مولا جٹ وزیر خارجہ!
مسلم لیگ ن کے لئے خواجہ آصف جتنے بھی محترم اور قابلِ قدر ہونگے، ان کی
جذباتی تقریریں پارٹی کارکنوں کے لئے جتنی بھی جاں افزا ہوں گی، ان کے طعنے
اور الزامات جتنے بھی پر کشش ہوں گے، مگر خود یہی لوگ حالتِ سکون میں ہوں،
ذہن آرام اور اطمینان میں ہو، تو ضرور سوچتے ہوں گے کہ خواجہ صاحب کی فلاں
بات جذباتی تھی، فلاں بیان غیر ضروری تھا، فلاں رویہ درست نہ تھا۔ اگر
پارٹی والے نہیں سوچتے تو عام آدمی تو ضرور سوچتا ہے، ایسے رویے پر تنقید
کرتا ہے، قیادت کی اصلاح چاہتا ہے، باتوں میں اعتدال کا خواہشمند ہے، ہر
وقت ہاتھ میں تنقید اور مخالفت کی لٹھ اٹھائے پھرنا کوئی قابلِ رشک رویہ
نہیں، مگر خواجہ صاحب نے اس انداز کو اپنے اوپر طاری کر رکھا ہے، اس رویے
کا شمار ایسی عادتوں میں ہوتا ہے تو سر کے ساتھ ہی جاتی ہیں، ویسے بھی
خواجہ صاحب اپنے اندر کو تبدیل کرنے کی عمر سے گزر چکے ہیں۔
ایک جذباتی اور ’ہتھ چھُٹ‘ سیاسی لیڈر کو واپڈا جیسی وزارت تو مناسب تھی،
کہ پورے معاشرے میں عوام کی اکثریت واپڈا کی کارروائیوں اور کارکردگی کی
وجہ سے غیر مطمئن اور واپڈا سے متاثر تھی، اس لئے خواجہ صاحب کس جگہ کم از
کم اپنے محکمے کے حوالے سے جذباتی گفتگو کم ہی کرتے تھے، تاہم کبھی کبھار
وہ ایسا ماحول بنانے میں کامیاب ہو جاتے تھے کہ وہ گرم اور الجھی ہوئی
گفتگو سے اپنے دل کا غبار نکال سکیں، ورنہ تو یار لوگ(صارفین) ہی اپنے دل
کے غبار نکالتے تھے، موصوف صرف سیاسی مخالفین کے خلاف جذبات کے اظہار سے
اپنے دل کا غبار نکال پاتے تھے۔ اب بات اندر سے باہر جا چکی ہے، ملک کے
اندر کے محکمہ جات سے معاملہ وزارتِ خارجہ تک پہنچ گیا ہے، ظاہر ہے گزشتہ
چار سال وزیر خارجہ کے عدم وجود کی بنا پر موصوف کو شاید باہر کی دنیا سے
زیادہ رابطے کی ضرورت ہے، وہ اپنے ملک کی ترجمانی کا حق کیسے ادا کریں گے،
اس کا اندازہ لگانا تو آسان نہیں، مگر انہوں نے گزشتہ روز پاکستان کے بارے
میں گفتگو کر کے اپنے مستقل رویے کی جھلکی کروا دی ہے، دونوں طرف پھر
ہنگامہ ہے، پارٹی کہتی ہے کہ’’ بہتر ین بیان دیا ہے‘‘، اپوزیشن کا قول ہے
کہ’’ خواجہ صاحب کے ہوتے ہوئے پاکستان کو کسی دشمن پالنے کی کیا ضرورت
ہے‘‘۔آگے آگے دیکھئے خواجہ صاحب اپنی مخصوص طبعیت کی وجہ سے کیا کیا گُل
کھلاتے ہیں؟ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ ایسے جذباتی انسان کو وزیر خارجہ کس
مشن کے تحت بنایا گیا ہے؟
مسئلہ نئے اپوزیشن لیڈر کا!
اچانک بیٹھے بٹھائے تحریک انصاف کے قائدین کو کیا سوجھی کہ اپوزیشن لیڈر
تبدیل کرنے کا خیال آگیا، حالانکہ عددی لحاظ سے تو چار برس سے اسمبلی میں
پارٹی پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ چونکہ پی ٹی آئی کے پاس اس قدر
ارکان نہیں ہیں کہ وہ تنِ تنہا اپوزیشن کی اہم سیٹ سنبھالنے کے قابل ہو
سکیں، اس لئے انہیں دیگر پارٹیوں کے تعاون کی سخت ضرورت ہے، اس ضمن میں جو
اہم کھڑاک پارٹی نے کیا وہ ایم کیوایم سے مذاکرات ہیں۔ سیاست میں کہا جاتا
ہے کہ کوئی بات حرفِ آخر نہیں ہوتی، اس لئے آج کے دشمن کل کے دوست ہو سکتے
ہیں اور کل کے دشمن آج کے دوست ، ویسے بھی ہر الیکشن میں عوام کے پاس
امیدوار جاتے ہیں، عوام وہی ہیں، جبکہ کامیاب ہونے والے افراد بسا اوقات
تبدیل ہو جاتے ہیں، جن کی وجہ سے حکومتیں بھی کبھی کسی جماعت کی اور کبھی
کسی جماعت کی ہوتی ہیں۔ پارٹیاں تبدیل کرنے کا رجحان بھی مستقل وبا کی طرح
زوروں پر ہے۔ پہلے تو پی ٹی آئی کے عمل سے یہ ظاہر ہوا کہ شاہ محمود قریشی
کو اپوزیشن لیڈر لایا جارہا ہے، مگر بعد ازاں جب پی ٹی آئی نے یہ جان لیا
کہ اپوزیشن کی تمام جماعتیں شاید ان کے ساتھ مکمل تعاون نہ کریں تو اب یہ
خبر سامنے آگئی کہ تبدیلی کی صورت میں اپوزیشن لیڈر عمران خان بنفسِ نفیس
ہونگے۔ عملی طور پر عمران خان اپوزیشن لیڈر کا کردار تو نبھا رہے ہیں، مگر
باقاعدہ سرکاری طور خورشید شاہ اس منصبِ جلیلہ پر فائز ہیں۔ اب اگر عمران
خان یہ تبدیلی لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، ناراض لوگوں کو اکٹھا کرلیتے
ہیں، فاٹا کو ساتھ ملا لیتے ہیں تو اپوزیشن لیڈر بن کر انہیں ایک اہم کام
کرنا ہوگا، جوکہ انہوں نے اس سے قبل کم ہی کیا ہے، وہ ہے اسمبلی میں حاضری۔
ویسے اپنے اپوزیشن لیڈر کو بچانے کے لئے زرداری صاحب بھی میدان میں آگئے
ہیں۔
|