بڑے ٹاسک

اگر آج جمہوریت تماشہ بنی ہوئی ہے۔اور آمریت دھڑلے سے اپنی منوا رہی ہے۔تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے۔بھلا جمہوری لیڈر شپ ہے ہی کہاں۔کتنے ہی رہنما خود کو عوامی لیڈر کہلانے کے دعوے دار ہوسکتے ہیں۔کتنے ہی لوگ ہونگے جو قومی معاملات کی سیاست میں دلچسپی رکھتے ہونگے۔ایسے لوگ ڈھونڈے نہ ملیں گے۔البتہ ایسے لوگ قدم قدم پر نطر آئیں گے۔جو قوم کو ہمیشہ مارشل لاء لگ جانے کا ڈراوہ دیتے رہے۔جو آمریت کے وفادار رہے۔جو اسے ویلکم کہتے رہے۔ اس کی آمد کے جواز کھڑے کرتے رہے۔شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار یہ خاندانی غلام لوگ بھلا آمریت کا نخرہ کیوں کر نہ بڑھائیں گے۔اگر آمریت کے مخالف اور حمایتیوں کے درمیان تناسب نکالا جائے تو شاید ایک دس کا نکلے شاید اس سے بھی زیادہ کا۔بے ہمتی ۔بے ایمانی اور بد نیتی۔جمہوری قیادت کو آمریت کی چھتری لینے پر مجبو رکرتی ہے۔اپنی کمزوریاں دور کرنے سے انہیں یہ چھتری پانا ہمیشہ آسان لگا۔نوازشریف نے جب نواب زادہ نصراللہ خاں صاحب کو بطور صدارتی امیدوار سپورٹ کیا تو مقصد غیر جمہوری قوتوں کو کمزور کرنا تھا۔ غلام اسحاق کو اسٹیبلمنشٹ کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی۔ایک لمبے عرصے تک غلام اسحاق خاں صاحب اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کام کرتے رہے۔جبکہ نواب زادہ نصراللہ خاں کو ہمیشہ حزب اختلاف میں جگہ ملی ۔وجہ غالبا یہ رہی کہ انہوں نے ہمیشہ جھوٹ کو جھوٹ اور سچ کو سچ کہنے کی غلطی کی۔وہ ہاں میں ہاں ملانے کی عقلمندی نہ رکھنے کے سبب ہمیشہ حکمرانوں میں غیر مقبول رہے۔نوازشریف صاحب نے بڑی کوشش کی کہ محترمہ بے نظیر بھٹو بھی نواب زادہ نصراللہ خاں کو سپورٹ کریں۔مگر بد قسمتی سے بے نظیر بھٹو نے تب غلام اسحاق کا ساتھ دیا۔پی پی قیادت کے اس غلط فیصلے نے جمہوریت کو کئی سال تک مفلوج کرنے میں اہم رول ادا کیا۔

پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف میں بڑھنے والی دوریاں آنے والے الیکشن میں نئی سیاسی صف بندیوں کا موجب بن سکتی ہیں۔ابھی کل تک دونوں جماعتوں میں اتحاد نہ ہونے کے باوجود معاملات قدرے دوستانہ تھے۔نوازشریف کی مخالفت کے سنگل ایجنڈے پر اتفاق کے سبب دونوں جماعتیں متعد د مواقع پرمتفقہ حکمت عملی مرتب کرنے کی طرف آئیں۔اب یہ تعاون باقی نہیں رہا۔اگر تعاون جاری رہتاتو اگلے الیکشن میں دونوں جماعتوں کی ہم خیال جماعتوں کو زیادہ کوفت کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ایک دوسرے سے دوستانہ رویہ رہتا باہمی تنقید سے گریزکیا جاتا۔دونوں جماعتوں کے درمیان پیدا ہونے والے حالیہ اختلافات نے ان کی اتحادی جماعتوں مین بھی بے چینی کی لہر دوڑائی ہے۔قومی اسمبلی میں پی پی کا حزب اختلاف کا عہدہ چھیننے کی کوشش پر تحریک انصاف اور پی پی کے درمیان سرد جنگ کا آغاز ہوا۔اسی جنگ کا نتیجہ ہے کہ خاں صاحب کی طرف سے قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ پی پی کی طرف سے فورا رد کردیا گیا۔اس مطالبے کولے کر پی پی قیادت کی جانب سے تحریک انصاف پر تابڑ تو ڑ حملے اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ اسے قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی حالیہ قائد حزب اختلاف بدلوانے کی کوشش انتہائی ناگوار گزری ہے۔دوسری جماعتوں نے بھی قائد حزب اختلاف کی تبدیلی اور قبل از وقت انتخابات کے مطالبے کو نامناسب قراردیاہے۔اس مدعے پر ق لیگ ۔جماعت اسلامی تحریک انصاف کے ساتھ نہیں۔خود تحریک انصا ف کے اندر بھی قائد حزب اختلاف کی تبدیلی کے ایشوپر شدید قسم کے مسائل سامنے آئے ہیں۔اس جماعت پر ہمیشہ الزام لگاکہ یہ مختلف الخیال لوگوں کا ایک ہجوم ہے۔جو صرف اور صر ف اقتدار پانے کے لیے ایک پلیٹ فارم پراکٹھے ہوئے ہیں۔شاہ محمود قریشی کو تحریک انصاف کی طرف سے قائد حز ب ااختلاف نامزد کرنے کے بعد پارٹی کے اندر ان کی مخالفت میں جو شور مچاہے۔وہ اس الزام کی ایک واضح تصدیق ہے۔

ہمارے ہاں سیاسی قیادت کی ریٹنگ طے کرنے میں خاموش اکثریت فیصلہ کن کردار ادار کرتی ہے۔یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو کسی بھی سیاسی دھڑے سے نہ وابستہ ہوتے ہیں۔نہ پے رول پہ ہوتے ہیں۔یہ غیر جانبدارطبقہ صرف حالات حاضرہ کو مد نظر رکھ کر رائے قائم کرتاہے۔اور اس کی رائے جزباتیت سے پاک ہونے کے سبب فیصلہ ساز ہوتی ہے۔اس طبقے کی طرف سے تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن سے متعلق رائے میں نیا موڑ آچکاہے۔دوہزار تیرہ کے دوران یہ طبقہ تحریک انصاف کو بہتر تصور کرتاتھا۔آج یہ اس سے امیدیں تو ڑبیٹھا۔تب عمران خان کے ترانے اور خطابات انہیں حقیقت کے غماز لگے۔انہوں نے تحریک انصاف کو ایک انقلابی جماعت تصور کرلیا۔اب جبکہ پانچ سال ہونے کو ہیں۔یہ طبقہ تحریک انصاف کو ایک غیر سنجیدہ اور بے ترتیب ٹولہ تصور کرنے لگاہے۔جس کے قول وفعل میں تصاد ہے۔دنیابھرکے کچرے سے تبدیلی آنے کی امید بھلا کون بے سمجھ کرے گا۔ نوازشریف سے متعلق اس خاموش اکثریت کی سوچ بدتدریج بد ل رہی ہے۔پچھلے پانچ سالوں میں نوازشریف کی شخصیت میں انہیں وہ برائی نظرنہیں آئی جس کا تحریک انصاف والے ڈھنڈورہ پیٹ رہے تھے۔الٹا حقیقت یہ نکل رہی ہے کہ نواز شریف ایک انقلابی سوچ کے حامل ثابت ہوئے۔انہوں نے قومی اور اجتماعی معاملات کو مد نظر رکھ کر اپنی سیاست ترتیب دی۔انہوں نے چھوٹے موٹے معاملات میں پڑکر نمبر گیم میں ان رہنے کی بجائے بڑے بڑے ایشوز کو چھیڑ کر منفرد سیاست متعارف کروائی۔انہوں نے غیر جمہوری قوتوں کو قدم قدم پرللکارہ۔ان قوتوں نے جس عدلیہ کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی ۔نوازشریف اس عدلیہ سے بھڑ گئے۔ڈوگر کورٹ ہوں یا سجاد علی شاہ کورٹ نوازشریف نے اپنی طاقت آزمائی جاری رکھی۔یہ قوتیں اگر ایوا ن صدر کی پشت پر ہوئی تو نوازشریف نے ایوان صدر سے ٹکر لے لی۔غلام اسحاق او ر فاروق لغاری سے ہتھ جوڑی کا سبب ان صدور کے پیچھے چھپی غیر جمہوری قوتیں تھیں۔آمریت ملکی نظام کی بربادی کی نصف وجہ ہے۔نوازشریف کی ساری توجہ اس کا قلع قمع کرنے پر مرکوز ہوئے۔قول وفعل میں یکسانیت کے حامل نوازشریف بڑے بڑے ٹاسک چننے والے لیڈر ثابت ہورہے ہیں۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 140992 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.