یشونت سنہا کے انٹرویو کی ذرائع ابلاغ میں زبردست پذیرائی
ہوا کے رخ میں تبدیلی کا اشارہ ہے۔ یشونت سنہا نے کوئی نئی بات نہیں کہی۔
یہی بات اس سے قبل سبرامنیم سوامی کہہ چکے لیکن ماضی کےاحمقانہ بیانات کی
وجہ سےان کا وقار اس قدر پامال ہو چکا ہے کہ ان کی درست باتوں پر بھی کوئی
کان نہیں دھرتا۔ چندمبرم برابر خبردار کیے جارہے ہیں لیکن ان کو اس لیے نظر
انداز کردیا جاتا ہے کہ وہ حزب اختلاف کے رہنما ہیں اور اپوزیشن کا کام ہی
سرکار کی ہر اچھے برے کام کی مخالفت ہے ۔ یشونت سنہا پر یہ دونوں باتیں
صادق نہیں آتیں ۔ ان کا شمار بی جے پی ایسے قدآور رہنماوں میں ہوتا ہے جن
کا اعتبار باقی ہے۔ چند ماہ قبل جب بی جے پی سرکار بندوق کی گولی سے کشمیر
کا مسئلہ حل کرنے پر تلی ہوئی تھی یشونت سنہا نے وادی کا دورہ کیا اور واپس
آکر سرکار کو بات چیت کی راہ اپنانے کی تلقین کی۔ اس کے بعد وزیراعظم نے
یہ تسلیم کیا کہ مسئلہ ٔ کشمیر گولی یا گالی سے حل نہیں ہوگا۔ اس کا صاف
مطلب حکومت کی پسپائی تھا کہ جس کا اعتراف وزیرداخلہ نے سرینگر میں یہ
اعلان کرکے کیا کہ سرکار بلاشرط ہر کسی کے ساتھ گفت و شنید کے لیے تیار ہے
اور کشمیری عوام کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں کیا جائیگا۔ حکومت کے موقف میں
اس تبدیلی کے پس پشت یشونت سنہا کا اہم کردار ہے۔
ان تمام وجوہات کے باوجود یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ فی زمانہ قومی میڈیا مٹھی
بھر سرمایہ داروں کے قبضے میں چلا گیا ہے ۔سرکار نے ان کے مالکین سے ساز
باز کر لی ہے اس لیے یشونت سنہا کے بیان کو نظر انداز کردیئے جا نے کا قوی
امکان تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ یہ تبدیلی اس بات کا ثبوت ہے کہ معاشی میدان
میں زبردست ناکامیوں کے سبب عوام کے علاوہ خواص بھی مودی سرکار سے مایوس
ہوچلے ہیں ۔ ذرائع ابلاغ کےموقف کی تبدیلی کے پس پشت دو مقاصد ہو سکتے ہیں
۔ اول تو یہ کہ گجرات انتخاب سے قبل مرکزی سرکار کو ایک ایسا جھٹکا دیا
جائے کہ وہ خواب خرگوش سے بیدار ہو کر معاشی صورتحال کو سدھارنے کی سنجیدہ
سعی کرنے لگے نیزیا اپنے لیڈر کو تبدیلی پر غور کرے۔ اس میں شک نہیں کہ
گجرات میں شکست تو دور بی جے پی کے ارکان اسمبلی میں کمی سے بھی مودی اور
شاہ کی ساکھ کوبری طرح متاثر کرےگی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ لوگ اس نتیجے
پر پہنچ چکے ہوں کہ اب ان نااہلوں سے حکومت نہیں ہونے کی اس لیے ۲۰۱۹ تک
سرکار کے خلاف ماحول بنا کر ان کا بستر گول کردیا جائے۔ سوشیل میڈیا میں تو
مودی سرکار کے خلاف بغاوت عام ہوچکی ہے اگر قومی ذرائع ابلاغ بھی خلاف
ہوجائے تو اس کاغذی شیر کی ہوا اکھڑجائیگی۔
یہ حکومت فی الحال تین چہروں والا آسیب ہے ۔ درمیان میں مودی جی کا چہرہ
عوام کو بے وقوف بنانے کے کام آتا ہے۔ دائیں جانب امیت شاہ پارٹی کی جوڑ
توڑ میں لگے رہتے ہیں اور بائیں جانب ارون جیٹلی سرکاری حماقتوں کے دفاع
میں مصروف عمل ہوتے ہیں ۔اس تریمورتی میں عیاری ، رعونت ، اور ناپختگی
مشترک ہے۔ یشونت سنہا کےآگ میں جیٹلی کی رعونت نے تیل کا کام کیا ۔ انہوں
یشونت سنہا پر ایسے اوچھے الزامات لگائے کو جو کسی قومی رہنما کو زیب نہیں
دیتے اسی لیے سنہا نے جیٹلی کے گھٹیا سوال کا جواب دینے سے انکار کردیا۔
جیٹلی نے سنہا کے خلاف جو بہتان طرازی کی ایسا سلوک تو کوئی اپنے مخالفین
کے ساتھ بھی نہیں کرتا کجا کہ سامنے اپنی ہی جماعت کا معمر رہنما ہو۔
ارون جیٹلی نے دو باتیں کہیں۔ اول تو یہ کہ ایک ۸۰ سالہ بیروزگارملازمت
ڈھونڈ رہا ہے اور تنقید کرنے والے اپنا ماضی بھول چکے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ
ہے کہ یشونت سنہا وزارت کی خاطر ہاتھ پیر ماررہے ہیں ۔ جیٹلی جی شاید نہیں
جانتے کہ یشونت سنہا آئی اے ایس افسر تھے اور اپنی سبکدوشی سے ۱۲ سال قبل
ملازمت سے استعفیٰ دے کر سیاست میں آئے تھے ۔ ملازمت ڈھونڈنے والے اس طرح
سرکاری نوکری کو لات نہیں مارتے اس لیے کہ نیتا تو آتے جاتے رہتے ہیں لیکن
سرکاری ملازمت متقل ہوتی ہے۔ جہاں تک یشونت سنہا کو وزارت خزانہ سے ہٹائے
جانے کا سوال ہے توجیٹلی کو نہیں معلوم کو ایک ایسے وقت میں جبکہ ہندوستان
اور پاکستان کی سرحد پر جنگ کے بادل منڈلا رہے تھے اور دونوں فوجیں آمنے
سامنے ڈٹ گئی تھیں یشونت سنہا کو وزارت خزانہ سے ہٹا کر وزیر خارجہ بنایا
گیا تھا۔ جسونت سنگھ کی سفارتی ناکامی کے بعدکی صورتحال میں وزارت خارجہ کی
اہمیت بہت بڑھ گئی تھی ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر کسی رہنما کے دماغ میں
رعونت بسیرہ کرلے اس کی عقل ماری جاتی ہے ۔ اس طرح کے بازاری فقرےعقلی
ناپختگی کی علامت ہیں جن کو عیاری و مکاری سے ڈھانپا جاتا ہے لیکن ایسا
لگتا ہے کہ اب یہ پاپ کا گھڑا بھر چکا ہے ۔ ملک کے عوام و خواص اس کو
سمجھنے لگے ہیں اس لیے جلد یا بہ دیر یہ چوراہے پر پھوٹے گا۔ |