اداروں کا استحکام وقت کی ضرورت

پاکستان میں جب بھی کوئی بڑا بریک تھرو ہوجائے جو چاہے وہ معاشی سلسلے کی کڑی ہو معاشرتی سلسلے کی کڑی ہو یا عوامی یا اقتصادی سلسلے کی کڑی ہو اس کے ثمرات عوام تک پہنچ نہیں پاتے یاپردے کے پیچھے کام کرنے والی قوتوں کے زریعے سے اس کے ثمرات کو عوام تک پہنچنے نہیں دیا جاتا ایسے کئی مواقع ہمارے سامنے ہیں جن کو کیش کروا کر پاکستان ناصرف ایشیاء میں بلکہ پوری دنیا میں اہم کردار ادا کرنے کے قابل ہو سکتا تھالیکن ان کا فائدہ لینے کے بجائے الٹا گلے کی ہڈی بنا دیا گیا ۔پاکستان کو قائم ہوئے آج ستر سال ہونے کو ہیں آج تک ہم اپنے بنیادی مسائل کو نہیں سمجھ سکے عوام کو وہ کچھ نہیں دے سکے جس کی وہ تمناء کرتے تھے قیام پاکستان کے بعد پاکستانیوں کو ایسی جھمیلوں میں ڈال دیا گیا کہ انھیں اپنی مملکت کی تعمیر وترقی کے بجائے اپنی پڑ گئی۔ قیام پاکستان کے بعد مشکل حالات میں قائد کی وفات کے بعد حالات اس طرح کے نہیں رہے جس طرح کے ہونے چاہیے تھے نئی نویلی مملکت اور اوپر سے کسی بڑے اور ایماندار حکمران کا سایہ سر پر نہ ہونے کی وجہ سے مملکت پاکستان مشکلات کا شکار ہو گئی جس کے بعد پہلے ہمارے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کوراولپنڈی میں بھرے جلسے میں قتل کر دیا گیا ان کے قاتلوں تک پہنچنے کی بجائے ان کا نشان تک مٹا دیا گیا بعد ازاں آمریت کے تیز طوفانوں میں ملک کا ایک بڑا حصہ جدا کر دیا گیا اور اس کا سارا الزام ایک دوسرے پر ڈال کر اپنی غلطیوں سے پردہ پوشی کی گئی اس میں سارا قصور سیاسی لوگوں کا تھا مگر نا جانے کیوں اس کا سارا ملبہ فوجی حکومتوں پر ڈال کر ان کو خوب بدنام کیا گیا مگر وہ ادارہ جو پاکستان کے سالمیت کی علامت ہے اسے اس طرح رسواء کر کے ان سیاسی لوگوں نے کون سی وفا داری کا ثبوت دیا بعد ازاں کئی منتخب حکومتوں کو آمریت کی بھینٹ صرف اس لئے چڑھایا گیا کہ اس میں کچھ لوگوں کے سیاسی مفادات تھے اور جو کسی بھی طور پر اقتدار کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے سابق وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کو جو تمام اسلامی ملکوں کا ایک ایسا بلاک بنانے کی کوشش میں تھے جو کہ بعد ازاں دیگر بڑے ممالک کو زیر کر سکتی تھی لیکن اس بلاک کو بننے سے پہلے ہی اپنے کارندوں کے ذریعے سے اس کوختم کیا گیا اور وہ لوگ جو اس بلاک کوبنانے میں پیش پیش تھے ان کو چن ان کر ختم کیا گیا کئی حکومتیں آئی اور گئی لیکن پاکستان کے بنیادی مسائل آج بھی روٹی ،کپڑا مکان اور بنیادی ضروریات زندگی وہیں کی وہیں ہیں جہاں پر قیام پاکستان کے وقت تھیں دلچسپ بات یہ کہ جو بھی نئی حکومت آئی اس نے سابق حکومت کو چور اور لٹیرا قرار دیا اور اپنی پالیسیوں کو درست کہا ان کی اس مفاد پرست اور اپنی ذات کو فائدہ پہنچانے کی پالیسیوں کی وجہ سے آ ج تک کوئی بھی ایسی منتحب حقیقی حکومت نہیں آئی جس نے اپنی میعاد پوری کی ہو ا۔ ان مشکل حالات میں بھی پاکستان نے اپنی تعمیر و ترقی کا سفر جاری رکھا جو کسی بھی طور پر ناممکن دیکھائی دیتا تھا اور اسی معجزے کی وجہ سے پاکستان ایٹمی ملک بنا اور اسی ایٹمی ملک کی وجہ سے آج ہم محفوظ ہیں مگر اس کو وہ ترقی نہیں دے سکے جو دیگر ایٹمی ممالک نے دی ہے روس جب افغانستان میں وارد ہو رہا تھا تو ہم اس وقت بھی پیش پیش تھے ہم اگر اس وقت افغانستان کی مدد نہ کرتے تو افغانستان میں کھبی بھی روس کو شکست نہ ہوتی آج افغانستان ہماری اچھائی کو سمجھنے کے بجائے الٹا ہمارے خلاف زہر افشانی کر رہا ہے ایسی صورت حال میں جب پوری پاکستانی قوم اپنی مسلح افواج کے شانہ بشانہ ایک ایسی جنگ لڑ رہی ہے جس میں دشمن واضح نہیں ہیں اور نہ ہی اہداف واضح ہیں اور جس کے لڑنے کا تخمینہ دوسری روایتی جنگوں سے کہیں زیادہ ہے پاکستان کے حالات کو ایک بار پھر انتشار کا شکار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اس میں حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے وہ تمام لوگ شامل ہیں جو کسی بھی طور پر مذاکرات کے حق میں نہیں ہیں بلکہ ایسے لوگ صرف لڑو اور مرو اور حکومت کرو کی پالیسی چاہتے ہیں اور اس لڑنے اور مرنے میں اگر کسی کا نقصا ن ہے تو ہوگا تو وہ پاکستان ہے اور پاکستان کا نقصان ہماری آنے والی نسلوں کا نقصان ہے ۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے حکومت بجائے اس کے ،کہ اپنے اداروں پر الزام تراشی کرئے اسے چاہے کہ اداروں کے استحکام کے لئے اقدامات اٹھائے اس وقت شخصیات کے بجائے اداروں کا استحکام اہم ہے جن سے ریاست نے فوائد حاصل کرنے ہیں افراد تو آتے جاتے ہیں لیکن ریاست نے ہمیشہ قائم رہنا ہے استحکام پاکستان ریاستی اداروں کی مضبوطی میں ہے نہ کہ شخصیات کی مضبوطی میں۔

rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 206328 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More