سوویت یونین کے خاتمے کے بعدروسی فوج کاشیرازہ بکھر جانے
کے بعدعجلت میں بھارت نے اپنے دیرینہ دوست کوچھوڑ کرامریکاکی گود میں پناہ
ڈھونڈ لی لیکن پاک روسی فوجی مشقوں پر بھارت نے انتہائی پریشانی میں اسی
عجلت کے ساتھ روس کواپنی وفاداریوں کایقین دلانے کیلئے ایک بڑے دفاعی
معاہدے کادھوکہ دیکراس کااعتمادحاصل کرنے کیلئے کوشاں ہے کیونکہ روس ایک
مرتبہ پھرامریکی استعمارکوآنکھیں دکھانے کی پوزیشن میں آچکاہے۔١٩٩١ء سے
٢٠٠٨ء تک یعنی بورس یلسن اورولادی میرپیوٹن کے پہلے دور حکومت میں روس نے
سابقہ سوویت ریاستوں میں اپنی فوج نہائت کم کردی تاکہ ان ممالک سے تنازعات
میں کمی کی جاسکے یاتنازعات کاخاتمہ کیاجاسکے،لہندا٩٠ء کی دہائی میں روسی
فوج کی ساری مصروفیات صرف جارجیااورمالدوواکے نسلی فسادات اورتاجکستان کی
خانہ جنگی کرنے تک محدودتھی،حتیٰ کہ ۱۹۹۴ء میں جب صدربورس یلسن نے
چیچنیامیں علیحدگی پسندتحریک کوکچلنے کیلئے فوج بھیجنے کااعلان کیاتوروسی
فوج کا سربراہ دس لاکھ ہردم تیارفوج میں سے صرف ساڑھے چھ لاکھ فوجی بھیج
سکا۔
سابقہ سوویت یونین کی حدودسے باہرروس نے ہمیشہ احتیاط سے کام لیا،کبھی اسے
امریکاکاتعاون درکاررہاتوکبھی اس نے نیٹوکے ساتھ عملی تعاون بھی کیا ، جس
کی مثال ١٩٩٦ء میں بوسنیامیں ہونے والی امن آپریشن میں حصہ لیناہے لیکن نوے
کی دہائی کے وسط میں جب نیٹوکی رکنیت معطل کرنے کی امیدیں دم توڑگئیں توروس
نے اس اتحادکی مشرق کی طرف ہونے والی وسعت پرشدید احتجاج کیا۔١٩٩٩ء میں
یوگوسلاویہ پرہونے والی بمباری اور٢٠٠٣ء میں عراق پرقبضے کے خلاف بھی
بلندآوازکی لیکن وہ اس وقت اتناطاقتورنہیں تھاکہ کسی حملے کوروک
سکتا،پھرکریملن نے ایٹمی صلاحیت میں اضافے کواپناہدف بنالیا کیونکہ وہ
جانتاتھاکہ صرف ایٹمی صلاحیت میں اضافہ ہی اس کی سلامتی اور خودمختاری کی
ضمانت ثابت ہوگا ۔
اب زوال اورانحطاط پذیری کے دن گئے ،٢٠٠٨ء سے پیوٹن نے اس دل شکستہ فوج میں
اصلاحاتی پروگرام کاآغاز کیا جس کے تحت دفاعی اخراجات میں بے پناہ اضافہ
کیاگیا۔اس پروگرام کی بدولت اب روسی فوج اپنے اہداف حاصل کرنے کے قابل
ہوگئی ہے۔ماسکونے فروری۲۰۱۴ء میں پہلی دفعہ بغیرکسی نشان کی وردیوں میں
ملبوس اپنے سپاہی یوکرائن کے شہرکریمیاپرقبضے کے حصول کیلئے بھیجے اورساتھ
ہی کیف پربڑے حملے کی دہمکی بھی دی۔اس کے بعد یوکرائن کے علاقے ''دنباس''میں
روسی حمائت یافتہ باغیوں کواسلحہ ،خفیہ معلومات اورکمانڈاینڈکنٹرول سسٹم کی
فراہمی بھی جاری رکھی گئی۔٢٠١٥ء میں روس نے تاریخ میں پہلی باراپنی مسلح
افواج کوشام میں بشارالاسدکے خلاف لڑنے والے باغیوں پر بمباری کرنے کاحکم
دیکرمشرق وسطیٰ میں براہِ راست مداخلت کاآغازکیاباوجوداس کے کہ یہ مہم جوئی
ان ان مہمات سے کہیں چھوٹی ہے جوکبھی تاریخ کا حصہ رہی ہیں لیکن حقیقت یہ
ہے کہ روس ایک بارپھرقابل ہوگیاہے کہ کسی بھی عالمی طاقت کے مقابلے میں نہ
صرف اپنی سرحدوں کا بہترطریقے سے دفاع کرسکے بلکہ اپنی حدودسے باہربھی فوج
بھیج سکے۔قریباً پچیس سال کاعرصہ کمزورفوج کے ساتھ گزارنے کے بعدروس ایک
مرتبہ پھر یوریشیامیں بڑی قوت بن کرسامنے آیاہے۔
روسی فوج کی جدیدیت کی کہانی ٢٠٠٨ء میں جارجیاکی جنگ سے شروع ہوئی اورروسی
فوج نے مغرب کے حمائت یافتہ صدرمیخائل ساکاش ولی کی فوجوں کوشکست سے دوچار
کرکے ''انجازیہ''اور''جنوبی اوسیشیا''کی ریاستیں دوبارہ اپنے کنٹرول میں لے
لیں۔اس پانچ دن کی مہم میں فتح کے نتیجے میں روس نے نہ صرف نیٹوکے سابقہ
سوویت ریاستوں کی جانب پھیلاؤکے آگے بندباندھ دیاجس سے مغربی افواج کی خطے
میں مداخلت کی حدودمتعین کرکے اپنے مغربی اور جنوبی پڑوس میں تزویراتی سبقت
بھی حاصل کرلی۔انجازیہ اورجنوبی اوسیشیا کوزیرنگیں کرنے سے جنوبی تفتاز کے
دواہم علاقوں بشمول سوچی پربھی روس کاکنٹرول بڑھ گیا جہاں اب روسی صدرکی
جنوبی رہائش گاہ ہے اوریہ علاقہ روس کاتیسرا غیرسرکاری دارلحکومت کہلاتاہے۔
آنے والی تبدیلیوں کے ساتھ روس کی دفاعی صنعت نے فوج کوجدیداسلحہ اورآلات
سے لیس کرنے کے کام کاآغازکردیا ہے۔قریباًدودہائیوں کے بعداب کریملن نے بڑی
مشقوں کیلئے بجٹ بحال کردیاہے اوراب اب روسی فوج کی تنخواہیں بھی پرکشش
کردی گئیں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اب روسی فوج بغیرکسی پیشگی اجازت کے بڑے
پیمانے پرجنگی مشقیں بھی کر رہی ہے تاکہ اس کی جنگی صلاحیتوں میں اضافہ ہو۔
جارجیاکی جنگ کے صرف پانچ سال بعدیوکرائن کا تنازعہ کھڑاہواتو روسی فوج
جارجیاکی جنگ میں حصہ لینے والی کمزور،دل شکستہ اورغیرمنظم فوج سے کئی گنا
بہترحالت میں تھی ۔
روسی فوج نے جزیرہ نماکریمیاپرنہائت مہارت سے قبضہ کیااوراس آپریشن کے
دوران جانی نقصان بھی نہ ہونے کے برابررہا۔اس علاقے پرقبضے کے منصوبے تواس
وقت سے بنناشروع ہوگئے تھے جب یوکرائن نے٢٠٠٨ء میں نیٹومیں شمولیت کیلئے
دلچسپی کااظہارکیاتھالیکن اس منصوبے کوپایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے روسی
فوج اورایجنسیوں میں ہم آہنگی درکارتھی۔اس کے ساتھ ساتھ مورال
کابلندہونابھی لازم تھا۔
کریمیامیں ہونے والاآپریشن ایک مکمل جنگ نہیں تھی۔اصل جنگ توکچھ ہفتے
بعد"دنباس" میں لڑی گئی۔ماسکونے اپنی فوج مشرقی یوکرائن میں سرحدپار اتارنے
کی بجائے کیف کو دہمکی دیکرہی کام چلالیااوریورپ کی مشہوراصطلاح ''ہائبرڈ
وارفیئر''کی شاطرانہ چال کاستعمال کرتے ہوئے دنباس میں روس نواز علیحدگی
پسندوں کو خفیہ اورلاجسٹک مددفراہم کرنے کے ساتھ ساتھ یوکرائن کی
سرحدپرفوجی مشقوں کاآغازکردیاتاکہ کیف کو پریشانی میں مبتلارکھا جائے۔
ماسکونے حاضر سروس فوجی بھی مشرقی یوکرائن بھیجے جوظاہری طورپر رخصت پرتھے
لیکن یوکرائن میں لڑنے والے زیادہ تراہلکاروں پر مشتمل تھے جس نے سلسلہ
وارآپریشن کیا۔
عین اس وقت جب یوکرائن میں روسی کاروائی جاری تھی ماسکونے نیٹوممالک
کوخبردارکیاکہ وہ اس تنازعے سے دوررہیں ورنہ وہ بھی اس کی لپیٹ میں آ سکتے
ہیں۔روسی جنگی طیاروں نے (جو۲۰۰۷ءسے سردجنگ کے زمانے کی طرزپر گشت کرچکے
تھے)امریکا،برطانیہ،چنداسکینڈیے نیوین ممالک اور مغربی یورپ میں بحیرۂ
اسوداوربحیرہ بالٹک کے قرب وجوار میں پروازیں کیں۔ بعدمیں پیوٹن نے اس بات
کااعتراف بھی کیا کہ ہم ایک موقع پریوکرائن میں اپنے مفادات کادفاع کرنے
کیلئے ایٹمی فوج کوبھی تیاررہنے کاحکم دینے پرغورکیا تھا ۔یوکرائن کی اس
جنگ میں کامیابی کے باوجود روسی فوج صرف سابقہ سوویت یونین کی حدودمیں پیش
قدمی کرنے والی روایت پرقائم رہی، لیکن پچھلے سال شام کی خانہ جنگی میں
کودکرروس اس تاثرکو بدلنے میں کامیاب ہوگیا۔ماسکونے چنددرجن لڑاکاطیاروں
کوداعش اوربشارالاسد مخالف قوتوں کےٹھکانوں پرحملہ کاحکم دیا۔شام میں
جدیددفاعی نظام قائم کیا، وسطی روس کے فضائی اڈے سے بمبارطیاروں کوشام میں
بمباری کی اجازت دی اورسمندری فوج کوحکم دیاکہ وہ بحیرہ روم سے شامی اہداف
پرمیزائل برسائے۔ اسی طرح سوویت یونین کے خاتمے کے بعدسے اب تک دنیا بھر
میں کہیں بھی فوج کے استعمال کرنے کے حوالے سے امریکاکی جو اجارہ داری قائم
تھی ،اس کابھی خاتمہ کردیا۔
عالمی سطح پرجوگریٹ گیم اس وقت جاری ہے۔امریکااس کاپردھان بنابیٹھاہے جبکہ
بھارت امریکی بغل بچے کے طورپراستعماری عزائم کی تکمیل میں اپنا حصہ ڈالنے
کی فکرمیں ہے۔امریکااپنے مذموم عزائم کیلئے اپنے بھارتی غلام کی پیٹھ
تھپکتارہتاہے۔امریکااوربھارت دونوں کے استعماری عزائم انہیں عالمی
طورپرمسلمہ انسانی حقوق سے آنکھیں بندرکھنے پرمجبور کیے ہوئے ہیں۔جب روس
واضح طورپراس گریٹ گیم میں ایک طاقتورفریق کی حیثیت سے شامل ہو چکاہے
توبھارت اس سابق عالمی سپرپاورکادم چھلابننے کی کوشش میں ہے مگر یہ بات
قابل فہم ہے کہ مودی روس پاک تعلقات بہترہونے پرکیوں سیخ پا ہے؟
اس خیال کواس خبرسے تقویت ملتی ہے کہ غربت کے خلاف جنگ کاراگ الاپنے والی
مودی سرکارروس سے سامانِ جنگ ہتھیانے کے ساتھ ساتھ فی الحقیقت جنگی جنون
میں مبتلاہے اوراس جنون میں بھارت ہرگزرتے دن کے ساتھ آگے بڑھتاجارہاہے جس
کانیاثبوت یہ ہے کہ اس نے روس سے دیناکاسب سے جدیدمیزائل ڈیفنس سسٹم خریدنے
کافیصلہ کیاہے ۔اس سسٹم کوایس۴۰۰یاٹر سپف(فتح) کا نام دیاگیاہے۔روس نے اسے
حال ہی میں شام میں آزمایاہے اور اب حال ہی میں دونوں ملکوں کے سربراہوں نے
گوامیں اس معاہدے پردستخط کئے ہیں جوبھارت کے جنگی جنون اور امن عالم کے
ایک اوربڑی تباہی کا سامان ثابت ہوگی لیکن مودی اس وقت پھرمات کھاگیاجب
ٹرمپ کی حالیہ دہمکی آمیزرویے پرروس نے کھل کرپاکستان کی حمائت کااعلان
کردیا۔ |