بسم اﷲ الرحمن الرحیم
بھارتی آئین کی دفعہ35Aمیں ریاست جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت اوراس ریاست
کے شہریوں کے حقوق کاتعین کیاگیاہے۔بیسویں صدی کے آغاز تک یہ ایک موروثی
ریاست تھی اور اس کے باشندے تاج برطانیہ کے عوام کی بجائے ریاست کے شہری
گردانے جاتے تھے۔سیاسی شعورکے بعدریاست کے راجہ،مہاراجہ ہری سنگھ نے 1927ء
میں ایک قانون کے تحت ریاست اور شہریوں کے درمیان حقوق وفرائض کاتعین
کیا،اور اس بات کی قانونی وضاحت بھی کردی ریاست کے شہری حقوق صرف ریاست کے
باشندوں کوہی حاصل ہوں گے اور کوئی باہرسے آنے والاان حقوق کے حصول کاحق
دار نہیں ہوگا۔26اکتوبر1947ء کوراجہ نے اپنی ریاست کے تین شعبے مرکزکو دینے
کے عوض ریاست جموں و کشمیرکا حکومت دہلی سے الحاق کر لیا۔یہ تین شعبے
دفاع،امورخارجہ اور صیغہ مواصلات تھے۔ان شعبوں کے علاوہ باقی جملہ معاملات
میں انتظامی،آئینی اورقانونی طور پر یہ ریاست کلیۃ آزاد تھی۔بعد میں 1949ء
میں شیخ عبداﷲاور پنڈت جواہرلعل نہرو کے درمیان مزاکرات کے نتیجے میں
بھارتی آئین میں دفعہ370شامل کرلی گئی،جس میں مذکورہ تین شعبوں کے علاوہ
ریاست کی آزادانہ حیثیت کو تسلیم کرلیاگیا۔26جنوری1950ء میں ایک آئینی حکم
نامے کے ذریعے ریاستی خودمختاری کی مزید وضاحت بھی کردی گئی کہ ریاستی
اسمبلی کویہ اختیاربھی حاصل ہے کہ وہ بھارتی آئین کے کسی قانون کوچاہے
توریاست میں نافذہونے دے اور چاہے تو ریاست کی حدودمیں بھارتی قانون
کونافذہونے سے روک دے۔
14مئی1954کوایک اور صدارتی حکم نامے کے ذریعے دفعہ35Aکو بھی بھارتی آئین
کاحصہ بنادیاگیا۔اس دفعہ میں ریاست کے ’’مستقل شہری‘‘کی تعریف کی گئی اور
شہریوں کے آئینی حقوق بھی متعین کردیے گئے۔اس کے بعد 1956ء میں ریاست جموں
وکشمیر کاآئین منظورہوا،جس میں 1911ء سے ریاست میں موجو لوگوں کوریاست
کامستقل شہری تسلیم کیاگیا۔اس تعریف کے مطابق14مئی 1954کوجو شخص ریاست
کاشہری تھایاجوشخص باقائدہ شہری تونہ تھالیکن گزشتہ دس سالوں میں ریاست میں
مقیم تھا اورکسی غیرمنقولہ جانئدادکامالک بھی تھااسے بھی اس ریاست کاآئینی
و قانونی شہری تسلیم کیاگیا۔ان کے علاوہ جو لوگ باہرسے ریاست کی حدود میں
وارد ہوئے اور ریاست میں رہائش پزیرہیں انہیں ریاست کے شہریوں کے حقوق حاصل
نہیں ہوں گے،ایسے لوگ ریاست میں کوئی جائداد بھی نہیں خرید سکیں گے،ایسے
لوگ ریاست کی سرکاری نوکری کے لیے بھی نااہل ہوں گے،انہیں سرکاری وظائف
یامشاہیربھی نہیں مل سکیں گے اوروہ ریاست میں مستقل سکونت بھی اختیارنہیں
کرپائیں گے۔اس قانون کے مطابق ریاست کی خواتین اگرکسی غیرشہری سے شادی
کرلیں توایسی خواتین کی شہریت یاشہری حقوق بھی معطل ہوجائیں گے۔لیکن
اکتوبر2002میں جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے اس قانون میں اتنی ترمیم کردی کہ
خواتین تواپنے شہری حقوق سے محروم نہیں ہوں گی لیکن ایسی خواتین کی اولاد
کو ریاست جموں و کشمیرکے شہری حقوق میسرنہیں آسکیں گے۔
بھارتی حکمرانوں نے کشمیرکو قوت سے فتح کرنے کے لیے گزشتہ صدی کے وسط سے
جوظلم وستم کی چکی چلا رکھی ہے اس سے ابھی تک کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔بلکہ
کشمیر میں بھارتی فوج کی شہریوں کے خلاف مسلسل ظالمانہ کاروائیوں سے پوری
دنیامیں دہلی سرکار کی بے انتہا سبکی ہوتی چلی آرہی ہے۔برہمن راج نے قابض
بھارتی فوج کے ذریعے جس تحریک حریت کو طاقت کے زورسے دبانا چاہا وہ پہلے سے
کہیں زیادہ شدت کے ساتھ جاگ اٹھی ہے۔آئے روز جوان لاشے گرائے جاتے
ہیں،خواتین کی بے حرمتی کی جاتی جاتی ہے،چادراورچاردیواری کی تقدیس صبح و
شام پائمال ہوتی ہے جبکہ گم شدہ نوجوانوں کی ایک لمبی فہرست ہے جن کے اہل
خانہ کی آنکھیں اپنے لخت جگرکے انتظارمیں پتھراگئی ہیں اورسیکولرازم کے اس
دوراقتدارمیں کسی عدالت،کسی انتظامی ادارے یاکسی حکومتی ایوان میں ان کی
کوئی شنوائی نہیں۔کشمیری نوجوانوں کے لیے برہمن سیکولرازم نے ملکی تعلیمی
اداروں کے دروازے بھی بندکررکھے ہیں۔ایک ایک کشمیری راہنمائے آزادی کے
پیچھے خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کی فوج ظفرموج لگی رہتی ہے،ان کے ٹیلی فون
ٹیپ کیے جاتے ہیں،انہیں آئے روز نظربندکردیاجاتاہے،ان پر سفری پابندیاں
لگادی جاتی ہیں،بیرون ملک سفرکی اجازت کاجمہوری حق ان سے چھین لیاجاتاہے
اورنام نہادجمہوری نظام میں انہیں اپنا موقف تک بیان کرناجان جوکھوں میں
ڈالنے کے برابرکردیاگیاہے۔اس سب کے باوجود جب نتائج درجہ بدرجہ ناکامی کے
طرف گرتے چلے جارہے ہیں توبھارتی حکومت نے اب ریاست جموں و کشمیر کی آئینی
حیثیت سے چھیڑ چھاڑ شروع کر دی ہے۔
بھارتی آئین کی دفعہ35Aجس میں ریاست جموں و کشمیرکے آئئینی و قانونی حقوق
کا تحفظ کیاگیاہے،اب بادی النظرمیں مودی حکومت اس قانونی تحفظ کے درپے
ہے۔ظالمانہ فوجی کاروائیوں اور انسانی حقوق کی بے انتہاپامالیوں کے بعد اب
برہمن سامراج نے بچے کھچے آئینی تحفظ کو بھی شکار کرلینا چاہاہے۔ظاہر ہے اس
راستے سے سے بھارتی حکومت مظلوم و محکوم کشمیریوں کے ساتھ وہ کچھ کرے گی جو
اب تک نہیں کر سکی،اور ظلم کے جو پہاڑ ابھی تک وادی میں نہیں گرائے جا سکے
انہیں بھی اپنے مذموم مقاصد کے لیے گراکر ظلم و ستم کی نئی داستان رقم کر
دی جائے گی ۔اس مکروہ مقصد کے حصول کے لیے ایک کٹھ پتلی این جی اوکے ذریعے
2014ء میں بھاری سپریم کورٹ میں ایک آئینی درخوااست دائر کی گئی ہے۔اس
درخواست میں دفعہ35Aکو ختم کرنے کے استدعاہے۔بھارتی سپریم کورٹ اس معاملے
میں کیا فیصلہ دے گی؟؟اس معاملے میں کسی طرح کی خوش فہمی میں رہنا احمقوں
کی جنت میں رہنا ہوگا۔سیکولرازم کی عدالتوں سے تاریخ اسلام کی عدالتوں جیسے
عدل و انصاف کی توقع رکھنے والے محض بہروپیے ہی ہوسکتے ہیں،کسی سنجیدہ،پڑھے
لکھے اور آزادفکر کاآدمی ایسی بے ہودہ سوچ کاحامل کبھی بھی نہیں
ہوسکتا۔کشمیرکے معاملے میں اس سے قبل بھی بھارتی عدلیہ کے فیصلوں میں جس
جانبداری کو ملحوظ خاطر رکھاگیاوہ زبان زدعام و خاص ہیں۔سیکولرازم کی
عدالتیں امریکہ اور یورپ میں ہوں یاایشیائی ممالک میں،ان کے فیصلوں سے
انسانی خون ہی ٹپکتارہاہے اور آئندہ بھی میدان جنگ کے مظالم سے انسانی
معاشرتی غیرہمواریوں کو عدالتی و قانونی تحفظ دینے کیے صرف سیکولرازم کی
اصطلاح ہی کافی ہے۔اب جب کہ اس سیکولرازم کو برہمن استعمارکاتحفظ بھی حاصل
ہوجائے تو عدالتی قتل و غارت گری کاتو گویا بہت بڑادروازہ ہی کھل گیا۔
سوال یہ ہے کہ کیا کشمیری قیادت ایسا کرنے دے گی؟؟اس کاسادہ ساجواب تویہ ہی
ہے کہ بھارت کے خلاف نفرت سے بھری ہوئی جس کشمیری عوام نے بھارتی آئین
اوراس کے تحت بوگس وجعلی انتخابات اور اس کے نتیجے میں مصنوعی قیادت کوہی
قبول نہیں کیا،اس کے لیے بھارتی آئین کی کسی دفعہ کااقراریاانکار کوئی معنی
نہیں رکھتا۔اب تک قابض بھارتی فوج نے کشمیریوں کے ساتھ جو غیرانسانی سلوک
روارکھاہے سیکولرعدالتوں کے علاوہ دنیاکے کسی اخلاق و قانون میں اس کی
گنجائش موجودنہیں ہے۔لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ کشمیر کی کٹھ پتلی بھارت
نواز قیادت بھی اس اپنے آئینی دفاع کے لیے بھارتی حکومت کے خلاف خم ٹھونک
کرکھڑی ہوگئی ہے۔بھارتی ٹیلی ویژن’’زی نیوز‘‘کے مطابق محبوبہ مفتی ،کشمیری
سیاسی خاتون راہنما،نے واضع طورپر اور دوٹوک اندازمیں اعلان کیاہے کہ اگر
ریاست جموں وکشمیر کی آئینی حیثیت کے ساتھ کوئی چھیڑچھاڑ ہوتی ہے تو وادی
میں بھارتی ترنگے کو اٹھانے والا کوئی نہیں ہوگا۔محبوبہ مفتی نے دفعہ 35Aکے
خلاف عدالت میں دائرکی گئی درخواست کے پس منظر میں اتنا سخت بیان
دیاہے۔محبوبہ مفتی اور دیگرکشمیری قیادت کاکہناہے کہ دہلی سرکاراب وہ کچھ
بھی چھینناچاہتی ہے جو کشمیریوں کے پاس بچ گیاہے۔
تقسیم ہند سے آج تک،ہندوستانی سب حکومتوں میں طرح طرح کے حربے کشمیرمیں
آزمالیے۔قیادت کو خریدنے کی کوشش کی گئی،عوام کو جھوٹے پروپیگنڈے سے گمراہ
کرنے کی سعی کی گئی،مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خلاف نفرت
انگیزمواد کی تقسیم و ترسیل کی مذموم حرکتیں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں
اور بھارتی خفیہ اداروں کے بھیجے ہوئے افرادسے میڈیامیں جھوٹ پر جھوٹ
بلوایاگیالیکن ان سب اقدامات کا کوئی بھارت نواز نتیجہ نہ نکل سکا۔حقیقت
یہی ہے کشمیریوں سمیت کل ہندوستانی وعالمی مسلمانوں اور پاکستانیوں کے
درمیان لاالہ الااﷲمحمدالرسول اﷲکا کبھی نہ ٹوٹنے والا رشتہ موجود ہے۔کل
کشمیری عوام چودہ اگست کو پاکستانی یوم آزادی مناتے ہیں اور پاکستانی
سبزہلالی پرچم لہراتے ہیں جبکہ پندرہ اگست جوبھارتی یوم آزادی ہے یہ دن
کشمیریوں کے لیے یوم سیاہ ہوتاہے۔برہمن سرکاراب تک جو بھی کرسکی ہے اس نے
کیا،اب 35Aکے ساتھ بھی چھیڑچھاڑکر کے دیکھ لے ،نتیجہ وہی نکلے گاجواس سے
پہلے وقت کے دھارے نے نتیجے نکالے،یعنی تحریک آزادی کشمیرکی
مہمیزمزید۔کشمیریوں کا یہ عزم پختہ ہے کہ وہ الحاق پاکستان سے کم کسی قیمت
پر راضی نہیں ہوں گے اور پاکستان اگرسمجھتاہے کہ عالمی برادری،امن
مزاکرات،اقوام متحدہ کی قراردادیں،کشمیرمیں بھارتی انتظامیہ کے تحت ریفرنڈم
یاکسی اور غیرپاکستانی ذریعے سے مسئلہ کشمیرحل ہوجائے گاتوایسانہ کبھی
تاریخ انسانی میں واقع ہواہے اور نہ ہی تاقیامت کبھی ہوگاکہ عالمی مسائل
بغیرقوت کے حل ہوسکیں۔یہ نوشتہ دیوارہے کہ کشمیرقراردادمذمت سے نہیں بلکہ
برہمن کی مرمت سے ہی آزادہوگا۔کشمیری تویہ کام کرہی رہے ہیں دیکھیں پاکستان
کب یہ فرض منصبی اداکرتاہے؟؟؟ |