ہے۔نواز شریف کی
سب سے خطرناک بات یہ ہے جو وہ تواتر سے دہرا رہے ہیں کہ میرے اس نکالے جانے
پر پاکستان میں کوئی سانحہ ہو جائے گا۔میں تنقید نگاروں سے پوچھنا چاہوں گا
کہ خدا را اس ایک فقرے پر غور کریں۔کیا میاں صاحب کی خواہش ہے کہ وہ شیخ
مجیب بنیں کیا وہ جس سانحے کی بات کر رہے ہیں وہ سانحہ کیا ہے وہ واضح طور
پر کہہ چکے ہیں کہ وہ سانحی ۷۱ جیسا ہو سکتا ہے۔وہ کس کی بنیاد پر اتنا بڑا
منہ کھول رہے ہیں؟یہ سوال آج بیس کروڑ پاکستانی کر رہے ہیں کہ جناب نواز
شریف صاحب بتائیں کیا آپ ہل چل مچا کر بھارتی فوج کو لاہور میں خوش آمدید
کرنارہے ہیں کہ وہ آئیں اور آپ کو دوبارہ اقتتدار کے سنگھاسن پر بٹھا
دیں۔اگر ایسا ہے تو کرئیے بسم اﷲ اور بلا لیں اپنے اس بھارتی مودی کو اور
دعوت دے دیجئے کہ مجھے میرا حق دلائیں۔حضور جرم کریں آ پاکستانی قوانین کی
دھجیاں بکھیریں آپ اور اس کے بعد جب قانون حرکت میں آئے تو کہہ دیں کہ
دیکھیں جی ہمارے ساتھ کیا ہوا؟این اے ۱۲۰ میں جیت کے باوجود مجھ سے زیادتی
ہوئی۔صد حیف کے یہاں پاکستان میں کوئی ادارہ ہی نہیں جو آپ کی خر مستیوں کا
حساب لے اور آپ کے گریبان میں ہاتھ ڈال کر کہے کہ مجھے کیوں نکالا کی گردان
کرتے ہوئے جی ٹی روڈ پر کیا اول فول بکا گیا۔عدلیہ کے ساتھ این اے ۱۲۰ کے
۵۹۰۰۰ ووٹ تو ضرور ہوں گے مگر وہ لاہوریئے جو سٹیڈیم میں گو نواز گو کے
نعرے لگا رہے تھے ان کو بھی گن کیا ہوتا اڑتالیس ہزار ووٹ آپ کے گڑھ سے ایک
نہتی خاتون لے گئی جس کی مدد کو کوئی بھی نہیں آیا۔دوسری بات یہ نوٹ کر لیں
یہ جو خفیہ ہاتھوں کی بات آپ کرتے ہیں یہ ہاتھ ہم سمجھتے ہیں کہ کس کے ہاتھ
ہیں جس کی جانب آپ کا اشارہ ہے۔جاوید ہاشمی آپ کو جس پٹی پر لگا گیا ہے اس
نے آپ کا بیڑہ غرق کیا ہے کبھی پیپلز پارٹی سیکورٹی رسک تھی آجکل آپ
ہیں۔ایسے ہاتھوں کو نہ چھیڑیں۔آپ مزید تنگ ہوں گے۔میں کب کہتا ہوں فوج مقدس
گائے ہے مگر آپ کی ٹیٹیریوں کی بکواسیات سن کر لگتا ہے آپ گائے گروپ سے
نہیں کسی ایسی مخلوق سے تعلق رکھتے ہیں جسے نجس ہی کہا جا سکتا ہے۔آپ کو
ذرا برابر خیال نہیں آیا آپ اگر سیاست دان ہوتے تو کری روڈ پر جاتے ہوئے
شہید ارسلان عالم کے گھر رک جاتے جسے افغانی بدمعاش لوگوں نے سنائپر کی مدد
سے سر میں گولی مار کر شہید کیا۔آپ کیوں کرتے اس لیئے کہ آپ نے کلبھوشن کو
بچانا تھا اس بائیس سالہ شہید کی کیا قیمت تھی آپ کے نزدیک۔ارسلان کی ماں
کی گود میں اس کی کیپ دیکھ کر رویا ہوں کہ ایک طرف فوج قربانیوں کے انبار
لگا رہی ہے اور دوسری جانب بے حس سیاست دان ان پر تیر برساتے ہیں۔کوئی اینٹ
سے اینٹ بجانے کی بات کرتا ہے اور کوئی کہتا ہے ۷۱ بنا دوں گا۔جناب نواز
شریف صاحب جو جھوٹ آپ صحن کعبہ میں بولتے رہے وہ آپ نے آج پنجاب ہاؤس میں
بھی بولے ہیں۔ستر سالہ تاریخ کی بات کی آپ نے حضور وزرائے اعظم کا زکر کیا
جنہیں رخصت کیا گیا۔بتا دیجئے بھٹو کی کے ہاتھوں گئے ۔بی بی دو بار کیسے
گئیں اور خود آپ کس طرح روانہ ہوئے جونیجو کو بھیجنے میں کس کا ہاتھ تھا
یوسف گیلانی کیسے گئے۔میاں صاحب آپ جھوٹے ہیں۔سچ آپ کے پاس سے نہیں
گزرا۔قوم اس جھوٹ پر آپ کی مذمت کرتی ہے۔ |