آمریت کے دلال

جب کبھی جمہوریت کو خون کے آنسو روتے دیکھاگیا۔تو ان لوگوں کی یاد آئی جو جمہوریت کے نام لیوا تھے۔جو اس کی توقیر کی قسمیں کھاتے تھے۔اور اس کی بقا کی جنگ لڑنے کے دعوے دار تھے۔ان کی قسمیں کام آئیں۔نہ ہی ان کے دعوے سچ نکلے ۔جمہوریت رسو اہوئی او ربے نام کردی گئی۔پھر خیال آتاہے کہ ان لوگوں سے گلہ کیسا شکایت کیسی ۔ان کی تعدار جمہوریت کو تماشہ بنانے والوں کے مقابلے میں تھی ہی کتنی ۔اگر موازنہ کیا جائے تو وہ پانچ سے د س فیصد لوگ ہونگے جو جمہوریت کی روح کے متلاشی ہیں۔جو اس کو بعینہ نافذکروانے کے متمنی ہیں۔ا ن کی قلیل تعداد کے مقابلے پر ان لوگوں کو واضح اکثریت ہے۔جو علی الاعلان آمریت کی دلالی کرتے ہیں۔یہ اس قدر آمریت نواز ہوچکے کہ کہیں سے بھی آمریت کی طرف کوئی ہاتھ بڑھتا دیکھیں تو مشتعل ہوجاتے ہیں۔یہ ہاتھ کاٹنے کے لیے وہ آخری حد تک جانے کی کوشش کرتے ہیں۔خدام آمریت اس دن پوری طرح متحرک تھے جب نوازشریف صاحب 10 ستمبر 2007 کو وطن واپس آرہے تھے۔ ایک دنیا ان کا راستہ روکنے کے لیے سرگرم کی گئی۔سابق وزیراعظم کو ان دنوں سب سے بڑی آس یا تو پاکستان کے اندر عدلیہ پر تھی۔یاپھرپاکستان سے باہر سعودی حکمرانوں پر بد قسمتی سے دونوں جگہ کی آس پوری نہ ہوسکی۔پاکستانی عدلیہ ہمیشہ کے لیے اپنے اختیارات صرف کاغذی رہ جانے کے سبب ناکام ہوئی۔جو آئین عدلیہ کے احکامات کی بجا آوری کرواتاہے۔ایک آمرکی سٹک کے ڈر سے خامو ش رہا۔جہاں تک سعودی حکمرانوں کی بات ہے۔وہ بھی حاضرموقع طاقت کو سیلوٹ کرنے والے نکلے۔نواز شریف صاحب امید کررہے تھے کہ دس سالہ معاہدے کی حقیقت کو جانتے ہوئے سعودی حکمران پانچ سالہ زبانی اقرار نامے کے ضامن ثابت ہونگے۔مگر ایسا نہ ہوسکا۔دونوں طرف کی آس ٹوٹ جانے کے سبب نوازشریف کودوبارہ جلاوطن ہوناپڑا۔اس دن ایک آمر کا جس آخری حد تک دفاع کیا گیا۔وہ آمریت کی ایک مضبوط تنظیم کی نشاندہی کرتی ہے۔

شیخ رشید صاحب ان دنوں نوازشریف کا نام سن کر آپے سے باہر ہوجاتے ہیں۔یہ نام ان دنوں شیخ صاحب کے لیے سب سے زیادہ چھیڑ بنا ہواہے۔شیخ صاحب غالبانوازشریف کو غیر اہم او ربے کارقسم کی کوئی شے قرار دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔مگر ان کی بد قسمتی کہ نوازشریف ان دنوں جتنا کوئی دبائے گا ۔اتناہی میں ابھروں گا کی تفسیر بن کر سامنے آئے۔شیخ صاحب کا تازہ ترین واویلہ ان خبروں سے متعلق ہے جو حکومت کی طر ف سے جرنیلوں اور ججوں کو احتسابی دائرہ کار میں لانے کی قانون سازی سے متعلق ہیں۔ اس طرح کی باتیں سن کرشیخ صاحب کی تلملاہٹ دیکھنے والی ہوتی ہے۔فرماتے ہیں کہ دو ہی ادارے بچے تھے۔اب ان کا بھی بیڑا غرق کرنے کے خواب دیکھے جارہے ہیں۔یہ لوگ اس مذموم کوشش میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے ۔کیا پد ی اورکیا پدی کا شوربہ۔یہ لوگ اب فوج کے اندر تعیناتیاں کریں گے۔میں پیشن گوئی کرتاہوں کہ اگلے ایک سو بیس دنوں تک ان کا کریا کرم ہونے جارہاہے۔

شیخ صاحب کچھ بھی کہتے رہیں۔پشین گوئیاں کرتے رہیں۔مگر حقیقت تو یہ ہے کہ نواز شریف کو ایک ایک کر کے وہ سارے حقوق ملتے چلے جارہے ہیں۔جو شیخ صاحب اور ان کے ہمنواؤں کی ڈوریاں ہلانے والوں نے غصب کروائے تھے۔وہ اب تاحیات نااہلی سے محفوظ ہیں۔وہ اپنی پارٹی کے صدر ہیں۔اور اسی عہدے کے تحت وہ اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھ سکتے ہیں۔شیخ صاحب ان حقوق کی بحالی پر جتنامرضی تلملا لیں مگرجب تک نوازشریف ھق پر ہیں ۔قدرت اپنے غیب سے ان کے خلاف سازشیں ناکام بناتی رہے گی۔سازشیوں کے چہرے گرد آلود ہوتے رہیں گے۔او روہ تلملاتے رہیں گے۔محترمہ نفیسہ شاہ نے فرمایا ہے کہ نوازشریف کو سننے تو سب کے سب اکٹھے ہوگئے ۔مگر اسمبلی مین آنا ان کے لیے مشکل ہوتاہے۔یقیناًنوازشریف نے جب اپنی صدارت سنبھالنے اور اس کے ایک دن بعد بھی جو سپیچ دی ۔اسے سننے والوں کا جم غفیر تھا۔چوہدر ی نثار سے لیکر شہبازشریف تک سبھی موجود تھے۔نوازشریف کی وا ہ واہ ہورہی تھی۔ان سے قربت کا اظہار کیا جارہاتھا۔پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں یہ گہما گہمی نظر نہیں آتی مگر اس کے لیے بھی معقول جوازموجود ہے۔نوازشریف ایک تاریخ ساز نام ہے۔ایسا نام جس کے آگے سبھی نام غیر اہم ہوجائیں۔تلملانے والوں کو نوازشریف وہ سورج دکھائی دیتاہے۔جس کے آگے ان کے ناموں کے چھوٹے چھوٹے دیے بے کار پڑ جاتے ہوں۔تلملانے والوں کو اصل غصہ یہ ہے کہ نوازشریف نے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا راستہ چناہے۔ان کے حقو ق جس اندازسے غصب کروائے گئے تھے۔ حقوق کی بحالی بھی اسی راستے سے کروائی گئی۔کل کو حقوق چھیننے والے قانون کاپیٹ بھرنے میں کامیاب رہے تھے۔آج نوازشریف کو واپس لانے والے بھی قانون کا پیٹ بھرنے میں کامیاب رہے۔

جمہوریت کو اپنے وجود کی بقا کا مسئلہ درپیش ہے۔اسے بچانے کی خواہش رکھنے والے تو انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔مگر اس کے مخالفین کا شمار ممکن نہیں۔بد قسمتی تو یہ ہے کہ آمریت کے حمایتوں کی تعدا د تو بڑھتی رہتی ہے ۔مگر جمہوریت کا دفاع کرنے والے نہیں بڑھ پارہے۔یہ لکیر کے اس پار کھسکتے چلے جارہے ہیں۔آج بے شمار ایسے لوگ بھی آمریت کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں جو کل تک جمہوریت کے چیمپئن بنے پھرتے تھے۔جماعت اسلامی او ر پی پی اس کی مثالیں ہیں۔یہ دونوں جماعتیں اب سیکورٹی اداروں کے دفاع کے لیے پیش پیش نظر آرہی ہیں۔دونوں جماعتوں کے رویے میں یہ تبدیلی ریاست کی بھلائی سے زیادہ اپنی سیاسی مجبوریوں سے جڑی ہوئی ہے۔نوازشریف جو اس وقت غیر جمہوری قوتوں کی آنکھ کا شہتر بنے ہوئے ہیں۔ان دونوں جماعتوں کی سیاسی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔اگر نوازشریف سیاسی طور پر اتنے سٹرونگ نہ ہوتے تو یہ جماعتیں ہرگز ہرگز ان کی اینٹی اسٹیبلشنٹ سیاست کی مخالفت نہ کرتیں۔ ا نکی مخالفت کا اصل سبب نوازشریف کی مقبولیت ہے۔قانون اور آئین کی عملدار ی ہی ہماری ترقی اور بقا کی ضامن ہے۔قانون۔اور آئین اداروں اور افراد کے حقوق اور فرائض کا تعین کرتے ہیں۔شیخ رشید صاحب تلملا رہے ہیں کہ اب فوجیوں کی تعیناتی بھی سیاسی لوگ کریں گے ۔تو شیخ صاحب ایسا ہی ہوگا۔دنیا بھر میں ایسا ہی ہورہاہے۔اگر کچھ جرنیل او رکچھ ججز ایساہونے کے مخالف ہیں تو ا ن کے لیے پاکستان میں کوئی گنجائش نہیں ۔ان کے دلالوں کوبھی اپنا بوریا بستر سمیٹنا ہوگا۔پاکستان میں دھونس اور جبر کی کوئی جگہ نہیں ۔یہاں اصولوں ۔قوانین اور ضابطوں کا راج ہوگا۔

Ajmad Siddique
About the Author: Ajmad Siddique Read More Articles by Ajmad Siddique: 222 Articles with 141086 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.