لغوی معنوں میں جمہوریت دراصل ایک ایسی طرز حکومت ہے جس
میں لوگ یا لوگوں کا منتخب شدہ نمائندہ حکومت چلانے کا اہل ہوتا ہے۔ اس طرز
حکومت میں سربراہ حکومت منتخب کیا جاتا ہے، اس کو بادشاہت عطا نہیں ہوتی۔
یہ اصطلاح جمہوریہ انگریزی اصطلاح Republic کا ترجمہ ہے جو لاطینی زبان کی
اصطلاح res publica سے اخذ ہوا ہے، اور اس کا مطلب عوامی معاملہ کے
ہیں۔جدید و قدیم جمہور نظریات اور طرز حکومت میں انتہائی مختلف ہیں۔
جمہوریہ کی سب سے عام تعریف یہ ہے کہ کسی ریاست میں ایسی حکومت جس کا
سربراہ حکومت کوئی بادشاہ نہیں بلکہ منتخب شدہ عوامی نمائندہ ہو۔ دنیا کی
مشہور جمہوریہ جیسے امریکہ، فرانس میں سربراہ حکومت کو نہ صرف آئین کے تحت
بلکہ عوامی رائے عامہ کے بعد ہی منتخب کیا جاتا ہے۔ ریاست ہائے متحدہ
امریکہ میں جیمز میڈسن نے جمہوریہ کی تعریف “نمائندہ جمہوریت“ کے تحت کی ہے
جو “راست جمہوریت“ کا تضاد مانا جاتا ہےاور امریکہ میں اب بھی اپنے آپ کو
جمہوریت پسند کہلوانے والے اس تعریف اور امریکہ میں جمہوریت بارے یہی نظریہ
اپناتے ہیں۔ عام طور پر جمہوریہ میں طرز حکومت مختلف ہو سکتی ہیں، یعنی کہ
سیاسی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جمہوریت میں یا تو تمام عوام کی حکومت
ہوتی ہے، یا پھر عوام کی بڑی آبادی کی جانب سے اکثریت والی سیاسی جماعت یا
افراد حکومت چلانے کے فرائض دینے کے اہل ہوتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں حکومت
عوام یا جمہور کی رہتی ہے اور اس لیے دونوں طرز حکومتوں کو جمہوریہ میں
شامل کیا جاتا ہے۔ جدید سیاسیات میں جمہوریت اس مخصوص نظریے کا نام ہے جو
مجموعی عوامی رائے عامہ پر پروان چڑھتا ہے اور اس کو دوسرے عوامی نظریات
جیسے آزاد خیالی، یا روشن خیالی سے منفرد سمجھا جاتا ہے۔عمومی طور پر
جمہوریہ ایک خودمختار ریاست کا دوسرا نام ہے، لیکن خودمختار ریاست میں ذیلی
انتظامی و سیاسی اکائیاں وجود رکھتی ہیں جو جمہوریہ کے ماتحت رہتی ہیں یا
کئی مواقع پر ان انتظامی و سیاسی اکائیوں کو بھی ضرورت کے مطابق آزاد یا
پھر وفاقی جمہوریت کے طرز پر ڈھال دیا جاتا ہے۔کئی سیاسی ماہرین نے فلاح کو
کسی بھی ریاست میں بنیادی جمہوری نکتہ گردانا ہے، یعنی کہ سب سے قابل قبول
اور عمل جمہوریہ وہ گردانی جائے گی جس کی بنیاد عوامی فلاح اور بہبود پر
رکھی گئی ہو۔۔۔معزز قارئین!! مندرجہ بالا سطور میں نے اپنی مدد کیلئے گوگل
سے حاسل کیئے ہیں تاکہ اپنی بات کو آپ تک سمجھانے کیلئے وضاحت کرسکوں،
لیکن ایک جمہوری طرز حکومت اسلام نے بھی دیا ہے جس کو خلیفہ یا امیر کا
خطاب سے یاد کرتے ہیں ، سلسلہ وہی ہے جو ایک عام شہری کو اپنے حاکم وقت سے
وضاحت اور جواب طلبی کا اسلام نے دیا ہے ، تاریخ اسلام ہمیں بتاتی ہے کہ
کسی بھی اسلامی ریاست میں حاکم وقت اپنے رعایا یعنی عوام کو ہر بات کا جواب
دہ ہے یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ کے دور سے لیکر خلفائے راشدین کے ادوار میں بھی
عام عوام خلیفہ وقت سے اپنے حقوق کیلئے جواب طلب کیا کرتے تھے اور حاکم وقت
انتہائی خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے انہیں معلوم تھا کہ اگر جواب نہ دیا
تو روز قیامت میں کیا جواب دیں گے ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ نے
اپنے دور حکومت میں عام عوام کے حقوق کیلئے نئی سے نئی جدتیں بھی پیش کیں ،
یہی وجہ ہے کہ خلفائے راشدین اپنے آپ کو خادمین کہلاتے تھے اور خدمت کرکے
نہ صرف اللہ کی رضا کے طالب تھے بلکہ خوف خدا کا حال یہ تھا کہ ان کی زندگی
عام شہری سے بھی کم تر تھی ،زمین پر بغیر بستر سوتے، انتہائی سادہ کھانا
کھاتے بلکہ روزہ سے اکثر رہا کرتے ، بیت المال کی ایسی حفاظت کرتے کہ یہ
عوام کی امانت ہیں اور بہت ایمانداری و سچائی کیلئے تقسیم کیا کرتے تھے
،آج ہزار سال سے زیادہ عرصہ بیت گیا ہے مگر ان کےطریقہ کار اور خدمات
تابندہ و جاوید ہیں ،یہ وہ شخصیات ہیں جنہیں فرشتے بھی سلام کیا کرتے
ہیںاور یہ سب مقام آپ ﷺ کی اطاعت کے بدولت حاصل ہوا۔۔۔معزز قارئین!!میرے
والد سردار حسین صدیقی مرحوم نے اپنی زندگی میں مجھے نصیحت کرتے ہوئے بتایا
کہ پاکستان بڑی قربانیوں کے بعد حاصل ہوا ہے ، آپ نے کہا کہ قائد اعظم
محمد علی جناح وہ عظیم ،ذہین، قابل ترین شخصیت تھے جن کی انتہائی مدابرانہ
سوچ کے طفیل ہمیں پاکستان نصیب ہوا ،اس زمانے میں جب تحریک پاکستان جاری
تھی آپ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں گریجویشن کررہے تھے اور قائد اعظم محمد
علی جناح کی سرپرستی میں بحیثیت تحریکی کارکن اپنی خدمات انجام دیں ، میرے
والد کہا کرتے تھے کہ پاکستان اور بانی پاکستان اور ان کے رفقائے کاروں کی
ہمیشہ قدر کرنا کیونکہ ایسی شخصیات پیدا نہیں ہوتی بلکہ اللہ خود منتخب
کرکے پیدا کرتا ہے، اسی لیئے شاعر مشرق نے انہی لوگوں کیلئے کہا ہے کہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پے روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
پاکستان تو بن گیا لیکن اس نعمت کی قدر ہمارے حکمرانوں نے نہیں کی ،خان
لیاقت علی خان کے بعد خاص کر سن انیس سو پنسٹھ کی جنگ میں بہترین کامیابی
کے بعد ہمارے دشمنوں کے پیٹ میں ہمیشہ موڑوڑ رہا دشمن پاکستان نے سازشوں کا
جال بکھیرنا شروع کردیا ،ہمارے درمیان بے ضمیر اور بقاؤ سیاست دانوں کا
چناؤ شروع ہوا اور وقت کے ساتھ ساتھ میر جعفر و میر صادق کے پیروکار ان کے
آلہ کار بنتے چلے گئے، اب صورتحال یہ ہے کہ پاکستان ایسے کمینوں،
بےغیرتوں، بے ضمیروں، مفاد پرستوں، لالچیوں اور کفار کی غلامی کے حامی
ذہنوں کی سازشوں کی نظر ہوگیا ہے، ملک پاکستان کو کھوکھلا کرنے میں پی پی
پی، پی ایم ایل نون، پختونخوا نیشنل پارٹی، ایم کیو ایم، اے این پی، جئے
سندھ سمیت کئی اور پارٹیوں نے اپنے اپنے منفی رویئے سے نا تلافی نقصان سے
دوچار کیا ہے۔۔معزز قارئین!! میمو گیٹس، وکی لیکس اور پانامااسکینڈلز نے
پاکستانی سیاسی جماعتوں، سیاسی رہنماؤں کے غلیظ چہرے عیاں کردیئے، پھر کیا
تھا ایک طرف پی پی پی دوسری جانب ایم کیو ایم اور درمیان ایم کیو ایم ، جے
یو آئی ف اور اے این پی کے کرتوت سپریم کورٹ نے عوام کے سامنے پیش کردیئے
تو یہی سیاسی جماعتوں نے ایوان کو باپ کی جائیداد بناڈالا، آئین کو جس طرح
ریزہ ریزہ کیا اس کی تاریخ میں آج تک کوئی مثال نہیں ملتی، ایک نا اہل شخص
میاں نواز شریف کو بچانے کیلئے آئین میںرد و بدل کرکے واضع کردیا کہ وہ
یہودیوں، عیسائیوں اور کفار کے ایما پر سب کچھ کررہے ہیں ،یہ اپنے آقاؤں
کو بتانا چاہتے ہیں کہ قادیانیت یہاں زندہ ہے اور آئین میں مقام حاصل
کرچکی ہے مگر یہ بھول گئے کہ اسی ایوان میں ایمان رکھنے والے ابھی زندہ ہیں
،شیخ رشیدنے ان کے خباثت کو بے نقاب کردیا۔۔۔معزز قارئین!!حقیقت تو یہی ہے
کہ قادیانی حضور ﷺ کے نبی ہونے پر یقین رکھتے ہیں ختم نبوت کو بھی مانتے
ہیں لیکن ساتھ ساتھ ظل نبی ہو سکتا ہے یہ بھی مانتے ہیں۔ پہلے کاغذات
نامزدگی میں جو قسم تھی کہ میں قسم اٹھاتا ہوں اور تصدیق کرتا ہوں کہ حضور
ﷺ آخری نبی ہیں اب کوئی نبی یا ظل نبی نہیں۔ لیکن اصل نکتہ اب ہے کہ قسم
کی جگہ یہ لکھ دیا کہ میں اقرار کرتا ہوں تو جناب اقرار تو قادیانی پہلے
بھی کرتے آئے ہیں کہ حضور ﷺ نبی ہیں ضرورت پڑنے پر آخری نبی بھی مانتے
ہیں مگر ساتھ ساتھ اپنے عقیدے کی وضاحت بھی ہے انکے پاس کہ ظل نبی بھی ہو
سکتا ہے،یعنی اب اقرار نامہ کوئی قادیانی یا غیر مسلم بآسانی بھر سکتا
ہے۔آخر میں جو قسم کا پیرا گراف ہے اس میں قسم صرف اس بات کی ہے کہ میں
قسم اٹھاتا ہوں کہ یہ معلومات جو دی ہیں یہ درست ہیں۔لفظوں کے ہیر پھیر سے
حکومت نے ہماری اصل بنیاد پر حملہ کیا ہے بلکہ اگر گہرائی میں اتریں تو یہ
قادیانیون کو کافر قرار دینے والے قانون سے متصادم ہے، میرے منہ میں خاک
لیکن یہ معاملہ کہیں اور جاتا نظر آرہا ہے مجھے۔۔۔پرانے بل میں الفاظ تھے
میں قسم کھاتا ہوں / ایمان لاتا ہوں، اب اگر کوئی قادیانی پارلیمنٹ میں آ
بھی گیا تو نشاندہی پر اس کی رکنیت منسوخ کر دی جائے گی کیونکہ وہ کہتے ہیں
کہ ختمِ نبوت اپنی جگہ لیکن معاذاللہ حضور کے بعد ظلی نبی آسکتا ہے، تو اب
یہ ایمان سے تجاوز کر گیا اسمبلی سے نکالا جائے گا جبکہ نئے بل میں ہے کہ
میں اقرار کرتا ہوں ختمِ نبوت کا، اب یہاں ایمان نہیں لایا تو قادیانیوں کا
تو موقف ہی یہی ہے کہ ہم ختمِ نبوت کا اقرار کرتے ہیں لیکن معاذ اللہ ظلی
یا بروزی نبی بھی آسکتا ہے یعنی جونیئر نبی ۔۔ تو اب آپ کس طرح ختمِ نبوت
کے اقراری کو اسمبلی ممبر، سینیٹر، وزیرِ اعظم یا صدر بننے سے روک سکتے
ہیں۔۔؟یہ عقیدہ ختمِ نبوت کے کھلم کھلا متصادم نہیں تو اور کیا ہے۔۔۔؟ہمیں
ہرگز کمزوری نہیں دکھانی چاہیے کیوں کہ قانون ختم نبوت کے ساتھ چھیڑ خانی
ہوئی ہے رد عمل دکھانا ضروری ہے، معززقارئین!! گو کہ حکومت وقت نے تسلیم
کرلیا کہ عقیدہ ختمِ نبوت پرضرب آنے والے شق کو دوبارہ اپنی پرانی صورت
میں بحال کیا جائیگا لیکن آرٹیکل دو سو تین جو نا اہل میاں نواز شریف کو
ہال کرنے میں تبدیل کیا ہے اسے برقرار رکھا جائیگا لیکن اس بابت شیخ رشید
نے سپریم کورٹ نے اعتراض جاری کردیا ہے اور پاکستانی عوام ک دعا ہے کہ شیخ
رشید کو اللہ کامیابی سے ہمکنار کرے آمین،مسلم لیگ نون نے ضمنی انتخاب این
اے ایک سو بیس میں جہاں ساڑھے تین لاکھ ووٹرز تھے وہاں سے تقریباً ساٹھ
ہزار کے لگ بھگ ووٹ حاصل کیئے جبکہ ان کے مخالف پی ٹی آئی صرف تیرہ ہزار
کم ووٹ پر رہی ، ٹرن آوٹ انتہائی کم تھا جبکہ دنیا جانتی ہے کہ اس بابت
تما م سرکاری مشنری کا بے ریغ استعمال کیاگیا تھا، اس دھوکہ دہی اور غیر
قانونی عمل سے کامیاب ہوکر سمجھ بیٹھے کہ پور ا پاکستان جیت لیا حقیقت با
لکل برعکس ہے۔۔معزز قارئین !! تیس سالوں سے زائد حکومت کرنے والا نواز شریف
نے سن انیس سو اکیاون میں جنرل آصف نواز جنجوا کا سامنا کرنا پڑا پھر سن
انیس سو تیرانوے میں جنرل عبدالوحید کاکڑ سے جبکہ انیس سو اٹھانوے میں اس
وقت کے جنرل کے خلاف ایکشن لینے پر اپنی حکومت سے ہاتھ دھونا پڑا اور کارگر
کی کامیابی کو اپنی خواہشات کے بھینٹ چڑھا دیا یہ وقت تھا انیس سو اٹھانوے
کا جب جنرل پرویز مشرف اپنے منصب پر تھے، تیسری بار وزیر اعظم سن دو ہزار
تیرہ میں جنرل راحیل شریف تھے نا کے دور میں اے پی ایس کا واقعہ بھی مسلم
لیگ نون نے بھارت کی خفیہ ایجنسی را کو سہولت دی کیونکہ اس دوران پی ٹی
آئی اسلام آباد میں دھردیئے بیٹھی تھی اسی اثنا میں پاناما کا اشو نے
دنیا بھر کو ہلا کر رکھ دیا سوائے نواز شریف کے تمام عزت دار حکمران مستعفی
ہوگئے لیکن یہ اقتدار سے چمٹے رہے، گزشتہ سال پاناما کا کیس سپریم کورٹ چلا
گیا گزشتہ سال جنرل قمر جاوید باجوا آرمی کے چیف بن گئے۔معزز قارئین!!
دانشور ،محقق اورسینئر صحافی کا کہنا ہے کہ مسلسل مسلم لیگ نون پاک آرمی
اور سپریم کورٹ کی ہرزہ سرائی کرنے سے باز نہیں آرہی ہے ،پی ایم ایل نون
ملک کو تباہ و برباد اور عدم استحکام پیدا کرنے کیلئے بھارت، امریکہ،
برطانیہ ،اسرائیل کی لائن پر چل رہی ہے جبکہ ان کی معاونت میں بھرپور انداز
میں پی پی پی اور ایم کیو ایم شامل ہیں۔دانشور ،محقق اورسینئر صحافی کا
کہنا ہے کہ اب جمہوریت کے نام پر ڈاکا زنی ہے یہ جماعتیں جمہوریت کی جیم سے
بھی واقف نہیں اگر عوام نے انہیں مزید موقع دیا تو یہ پاکستان کو اس قابل
نہیں چھوڑین گے کہ وہ اپنے ایٹمی اثاثوں کو محفوظ بناسکے اس لیئے ان
جماعتوں کو فی الفور کالعدم قرار دینا چاہیئے!!
۔۔۔۔۔ اللہ پاکستان کو ہمیشہ کیلئے کرپشن سےنجات دلادےآمین ثما آمین۔۔
۔۔۔۔۔ پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔! |