پاکستان کی تاریخ میں بہت سے نازک موڑ آئے اور اس قوم پر
مصیبت کے کئی ایک پہاڑ ٹوٹے مگر اس قوم نے ہر مشکل مرحلے پر ہمت اور صبر سے
کام لیا۔دشمن ملکوں سے جنگیں لڑیں71میں اپنا ایک بازو کٹ جانے پر صبر
کیا۔بار بار کے مارشل لاز کو برداشت کیا۔جمہوریت کے لیے قربانیاں
دیں۔پراکسی وار کے نتیجے میں ہونے والی فرقہ واریت کا ڈٹ کر مقابلہ
کیا۔دہشت گردی کے خلاف ایک طویل جنگ لڑی اور اس کے نتیجے میں ہزاروں جانیں
قربان کیں۔غیر ملکی ڈرون حملوں پر صبر کیا۔ یہ قوم بیرونی جارحیت اور
سازشوں پر ہمیشہ ثابت قدم رہی۔ ہمیشہ اپنے حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں اور
کمزور حکمتِ عملی کی قیمت ادا کی۔بدعنوان اور نااہل حکمرانوں کی بدولت
بیرونی دنیا میں ندامت اور شرمندگی برداشت کی۔الغرض ہر مشکل اور کٹھن لمحے
میں یہ قوم ایک قدم آگے کی طرف ہی بڑھی ہے۔اس نے ہر طرح کے نامسائد حالات
میں بھی نہ صرف اپنے وجود کو برقرار رکھا بلکہ اپنے وطن کی سالمیت کوبھی
یقینی بنائے رکھا۔
آج پاکستانی قوم ایک اور بڑے بحران کا سامنا کر رہی ہے۔یہ بحران اس کے لیے
کسی دشمن نے نہیں پیدا کیا بلکہ اس کے اپنے ہی لیڈر کا پیدا کردہ ہے۔سپریم
کورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو ایک مقدمے میں نااہل قرار دے کر ڈی
سیٹ کر دیا۔نواز شریف نے اس فیصلے کو قبول نہیں کیا۔انہوں نے مجھے کیوں
نکالا گیا کا ایسا نعرہ بلند کیا جو اب محض ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔
انہوں نے اپنے خاندان اور جماعت کے اراکان کو عدلیہ کے خلاف مہم جوئی پر
لگا دیا ہے۔سابق نااہل وزیر اعظم نے عوام کو عدلیہ کے خلاف بھڑکانے کی بھی
کوشش کی ہے۔اب ان کی جماعت فوج کے خلاف بھی صف آراء ہے۔گزشتہ دنوں اسلام
آباد میں احتساب عدالت کے باہر رینجرز کی تعیناتی پر وزیر داخلہ نے جس طرح
ردِ عمل کا اظہار کیا اس سے سازش کی بو محسوس ہوتی ہے۔عالمی سطح پر بھی
پاکستان کے وقار کو نقصان پہنچانے کے لیے مسلم لیگ ن متحرک ہے۔وزیر خارجہ
خواجہ آصف جس بیانیے کی تشریح عالمی سطح پر کر رہے ہیں وہ ریاست اور اس کے
اداروں کی پالیسی نہیں ہے۔امریکہ پاکستان کے خلاف فوجی کاروائی کی دھمکی دے
چکا ہے۔اس نازک مرحلہ پر وزیر خارجہ اعتراف کر رہے ہیں کہ پاکستانی ریاست
کے اندر نا پسندیدہ عناصر نہ صرف موجود ہیں بلکہ محفوظ بھی ہیں۔جبکہ دوسری
جانب پاکستانی فوج کے سربراہ اور ترجمان ہر طرح سے دنیا کو باور کروانے کی
کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستانی ریاست میں ایسا کچھ نہیں ہے۔فوج دعویٰ کرتی ہے
کہ اس نے نہ صرف شمالی علاقوں بلکہ ملک بھر میں سے دہشت گردوں کے ٹھکانوں
کو ختم کر دیا ہے۔عالمی منظر نامے میں یہ سول ملٹری تضاد پاکستانی ریاست
اور قوم کے لیے انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے۔
مسلم لیگ ن اپنے لیڈر کے نااہل ہونے کا بدلہ اس ملک اور اس کے عوام سے لینے
کے درپے ہے۔موجودہ وفاقی حکومت کی تمام تر توجہ ریاستی اداروں کے ساتھ دست
و گریباں ہونے پر مرکوز ہے۔ان کی پالیسی اداروں کے ساتھ ٹکراؤ کی ہے۔وہ
عدلیہ اور فوج کے ساتھ محاذ آرائی چاہتے ہیں۔ اس نازک مرحلہ پر اداروں کے
درمیان محاذ آرائی ملک کو کسی بڑے سانحہ سے دوچار کر سکتی ہے۔ وزیر اعظم
خاقان عباسی کی حکومت دانستہ عوامی مسائل پر توجہ نہیں دے رہی۔اس نے
معاملات پر دانستہ گرفت ڈھیلی کر رکھی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اب ملکی مسائل میں
تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔مہنگائی اپنے عروج پر ہے۔پولیس امن قائم کرنے میں
ناکام ہے۔جرائم کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔کاروباری سرگرمیاں
متاثر ہو رہی ہیں ۔مسلم لیگ ن نے تہیہ کر رکھا ہے کہ اس نے عدلیہ اور قانون
کا احترام نہیں کرنا ہے۔لاہور ہائی کورٹ جسٹس باقر نجفی رپورٹ شائع کرنے کا
حکم دے چکی ہے مگرپنجاب حکومت اب حیلے بہانے تلاش کر رہی ہے۔ماڈل ٹاؤن کے
شہدا آج بھی انصاف کے منتظر ہیں۔
اس نازک مرحلہ پر اس قوم پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کسی ایسی
آواز پر لبیک نہ کہے جو ریاستی اداروں کے درمیان ٹکراؤ کا سبب بنے۔انہیں
کسی جماعت کی بجائے ملک کے ساتھ وفاداری کاثبوت دینا ہو گا۔اس قوم نے ماضی
میں بھی ہر طرح کی سازش کا بڑی صبر اور ہمت سے مقابلہ کیا ہے اور وہ ان
حالات میں بھی انتہائی بردباری کے ساتھ اپنی ریاست کے ساتھ کھڑے ہیں۔نااہل
لیڈر انہیں بار بار پکار رہے ہیں مگر عوام دھیرے دھیرے ان سے دور ہو رہے
ہیں۔ پاکستانی قوم ایک با ہمت قوم ہے وہ آج بھی اپنے اتحاد اور عزم کی
بدولت ہر قسم کی سازش کو ناکام بنا سکتی ہے۔
|