کیا دہشت گردی کا خاتمہ ہوپائے گا۰۰۰؟

روہنگیا مسلمانوں کیلئے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں عالم ِاسلام کی جانب سے متحدہ آواز اٹھائی جانی تھی لیکن۰۰۰

گذشتہ دنوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 72ویں اجلاس میں کئی ممالک اپنے پڑوسی یا دیگر ممالک کے خلاف دہشت گردی کے سلسلہ میں مختلف الزامات عائد کئے۔ ہندوستانی وزیر خارجہ سشماسوراج نے اپنے خطاب میں پاکستان کو دہشت گردی برآمد کرنے کی فیکٹری قرار دیا تو دوسری جانب اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل نمائندگی کرنے والی ملیحہ لودھی نے اپنے خطاب میں ہندوستان کو جنوبی ایشیاء میں دہشت گردی کی ماں قرار دیا۔ شمالی کوریا کے وزیر خارجہ ری یونگ ہو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ذہنی طور پر ان فٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ کوئی اور نہیں بلکہ ٹرمپ خودکش مشن پر ہیں۔انہوں نے کہا کہ شمالی کوریا ایک ذمہ دار ریاست ہے اور وہ اپنی جوہری صلاحیتوں کو استعمال کرنے کا خواہش مند نہیں ہے۔ یونگ ہو نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ذہنی طور پر فٹ نہیں ہیں، وہ طاقت کے نشے میں ہیں، اور امریکہ ہی کی وجہ سے ہی شمالی کوریا کو جوہری ہتھیار بنانے پڑ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شمالی کوریا ہائیڈروجن بم سمیت جوہری ہتھیاروں کے اہداف تقریباً حاصل کرچکا ہے البتہ یہ ہتھیار جنگ کو روکنے اور ملک کے دفاع کے لئے ہیں۔ وزیر خارجہ شمالی کوریا نے امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ پر الزام عائد کیا کہ وہ اقوام متحدہ کو ایک گینگ ہیڈکواٹر میں بدل رہے ہیں۔اس سے قبل امریکی صدر نے جنرل اسمبلی کے اسی 72ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر شمالی کوریا جوہری ہتھیار بنانے سے باز نہ آیا تو امریکہ شمالی کوریا کو مکمل طور پر تباہ کردے گا ، امریکی صدر نے شمالی کوریا کے صدر کم جونگ اُن کو بیلسٹک میزائیل تجربات کرنے پر ’’راکٹ مین‘‘قرار دیا تھا۔ ٹرمپ نے کہا تھا کہ اگر امریکہ کو اپنا اور اپنے اتحادیوں کا دفاع کرنے پر مجبور کیا گیا تو ہمارے پاس شمالی کوریا کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہوگا تاہم انہوں نے اپنی اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ اس کی نوبت نہ آئے۔صدر ٹرمپ نے ایران کے خلاف بھی تقریر کرتے ہوئے اس پر دہشت گردوں کی حمایت کا الزام عائد کیا ۔انہوں نے ایرانی حکومت کو بے بنیاد حکومت اور اقتصادی طور پر خراب ریاست قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا چیف تشدد، انتشار اور خون خرابہ کو برآمد کررہا ہے۔ایران کے صدر حسن روحانی نے جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب میں کہا کہ ہم امن کے خواہاں اور مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں اور ہمیں اپنے عوام کا بھرپور اعتماد حاصل ہے۔ انہوں نے امریکی صدر کی تقریر کو نامناسب قرار دیتے ہوئے کہا کہ جوہری معاہدہ کسی ایک ملک سے نہیں پوری عالمی برادری سے منسلک ہے۔ صدر ایران نے کہا کہ بیرونی عناصر ہمارے خطے کے بگاڑ کا سبب بن رہے ہیں، انہوں نے یمن ، شام اور بحرین سے متعلق کہا کہ ان ممالک میں فوجی حل ممکن نہیں کیونکہ ہر مسئلہ کا حل صرف مذاکرات اور بات چیت میں ہے۔ایک طرف شمالی کوریا اپنے جوہری اور میزائیل تجربات سے پریشان کررکھا ہے تو دوسری جانب ایران نے بھی ایک اور میڈیم رینج میزائل کا کامیاب تجربہ کرکے امریکہ کی وارننگ کو نظر انداز کیا ہے ۔ایران نے ملک کی دفاعی صلاحیت کو مزید مستحکم کرنے کا عزم کیا ہوا ہے۔ ایرانی وزیر دفاع امیر حاتمی نے بھی شمالی کوریا ہی کی طرح کہا ہیکہ جب تک کوئی دھمکی کی زبان استعمال کرتا رہے گا ہمارے ملک کی دفاعی صلاحیتوں کو مستحکم کرنا جاری رہے گا۔اور ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا تھا کہ ایران کو حق ہے کہ وہ دفاعی مقاصد کیلئے میزائیل پروگرام کو فروغ دے۔ایران کے میزائیل تجربہ کے بعد اسرائیل کے وزیر دفاع ایویگڈور لیبرمان نے کہا ہے کہ ایرانی میزائل ٹیسٹ امریکہ اور اْس کے اتحادیوں کے خلاف اشتعال انگیز اقدام ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق ایک بیان میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ بیلسٹک میزائل کا تجربہ ظاہر کرتا ہے کہ ایران ایک سپر پاور بننے کی کوشش میں ہے۔ لیبرمان کے مطابق ایرانی میزائل تجربے نے مشرق وسطیٰ کے ممالک کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور یہ دنیا کی دوسری جمہوری اقوام کے لیے بھی خطرناک فعل ہے۔ اس طرح ایک طرف دنیا عالمی سطح پر دہشت گردی کا خاتمہ چاہتی ہے تو دوسری جانب جوہری ہتھیاروں اور میزائیل تجربات سلسلہ جاری ہے اور جن ممالک کے پاس جوہری ہتھیار ہے وہ عالمی سطح پر اپنا لوہا منوانے کی کوشش میں ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ دنیا کا کوئی دوسرا ملک جوہری تجربات اور میزائیل تجرابات کے ذریعہ اپنی طاقت و قوت دکھائے۔شمالی کوریا کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنے کے لئے یا عالمی سطح پر ایک بڑی تباہی سے بچنے کے لئے عالمی سوپر پاور طاقتیں بھی اپنے تیور بدلنے شروع کردیئے ہیں۔روسی وزیر خارجہ سرگئی لاؤروف نے کہا ہے کہ امریکہ کسی طور شمالی کوریا کے خلاف جارحانہ کارروائی نہیں کرے گا کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ شمالی کوریا کے پاس جوہری بم ہیں۔روسی چینل کو دیے گئے انٹریو میں انہوں نے کہا کہ میں شمالی کوریا کا دفاع کرنے کے درپے نہیں ہوں محض یہ بتانا چاہتا ہوں کہ تقریبا سب ہی اس تجزیے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔روسی وزیر خارجہ کے مطابق شمالی کوریا کی دھمکیوں کو ختم کرنے کے ذرائع "محض ہمدردی، تجویز اور قائل کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر واشنگٹن نے شمالی کوریا کے قریب آنے کا سہارا نہیں لیا تو ہم ایک سنگین آفت کے دہانے پر ضرور پہنچ سکتے ہیں۔ اس سے قبل جرمن جانسلر انجیلا میرکل نے بھی شمالی کوریا کے ساتھ بات چیت کرنے کی بات کی تھی اس طرح عالمی جانتے ہیں کہ اگر شمالی کوریا کے خلاف کسی بھی قسم کی سخت کارروائی یا حملہ کیا گیا تو اسکے جواب میں شمالی کوریا اپنے دفاع کیلئے خطرناک کارروائی کرسکتا ہے ۔

بحرین کے وزیر خارجہ خالد بن احمد آل خلیفہ نے بھی جنرل اسمبلی میں خطاب کے دوران کہا کہ دہشت گردی کی مالی معاونت کرنے والے ممالک اور افراد کو ہر صورت میں روکنا ہو گا۔ اگر یہ لوگ باز نہ آئے تو دہشت گردی کے ناسور پر قابو پانا مشکل ہے۔العربیہ چینل کے مطابق نیویارک میں جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ "دنیا کو ایسے بدمعاش ممالک نہیں چاہئیں جو نفرت اور افراتفری کو پھیلانے کی سازشیں کریں۔ عالمی برادری کو دہشت گردی کی معاونت کرنے والے ممالک کو تنہا کرنے کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا ہوں گی۔"بحرینی وزیر خارجہ نے کہا کہ متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، بحرین اور مصر نے طویل صبر کے بعد قطر کا بائیکاٹ کیا ہے۔ خالد بن احمد آل خلیفہ نے الزام عاید کیا کہ دوحہ کی جانب سے منامہ میں حکومت کی تبدیلی اور ملک کا نظام بدلنے کی سازشیں بھی کی جاتی رہی ہیں۔انہوں نے دوحہ پر زور دیا کہ وہ بائیکاٹ کرنے والے عرب ممالک کے مطالبات اور عالمی معاہدوں کی پاسداری کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ قطر کے خلاف اقدامات سے خطے کی اقوام کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ قطری عوام کو خلیجی ملکوں کی طرف سے ہر ممکن سہولت دی جاری رہی ہے۔ اس کا اندازہ فریضہ حج کی ادائی کے لیے قطری شہریوں کو دی جانے والی سہولیات سے ہوتا ہے۔ بحرینی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اپنے مذموم مقاصد کے لیے حج کو سیاسی رنگ دینے والے اپنی سازشوں میں ناکام رہے ہیں۔ذرائع ابلاغ کے مطابق انہوں نے کہا کہ ایرانی رجیم اپنی قوم کی منہ سے نوالہ چھین کر دہشت گردی کی مدد کر رہا ہے۔ ایران کے ساتھ تعلقات کی بحالی دہشت گردی کی معاونت روکنے پر منحصر ہے۔ ایران کو حزب اﷲ جیسے گروپوں کی مالی اور فوجی امداد ہرصورت میں بند کرنا ہو گی۔عراق سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بغداد حکومت نے داعش کے خلاف جنگ میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یمن میں ایران نواز حوثی باغیوں نے غیر ملکی مدد سے آئینی حکومت کا تختہ الٹا اور ریاستی اداروں پر قبضہ کیا ہے۔

قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے جنرل اسمبلی میں خطاب کے دوران کہا کہ عرب ممالک کا ایک گروپ دباؤ ڈال کر دوحہ کی خودمختاری کی خلاف ورزری کی کوشش کررہا ہے۔ امیر قطر نے کہا کہ عرب ممالک کا قطر کے خلاف کارروائی غیر قانونی اور دوحہ کی آزاد ریاست کی خودمختاری پر حملہ ہے۔انہوں نے خلیج کے بدترین سفارتی بحران کے خاتمے کیلئے بات چیت پر زور دیا ہے ۔امیر قطر نے تعلقات منقطع کرنے والے ممالک سے باہمی احترام پر مبنی غیر مشروط مذاکرات کرنے کو تیار ہے ۔قطر کے امیر نے روہنگیائی مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی مذمت کرتے ہوئے انہوں نے مطالبہ کیا کہ میانمار حکومت برمی مسلمانوں کا قتل عام بند کرکے اقلیتوں کی جان و مالک کے تحفظ کو یقینی بنائے ۔عالمی سطح پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہونے والے خطابات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے ہیں لیکن ان ممالک کی جانب سے ایک دوسرے پر الزام تراشی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ان ہی میں کئی ایسے حکمراں موجودہ ہیں جودہشت گرد ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ ان کے سامنے کوئی نیا ملک طاقت و قوت کے اعتبارسے ان کے سامنے سر اٹھانے کی کوشش کرے۔اگر دنیا کے مزید ممالک بھی شمالی کوریا اور ایران کی طرح اپنی معیشت کی پرواہ کئے بغیر جوہری و میزائل میدان میں قدم رکھنا اور آگے بڑھنے کا حوصلہ کرے تو پھر دنیا میں قیام امن ممکن نہیں۔

میانمار کے مسلمانوں کیلئے کیا صرف امداد ہی کافی ہے؟
یہ کتنی ہی شرمندگی کی بات ہے کہ بچاس سے زائد اسلامی ممالک ہونے کے باوجود میانمار کے معصوم ، بے قصور مسلمانوں پر مظالم کا سلسلہ جاری ہے۔میڈیا کے ذریعہ جو رپورٹس منظر عام پر آرہی ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح برمی فوجی درندوں نے مسلم خواتین کے ساتھ ظلم و بربریت کی انتہا کردی، معصوم بچوں کا کس طرح بہیمانہ قتل کیا جارہا ہے ابھی برما کے روہنگیا مسلمانوں پر ظلم و بربریت کا سلسلہ جاری ہے ۔ اس کے باوجود عالم اسلام کی جانب سے صرف امداد دینے کا اعلان کیا ہے ۔ عالمِ اسلام کے حکمرانوں کو چاہیے تھا کہ وہ امداد فراہم کرنے سے قبل ان مسلمانوں کی جانوں کی حفاظت کے لئے عالمی سطح پر برما کی حکومت پر زور ڈالنے اقوام متحدہ کا اجلاس طلب کرنے پر زور دیتے اور برما کے خلاف تحدیدات عائد کرنے عالمی برادری سے مانگ کرتے ہوئے عملی جامہ پہناتے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 72ویں اجلاس کے موقع پر جس طرح کئی ممالک ایک دوسرے کے خلاف دہشت گردی کے الزامات عائد کئے ۔لیکن انہیں برما کے ان بے گناہ مسلمانوں کے بہیمانہ قتل عام پرآواز اٹھانے کو ترجیح نہیں دیئے ۔ اس موقع پر اقوام متحدہ میں اپنی اپنی تقاریر کے دوران اسلامی ممالک کے نمائندے برما حکومت اور فوج کے خلاف کارروائی کرنے یا پھر وہاں کے مسلمانوں کی حفاظت کی بات کرتے۔ البتہ امریکی نائب صدرمائیک پینس نے جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران روہنگیا مسلمانوں کے خلاف مظالم کو ’’سنگین سفاکی‘‘ سے تعبیر کیا ہے اور انہوں نے اس کی شدید مذمت کی ہے۔جبکہ اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو متحدہ طور پر جنرل اسمبلی میں آواز اٹھانا چاہیے تھا۔سب سے پہلے عالمی سطح پر آواز اٹھانے والے اور امداد فراہم کرنے والے ترکی کے صدر رجب طیب اردغان نے روہنگیاؤں کی حفاظت کے معاملہ میں کہا کہ عالمی برادری اس میں ناکام ہوچکی ہے۔ جنرل اسمبلی اجلاس کے دوران انہوں نے میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کو نسلی تطہیر کے المیہ کے ہاتھوں چھوڑے جانے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی برادری اس امتحان میں بھی کامیاب نہ ہوسکی۔ انہوں نے کہا کہ ترکی اس بحران کے حل کے لئے بھی کوششیں کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس المیہ پر قابو نہ پایا گیا تو انسانیت کی تاریخ پر ایک اور سیاہ داغ لگ جائے گا۔

روہنگیا بحران،سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ
فرانس، برطانیہ اور امریکہ سمیت سات مختلف ممالک نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے کہا ہے کہ وہ آئندہ ہفتے میانمار میں جاری تشدد کے معاملے پر غور کرے۔ مصر، قزاقستان، سینیگال اور سویڈن سمیت یہ سات ممالک چاہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش میانمار کی فوج کی طرف سے ملکی ریاست راکھین میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جاری فوجی آپریشن کے بارے میں سلامتی کونسل کو آگاہ کریں۔ اقوام متحدہ اس ملٹری آپریشن کو ’’نسلی تطہیر‘‘ قرار دے چکی ہے جبکہ فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے تو اسے ’’نسل کشی‘‘ کا نام دیا ہے۔

روہنگیا پناہ گزینوں کی امداد مظلومین تک پہنچے
میانمار سے اب تک چار لاکھ سے زائد روہنگیامسلمان بنگلہ دیش میں پناہ گزین ہیں۔ان کے مسائل میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہاہے ۔ذرائع ابلاغ کے مطاق میڈیکل کیمپ میں مریضوں کی تعداد زیادہ جبکہ ڈاکٹروں کی کمی ہے۔ ادھر حکومت نے عارضی گھر بنانے کے لئے زمین دے دی۔ ضلع کوکس بازار کے کوتوپالونگ کیمپ میں ڈاکٹروں کی کمی نے روہنگیا مسلمانوں کے مسائل میں اضافہ کر دیا، ایک دن میں ایک ڈاکٹر نے 600 مریضوں کو دیکھا۔ ڈاکٹر عبدالرزاق کا کہنا ہے لوگ خوراک کی کمی کا شکار ہیں، پیٹ کی بیماریاں عام ہیں، بچے غذائیت اور جسم میں پانی کی کمی کا شکار ہیں جو جان لیوا ہو سکتی ہے۔ طویل سفر پیدل کرنے کی وجہ سے مریضوں کی اکثریت شدید بخار میں مبتلا ہے۔عالمی برادری ان پناہ گزینوں کے لئے اشیاء خوردونوش ، ادویات وغیرہ کا انتظام کرے اور یہ تمام چیزیں ان تک پہنچے ورنہ عالمی سطح سے امداد تو بنگلہ دیش پہنچے گی اور اصل مظلومین کو ملنے کے بجائے کوئی ہڑپ کرلیں گے۔
**

M A Rasheed Junaid
About the Author: M A Rasheed Junaid Read More Articles by M A Rasheed Junaid: 358 Articles with 256094 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.