ڈوگر کورٹ کی بازگشت

کہتے ہیں صدیوں کی بنی روایتوں کو دنوں میں ختم نہیں کیا جاسکتا۔صدیاں نہ سہی مگر ان کے اثرات دور کرنے میں مہینے اور برس تو ضرور لگ جاتے ہیں۔اول اول تو لوگ ان روایتوں کے ختم ہونے کا تصور ہی نہیں کرتے۔پھر کچھ جنونی لوگ روایت شکنی کا آغاز کرتے ہیں۔ان کو دیکھ کرکئی دوسرے بھی بغاوت پر تیار ہوجاتے ہیں۔ذہن تیار ہونے اور انہیں سرگرم کرنے میں مہینوں لگ جاتے ہیں۔مکمل بغاوت برسوں کی محنت کے بعد جا کے مکمل ہوتی ہے۔جب وہ دن آتاہے تو ذہن یکسر بدل چکے ہوتے ہیں ۔ان روایتوں پر مدتوں سے کاربند لوگ بھی اپنی حماقت پر شرمندہ ہوتے ہیں۔انہیں حیرت ہوتی ہے کہ وہ اس قدر کم ہمت کیوں کر ہوگئے کہ ایک لعنت کو مدتوں خو د سے چموڑے رکھا۔نوازشریف قدم قدم پر روایت شکن ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔جب عدلیہ بحالی کے لانگ مارچ کے لیے اپنی ماڈل ٹاؤن کی رہائش گاہ سے نکلے تو دوسروں کی طرح شاید انہیں بھی یقین نہ ہوگا۔کہ آج ایک نئی تاریخ رقم کرنے جارہے ہیں۔افتخار محمد چوہدری کی بحالی کسی دیوانے کے خواب سے کم نہیں تھی۔اسٹیبلمشنٹ ان کی مخالف ۔حکومت وقت ان کی دشمن ۔بیرونی دنیا بھی اس لحاظ سے اس بحالی کی مخالف تھی کہ وہ پاکستان میں کبھی بھی ٹیلنٹ برداشت کرنے پر آمادہ نہیں ۔سچائی ۔ایماندار ی اور حب الوطنی پرکاربند افراد کو اس نے ہمیشہ نامنظو رکیاہے۔افتخار محمد چوہدری نے جس طرح سماج کو للکارہ ۔وہ کچھ لوگوں کے لیے خطرے کی گھنٹی سے کم نہ تھا۔یہ لوگ اپنی غلط کاریوں کو چھپانے کے لیے عدم پرسش کا ماحول چاہتے تھے۔افتخار محمد چوہدری نے عدم پرسش کے نظام کو کاری ضرب لگائی ۔یہی وجہ تھی ان کی بحالی کو پوراسماج اپنی انا اور بقا کا مسئلہ تصور کرچکا تھا۔نوازشریف نے بزور عدلیہ بحال کرواکے ایک ایسا کامیاب تجربہ کرلیا جو آج تک ان کے کام آرہاہے۔نت نئی مہم جوئیوں کا حوصلہ دے رہا ہے۔

سپریم کورٹ نے کہاہے کہ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے ۔اس پر تلوار نہیں لٹکنا چاہیے۔یہ ریمارکس غالبا پارلیمنٹ کی طر ف سے نااہلی کی مدت پانچ سال کرنے اور عدالت سے نااہل کیے گئے شخص کو پارٹی صدارت کے لیے اہل قرار دیے جانے سے متعلق قانون کی منظور کرناہے۔اس منظور ی کے خلاف وہ تمام لوگ عدلیہ سے رجوع کررہے ہیں ۔جو نوازشریف ہٹاؤ کے مشن میں شامل ہیں۔ان کی تمنا ہے کہ عدالت پارلیمنٹ کی طرف سے پاس کیے جانے والے قانون کو کالعدم قراردے دے۔اور نوازشریف کی تاحیات نااہلی او ر پارٹی صدارت سے فراغت برقرار رہے۔سپریم کورٹ نے ملک بھر میں اس نئے پاس ہونے والے قانون سے متعلق یہ ریمارکس دیے ہیں۔عدالت غالبا پارلیمنٹ کے قانون سازی کے حق کو تسلیم کیے جانے کااظہار کررہی ہے۔اس سے قبل وہ اس قسم کے ریماکس محترمہ کلثوم نواز کے کاغذات نامزدگی مستر دکیے جانے سے متعلق درخواست کا فیصلہ سناتے وقت دے چکی ہے۔عدالت عظمی کا کہنا تھاکہ عوامی رائے آچکی اس کا احترام سب پر واجب ہے۔تب بھی نوازشریف مخالف دھڑ ے یہ امید کررہی تھی۔کہ کلثوم نوازکے کاغذات نامزدگی مسترد کرواکے شریف فیملی کی سیاست کا باب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے۔ان کی درخواستیں مختلف پلیٹ فارموں سے مستردہوتی رہیں۔حتی کہ الیکشن ہوگیااور محترمہ کلثوم نواز کے مد مقابلوں کو منہ کی کھاناپڑا۔اس الیکشن میں قریبا تیس کے قریب لوگ جو ایک مخصوص سمت سے کھڑے کروائے گے۔ان کی ضمانتیں تک ضبط ہوگئیں۔ان کی کارکردگی صفر نکلی۔محترمہ کلثوم نواز کے ساٹھ ہزار سے زائد ووٹوں کے مقابلے میں وہ کچھ سو ووٹ لیکر نامراد رہے۔سپریم کورٹ نے بھی الیکشن کے بعد ان درخواستوں کو یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ اب عوامی رائے آچکی ۔اس کا احترام کرنا چاہیے۔

لگتاہے۔مقتدر حلقے ایک بار پھر اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے کا فیصلہ کرچکے۔تحریک انصاف او ر عوامی تحریک نے جو رنگ جماناتھا۔جما چکی۔اس رنگ کے کا م نہ دینے کے سبب اب تمام تر توجہ عدالتی راستے سے کام نکلوانے کا فیصلہ کرلیاگیا۔نوازشریف کی نااہلی کے فیصلہ آنے کے بعد عمران خاں اور طاہر القادری عملا غیر فعال ہوچکے۔ان کا واحد ٹاسک گو نواز گو پایہ تکمیل پہنچ چکا۔اب ان کے پاس کہنے کو کچھ ہے۔نہ کچھ کرنے کے لیے ۔انہوں نے گونواز گو کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا تھا۔ا س سنگل ایجنڈے کا انتخاب آج ان کے لیے غیر فعال ہوجانے کا سبب بن رہاہے۔اگر وہ ماضی قریب میں گونواز گو کے علاوہ بھی کچھ ٹاسک طے کرلیتے تو آ ج بے کارنہ ہوتے۔خاں صاحب او رعلامہ قادری صاحب آئے دن پریس کانفرنسیں تو کرتے ہیں۔مگر وہ بے لکل پھیکی پھیکی سی رہتی ہیں۔ان دونوں کی مثال اس پھیر ی والے جیسی ہے۔جو کسی دن اپناسب سے اعلی مال بیچ بیٹھے او راس کے بعد وہ عام چیزیں لے کر پھیرے لگا رہا ہو۔لوگ اس سے اسی قسم کے اعلی مال کی امید کرتے ہیں۔مگر اس کا ناقص مال دیکھ کر منہ پھیر لیتے ہیں۔مقتدر حلقے اب ان دنوں سے بے نیاز ہوچکے۔اب عدلیہ محور نگاہ بنی ہوئی ہے۔ایک عرصہ سے عدلیہ کو ہم خیال بنانے پر کام ہورہاتھا۔جھجکتی ۔لجاتی عدلیہ میں بالاخر نقب لگاہی لیا گیا۔جو زبان اور رویہ پانامہ کیس کے پانچوں ججز نے متعارف کروایا ۔اس نے ڈوگر کورٹ کی یادتازہ کروادی۔اب جو رویہ نیب کورٹ کے ججز دکھارہے ہیں۔وہ بھی ڈوگر کورٹ کی تصویر سامنے لارہاہے۔افتخار محمد چوہدری والی عدلیہ حاکمانہ رویہ صرف اس لیے رکھتی تھی کہ اس کے فیصلے عوامی تائید کے حامل ہوتے تھے۔جب کہ ڈوگر کورٹ نے خود کو ربڑ سٹیمپ ثابت کیا۔پانامہ کیس کا فیصلہ اس قدر کمزور اور ناقابل ہضم تھاکہ اسے صرف ڈوگر کورٹ کی بازگشت ہی قراردیا جاسکتاہے۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 141006 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.