جاوید ملک /شب وروز
قابل ذکر خبر یہ ہے کہ اقدام خودکشی اب قابل سزا جرم نہیں ہے چنانچہ اکیس
کروڑ کے لگ بھگ پاکستانی اب بلا خوف و خطر چھت سے کود سکتے ہیں ۔ پنکھے سے
لٹک سکتے ہیں زہریلی گولیاں پھانک سکتے ہیں اور خدانخواستہ بچ گئے تو قانون
کے شکنجے میں نہیں جکڑے جائیں گے ۔ اس سے قبل خود کشی کرنے والوں کا اعتراض
یہ تھا کہ ناقص زہر کے استعمال کے سبب ان کی خود کشی کرنے کی آرزو پوری نہ
ہوئی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ناقص زہر تیار کرنے والوں سے تو
کوئی پوچھ پریت نہیںکی البتہ ان کو دھر لیا اور ہمارے قانون کے شکنجے میں
جو الجھ جائے اس کی تو نسلیں برباد ہوجاتی ہیں کچہریوں کی راہداریاں جمع
پونجی تو دنوں میں نگل جاتی ہیں پھر قرضوں کے ایسے بوجھ تلے دبادیتی ہیں کہ
جینا موت سے بھی کھٹن ہوجاتا ہے اور مظلوم سینہ کوبی کرتے خود کشی کا کوئی
محفوظ راستہ ڈھونڈنا شروع کردیتے ہیں ۔
بدھ کو سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس سنیٹر رحمان ملک کی صدارت
میں ہوا تو پہلی بار عوامی نمائندوں نے انتہائی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ور
اقدام خودکشی پر سزا ختم کرنے کا بل منظور کرلیا چونکہ عام آدمی کی جو حالت
زار ان حکومتوں نے بنادی ہے اس کے بعد تو اقدام خود کشی نہ کرنے والوں
کیلئے سزا تجویز کرنی چاہیے ۔جس ملک میں مزدور کے ایک دن کی اجرت ایک کلو
ٹماٹر کی قیمت کے برابر ہو اکثریت خط غربت کی آخری لکیر سے بھی نیچے زندگی
بسر کررہے ہو وہاں جینے اور جینے کی خواہش رکھنے والوں کو ایوارڈ سے نوازا
جانا چاہیے۔
اقتدار کا جھولا جھولنے اور جمہوریت کی گردان کرنے والے ہمارے موجودہ
حکمرانوں کی اکثریت کو غربت کی غین کا بھی نہیں پتہ وہ جو پر آسائش زندگی
گزرا رہے ہیں وہاں پیاز ٹماٹر کی قیمتیں زیر بحث نہیں ہوتیں ان کو چھینک
بھی آجائے تو علاج معالجہ کیلئے بیرون ملک دوڑیں لگ جاتی ہیں جبکہ اس ملک
کی اکثریت سرکاری ہسپتالوں میں علاج کے نام پر دھکے کھاتی ہے انصاف کے نام
پر گالیاں سنتی ہے ۔ یہاں کی نام نہاد اشرافیہ کے بچوں کیلئے نظام تعلیم تک
مختلف ہے جبکہ غریب کے بچوں کو سرکاری سکولوں میں وہ نصاب پڑھایاجاتا ہے جو
ان کو مقابلے کی کسی امتحان میں بیٹھنے کے قابل تک نہیں رہنے دیتا ۔ لیکن
کچھ سیاست دان جن کی لاٹری نہیں نکلتی اور نہ ہی کوئی خفیہ ہاتھ ان کو
ایوان کے اقتداروں تک پہنچانے کیلئے موجود ہوتا ہے ان کو سیاست گلی محلے سے
شروع کرنا پڑتی ہے ان کی اکثریت تو زندگی بھر کونسلری سے آگے نہیں بڑھ پاتے
مگر بعض خوش نصیب ایسے بھی ہوتے ہیں جو انتہائی نچلی سطح سے سیاسی سفر کا
آغاز کرکے ایوان بالا تک پہنچ جاتے ہیں بدقسمتی سے ایسی مثالیں کم ہیں تاہم
موجود ہیں ۔یوسف رضا گیلانی کی سیاسی زندگی اس کی ایک بڑی مثال ہے بلدیات
سے انتخابی سیاست کا آغاز کرنے والا یہ سیاست دان آخر کار وزارت عظمی تک
جاپہنچا ۔موجودہ وفاقی وزیر ہاﺅسنگ اکرام خان درانی کا شمار بھی ان ہی خوش
قسمت سیاست دانوں میں ہوتا ہے میں ایسے راہنماﺅں کو حقیقی سیاست دان سمجھتا
ہوں اور عام آدمی کے درمیان سے اُٹھ کر آگے بڑھنے والے یہ سیاست دان عام
آدمی کے دکھ کا حل تو شاید نہ ڈھونڈ پائے البتہ اس کا ادراک ضرور رکھتے ہیں
اسی لیئے بعض اوقات ان کے منہ سے کوئی کڑوی سچائی نکل بھی جاتی ہے گزشتہ
روز نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں میٹ دی پریس سے خطاب کرتے ہوئے اکرم خان
درانی نے کہا کہ مجبوری کس قدر بھیانک ہوتی ہے اس کا اندازہ وہی کرسکتا ہے
جس نے کبھی اس کی شکل دیکھی ہو ۔ انہوں نے صحافیوں کی بدترین زندگی کی
حقیقی تصویر کشی کرکے سب کو حیران بھی کردیا ۔ سنیٹر رحمان ملک نے بھی عام
آدمی کے مسائل و مصائب کو جان لیا ہے تبھی انہوں نے قائمہ کمیٹی میں اقدام
خود کشی کو ناقابل سزا قرار دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے قائمہ کمیٹی
برائے داخلہ کے تمام ارکان یہ بھی جانتے ہیں کہ حکومتیں اپنی ناقص کارکردگی
سے وہ ماحول بنارہی ہے جہاں صرف خود کشی نہیں بلکہ اجتماعی خودکشیوں کی
راہیں ہموار ہورہی ہیں اس لیئے کوئی ریلیف تو عوام کو دینا بنتا ہی ہے ۔ |