سعودی عرب کے قومی دن کی تقریب اور سفارتی محاذپردرپیش چیلنجز

سعودی عرب کے 87ویں قومی دن کی تقریب محض ایک تقریب ہی نہ تھی بلکہ ست رنگی دھنک تھی…… قو س قزح…… جس میں زندگی کے ہر شعبے کی اہم شخصیات کی صورت میں ڈھیر سارے رنگ بکھرے ہوئے تھے۔ہر شعبہ ،ہرطبقہ ،ہرملک ،ہر مسلک اورہر قابل ذکر شخصیت موجود تھی۔گزشتہ کئی برسوں سے سعودی عرب کے قومی دن کی تقریب میں جانا ہوتا ہے لیکن اس سال کی تقریب پہلے کی بہ نسبت زیادہ منفرد اور مثالی تھی۔ یوں تو اسلام آباد میں آئے روز تقریبات کا انعقاد ہوتا رہتا ہے ،ہرماہ کسی ناکسی ملک کا قومی دن بھی آتا ہے اور خاموشی سے گزر جاتا ہے ،کسی ملک کے قومی دن کے موقع پر دوچار بندے اکٹھے ہو کر کیک کاٹتے ہیں،تالیاں بجاتے ہیں اور لوگوں کو اگلے دن کے اخبارات کے کسی کونے میں چھپی ہوئی تصویر یا پریس ریلیز سے اندازہ ہوتا ہے کہ فلاں ملک کا قومی دن آیااور گزر گیا،کسی ملک کی تقریب میں ایک خاص کلاس شریک ہوتی ہے ،کچھ رنگ بکھرتے ہیں،کچھ جام چلتے ہیں اور تقریب ہوجاتی ہے ،کسی ملک کے مخصوص دوستوں کو بلایا جاتا ہے ،بعض ممالک کے قومی دنوں کی تقریبات اگرچہ حقیقی معنوں میں پروقار ،منظم اور سفارتی اکٹھ کا مصداق ہوتی ہیں لیکن سعودی عرب کے قومی دن کی تقریب والی بات کہاں ؟اس تقریب میں لوگ جس محبت اور خلوص سے شرکت کرتے ہیں ،اس تقریب کا پاکستان کے مختلف طبقات کی طرف سے جو اہتمام ہوتا ہے وہ اس کی امتیازی خصوصیت ہے ،سعودی قومی دن کی تقریب میں لوگوں کی شرکت کا باعث کوئی راگ ورنگ نہیں ہوتا،جام وسبونہیں ہوتا،دنیا میں رائج کشش کے جتنے طریقے ہیں ان میں سے کسی کو اختیار نہیں کیا جاتا لیکن اس کے باوجود لوگ کھچے چلے آتے ہیں،صرف اسلام آباد راولپنڈی سے نہیں بلکہ دور دراز سے، مختلف شہروں سے لوگ محض حرمین شریفین سے محبت،سعودی عرب سے اظہار یکجہتی اور سعودی عوام سے دوستی کے اظہارکے لیے آپہنچتے ہیں۔اس سال کی تقریب کے روح رواں سعودی عرب کے نو منتخب سفیر محمد نواف بن سعید المالکی دراصل تقریب کی انفرادیت کا بنیادی سبب تھے۔ایک خوش اخلاق،ملنساراورمنتظم مزاح شخص……نواف المالکی کی اگرچہ بطور سفیر یہ پہلی تقریب تھی،وہ سفیر تو اگرچہ حال ہی میں تعینات ہوئے لیکن وہ مدت سے یہیں بستے ہیں ……پاکستان میں ،پاکستانیوں کے دلوں میں …… وہ اس سے قبل سعودی عرب کے پاکستان میں ملٹری اتاشی تھے اور اس سے قبل بھی مختلف ذمہ داریاں نبھاتے رہے،ان کے ہر شعبہ ہائے زندگی کی اہم شخصیات اور منتخب افراد سے دیرینہ مراسم وتعلقات ہیں ،وہ اس دفعہ سعودی عرب کے قومی دن کی تقریب کے میزبان ،منتظم اور داعی تھے ۔نو منتخب سعودی سفیر چونکہ عسکری پس منظر رکھنے کے ساتھ ساتھ سفارتکاری کے جملہ اوصاف وخصوصیات کے بھی حامل ہیں اس لیے سعودی عرب سے دوستی اور حرمین شریفین کی نسبت سے سعودی عرب کی خیر خواہی کے جذبات رکھنے والے ان سے ڈھیر ساری توقعات وابستہ کیے ہوئے ہیں۔سعودی قومی دن کی اتنی شاندار تقریب ان سے وابسطہ توقعات اور ان کی صلاحیتوں کے اظہار کی مکمل آئینہ دار تھی لیکن چونکہ وہ اس منصب پر تاریخ کے ایک نازک اور اہم موڑ پر فائز ہوئے اس لیے انہیں بہت کچھ کرنا ہے۔چونکہ سعودی عرب کے حوالے سے ہر گزرتے دن کے ساتھ حالات تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں۔جس وقت سعودی عرب کی سلامتی اور حرمین شریفین کاامن وامان شدید خطرے میں تھا اور پاکستانی پارلیمنٹ سے پاکستانی قوم کے خیالات وجذبات کے برعکس ایک متنازعہ قرارداد منظور کی گئی اور اس کے بعد پاک سعودی تعلقات میں سرد مہری پیدا ہوئی اس وقت کئی ماہ تک سعودی سفارتخانے میں کوئی سفیر باضابطہ طور پر موجود ہی نہ تھے اس لیے سفارتی محاذ پر چیلنجز اور خلا کافی بڑھ گیا جسے ابھی تک پرنہ کیا جاسکا اس کے بعد سے لے کر تاحال سفارتی محاذ پر ،خلیجی ممالک میں اور عالمی سطح پر بہت بڑی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں جن میں ایران کے توسیع پسندانہ عزائم،ایران کی طرف سے مختلف ممالک حتی کہ سعودی عرب کے قرب وجوار میں شرانگیزی کی مختلف کوششیں اور ایران کی طرف سے مختلف ممالک میں اپنی لابی کو منظم ،مضبوط اور متحرک کرنے کا طرز عمل سعودی سفارتکاری کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے،اس دوران سعودی عرب کی قیادت میں عسکری اتحاد کی فساد وانتشار اور دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی جاری ہے ،اس اتحاد کے سپہ سالار کے طور پر جنرل راحیل شریف کا انتخاب جو بلاشبہ پاکستان کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے لیکن دوسرے فریق کی کامیاب سفارتکاری نے اس اعزاز کو بھی دباؤتلے رکھا ، اس کے ساتھ ساتھ امریکی صدر ٹرمپ کا دورہ سعودی عرب،سعودی عرب اور امریکہ کے مابین ہونے والے معاہدے، قطر کا قضیہ،حالیہ دنوں میں سعودی خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینے سمیت بے شمار ایسے معاملات ہیں جن پر پاکستان کے مختلف طبقات بالخصوص مذہبی طبقے اور علماء کرام کے ذہنوں میں تصویر مکمل طور پر واضح نہیں اس کے ساتھ ساتھ دو معاملات ایسے ہیں جنہیں لے کر سعودی مخالف لابی پوری تندہی سے پروپیگنڈے میں مصروف عمل ہے جس میں سعودی عرب میں جاری سعودائزیشن کا عمل یعنی سعودی عرب سے غیر ملکیوں کی بے دخلی کا معاملہ سرفہرست ہے۔اس بے دخلی کے عمل سے روزگار کے سلسلے میں برسوں سے سعودی عرب میں مقیم پاکستانی بھی یقینی طور پر متاثر ہورہے ہیں اور مستقبل میں بھی متاثر ہوں گے اس کے حوالے سے لوگو ں کے ذہنوں میں بہت سے سوالات ہیں اور دشمن کو انہیں ہوا دینے کا پورا پورا موقع مل رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسی عرصے میں سعودی عرب میں حکومتی ڈھانچے میں جوہری تبدیلیاں بھی کی گئیں لیکن اس عرصے میں جس طرح سفارتی اور فکری محاذوں پر کام کیا جانا چاہیے تھا وہ ہو نہیں پایا جس کی وجہ سے کڑوا سچ یہ ہے کہ فضا بہر حال مکدر ہے۔ ایسے میں نواف المالکی جیسے باصلاحیت ،نرم دم گفتگو ،گرم دم جستجوسفیر جنہیں سفارتی حیثیت کے ساتھ ساتھ عسکری پس منظر کا خصوصی امتیاز حاصل ہے اور وہ سول اور عسکری قیادت میں یکساں طور پر قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ان پر بہت بھاری ذمہ داریاں عائد ہوئی ہیں اور ان سے بہت سی توقعات وابستہ کی جارہی ہیں ۔اس وقت صرف نومنتخب سعودی سفیرہی نہیں بلکہ ہم سب اور پوری امت تاریخ کے ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے……اﷲ رب العزت امت محمدؐکے حال پر رحم فرمائیں ۔آمین
 

Abdul Qadoos Muhammadi
About the Author: Abdul Qadoos Muhammadi Read More Articles by Abdul Qadoos Muhammadi: 120 Articles with 129211 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.