امریکہ اگر پاکستان سے تعلقات ختم کرنا چاہتا ہے۔۔۔۔۔

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھارت کو بوکھلاہٹ میں مبتلا کر دیا ہے۔ بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت کی’’کنٹرول لائن کے پار عسکری کیمپوں پر ضرورت پڑنے پر سرجیکل سٹرائکس‘‘کی دھمکی اسی کی ایک کڑی ہو سکتی ہے۔ اس دھمکی کا پس منظر گو کہ امریکی وزیر دفاع جیمس میٹس کا دورہ بھارت تھا اور دہلی امریکہ سے مراعات اور معاونت کا طلب گار ہے۔ جس کے جواب میں امریکہ نے سمجھا جاتا ہے کہ دہلی سے بھارتی فوج افغانستان بھیجنے کی شرط لگائی۔ مگر بھارتی وزیر دفاع نرملا سیتا رمن کا فوج افغانستان نہ بھیجنے کا اعلان اور اس کی بڑے پیمانے پر تشہیر کچھ اور ہی اشارے د ے رہی ہے۔ نیز میٹس کا دہلی سے کابل جانا اور اسلام آباد کو نظر انداز کرنا بھی مختلف تاثرات پیدا کر رہا ہے۔ ان میں سے ایک یہ کہ کیا امریکہ پاکستان کو نظر انداز کرتے ہوئے بھارت کو ترجیح دے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے جب افغان پالیسی کا اعلان کیا تو بھارت سے افغانستان میں وسیع کردار ادا کرنے کو کہا۔ یہ وسیع کردار فوجی ہی ہوسکتا ہے۔ بھارت کے کمانڈوز افغانستان میں موجود ہیں۔ بھارتی قونصل خانے بھی پاکستان مخالف سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ طالبان اور راء کے پاکستان مخالف گٹھ جوڑ کے بارے میں بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز کی ایک مفصل رپورٹ امریکی وزیر دفاع کے دورہ سے قبل ہی منظر عام پر آ چکی ہے۔ جس کے بارے میں خیال تھا کہ امریکہ نئی دہلی سے راء کی طالبان سے معاونت سے متعلق بھی استفسار کرے گا۔ لیکن بھارتی فوجی کی افغانستان میں ضرورت کے پیش نظر شاید یہ معاملہ گول کر لیا گیا۔ صدر ٹرمپ نے سخت اورکرخت لب و لہجہ میں افغانستان میں پاکستان کے کردار اور ’’طالبان کی حمایت‘‘کا الزام لگا کر تنقید کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے امریکہ کا دورہ منسوخ کر دیا تھا۔ امریکی وزیردفاع بھی اسی تناظر میں پاکستان کو نظر انداز کر گئے۔ تا ہم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی ک 72ویں اجلاس میں شرکت کے لئے وزیراعظم عباسی اور وزیر خارجہ خواجہ آصف کا دورہ امریکہ ممکن ہو سکا۔ اس دورہ میں پاکستان کی جانب سے امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے لئے فضا سازگار کرنے کی کوشش کی گئی۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں کم از کم ایک درجن مرتبہ افغانستان کا ذکر کیا۔ دنیا پر یہ واضح کر دیا گیا کہ افغانستان میں امن اور ترقی کی پاکستان سے زیادہ خواہش کسی کی نہیں ہو سکتی۔

افغانستان میں امن کا قیام بھارت کی طرف سے افغانستا ن کی سر زمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے سے نہیں ہو سکتا۔ سب سے اہم مسلہ کشمیر ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان اور بھارت متصادم ہیں۔ دونوں کے درمیان یہی خطرناک دیرینہ تنازعہ ہے۔ جس کی وجہ سے لاکھوں جانیں قربان ہو گئیں۔ اربوں کی جائیداد تباہ ہوئی۔ خطے میں عدم استحکام کی فضا چھائی ہے۔ علاقائی امن اور ترقی داؤ پر لگی ہے۔ سارک اور دیگر فورم بے جان بنے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں بھی ترقی کے لئے یورپ جیسے خواب ہیں۔ ایسے حالات بنیں کہ ٹکراؤ اور تصادم کی ضرروت ہی محسوس نہ ہو۔ سرحدیں نرم ہوں۔ جس پر آزادی سے سفر اور تجارت ہو سکے۔ مگر سب سے بڑی رکاوٹ دو ایٹمی طاقتیں پاک بھارت ہیں۔ جن کی وجہ سے جنوبی ایشیا یرغمال بنا ہوا ہے۔ دونوں میں سب سے بڑا مسلہ کشمیر ہے۔ جہاں کا پانی ہی نہیں بلکہ سٹریٹجک جغرافیائی اہمیت بھی پاک بھارت کشیدگی کا باعث بن رہی ہے۔ اگر دونوں ممالک کی قیادت سنجیدگی اور انسانی جذبہ کے تناظر میں اپنے رویئے درست کرے۔ ہٹ دھرمی چھوڑنے پر غور ہو۔ کشمیری عوام کی خواہشات کا صحیح معنوں میں ادارک تاریخی پس منظر میں کیا جائے تو امن اور دوستی کے لئے یہ مسلہ حل ہو سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کیا جائے تو بھارت سلامتی کونسل کا مستقل رکن بن کر ویٹو پاور حاصل کر سکتا ہے۔ اسی وجہ سے اس کی دنیا میں اہمیت بڑھے گی۔ مسلہ کشمیر حل ہو تو پاک بھارت کی توانائی اور وسائل جنگی حالات اورتصادم کے بجائے ترقی اور خوشحالی پر خرچ ہوں گی۔ پھر عسکریت اور ریاستی دہشتگردی کو بھی موقع نہ ملے گا۔ مسائل کی جڑ نکل جائے گی۔ اس لئے تصادم کا کوئی جواز باقی نہیں بچے گا۔ ورنہ جس طرح وزیراعظم نریندر مودی اور جن سنگھی ہندو جنونیت کو ہوا د رہے ہیں، وہ ایٹمی جنگ پر ہی ختم ہو سکتی ہے۔ جنگ سے کروڑوں لوگ بے موت مارے جائیں گے۔ دونوں ملک تباہ ہو گئے تو اس کا فائدہ کسے پہنچے گا۔ مورخ کیا رقم کرے گا۔ نیک نامی کسی کی نہیں ہو سکتی۔ بلکہ اس کے بنیادی کردار ہی تاریخ میں بدنامی کا باعث بنیں گے اور اپنے نام سیاہ باب میں درج کریں گے۔

بھارت کی جنگ بندی لائن کے پار سرجیکل سٹرائیکس کی دھمکیاں اور امریکہ کی پشت پناہی خطے میں صدر ٹرمپ کی پالیسی کی عکاسی کرتی ہے۔ اگر امریکہ نے پاکستان کو نظر انداز کرنے یا تعلقات ختم کرنے کا موڈ بنا دیا ہے تو اس کا فائدہ امریکہ یا اس کے نئے اتحادیوں کو نہیں ہو سکتا۔ آج کا دور تعاون اور ترقی کا ہے۔ افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی ناکامی کی وجہ بھی یہی عدم تعاون ہے۔ امریکہ اگر بھارت کو افغانستان میں فوجی طاقت ک استعمال کے لئے بروئے کار لا رہا ہے تو فوج یا اسلحہ کے استعمال سے کوئی مسلہ حل نہیں ہو سکتا۔ افغانستان میں امن اور مسلہ کشمیر کا حل صرف بات چیت اور مسلسل مذاکرات سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ جانی اور مالی تباہی کے بعد بھی بات چیت ہو گی۔ اگر اسے پہلے ہی موقع دیاجائے تو نقصان کا احتمال ختم ہو سکتا ہے۔ پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے سے خطے میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ وسائل کی لوٹ مار کے لئے جنگ کو افغانستان اور پاکستان کے بعد بھارت تک طول دینا ہی اگر امریکہ کی نئی سٹریٹجی ہے تو اس سے تباہی مزید پھیل سکتی ہے۔ تا ہم پاکستان جیسے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی واضح کر رہے ہیں کہ افغانستان کی جنگ پاکستان میں نہیں لڑی جا سکتی ہے۔ کیوں کہ پاکستان نے پہلے ہی اس جنگ کی بہت قیمت چکائی ہے۔ پاکستان سے مزید قیمت چکانے کا مطالبہ یا الزامات پاکستان کی قربانیوں کو فراموش کرنے کی کوشش ہو گی۔ امریکہ اگر پاکستان کو نظر انداز کرنے یا تعلقات ختم کرنے پر غور نہیں کر رہا تووہ وزیراعظم عباسی کی جانب سے پیش کردہ دو نکات کی اہمیت کا احترام کرے۔
 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555804 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More