کرد قوم عراق ،شام ،ترکی ،ایران اور آرمینیا کی حدود میں
پھیلی ہوئی ہے تمام ممالک اور بیرون میں ان کی آبادی تقریبا چار کروڑ ہے ۔گذشتہ
صدی میں پہلی عالمی جنگ کے بعد دنیا نے کردوں پر ایک سخت فیصلہ مسلط کیا
تھا انہیں چار ملکوں میں بانٹ دیا اس کے بعد سے کرد جغرافیے کی عدالت میں
سر گرداں ہیں ۔ کردستان تقریبا چھ سو سال تک خلافت عثمانیہ کا حصہ رہا ہے
اس لئے اصولی طور پر وہ ترکی کا ایک صوبہ ہونا چاہیے تھا لیکن استعمار کی
شہ پر 1915اور 1918میں کردوں نے سلطنت عثمانیہ سے آزادی حاصل کرنے کی کوشش
کی لیکن ہر بار ان کی بغاوت کو کچل دیا گیا ۔خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد
برطانیہ اور اس کے حلیفوں نے سیور معاہدے کے تحت ایک دستاویز تیار کی مگر
آزاد کردستان کی امیدیں اس کے تین سال بعد ہی دم توڑ گئیں جب معاہدہ لوزان
کے تحت حالیہ ترکی کی حدود طے پائی تھیں۔ کردوں کی تقسیم کے بعد ان کی طرف
سے کردستان کو آزاد مملکت کی حیثیت میں دیکھنے کی امنگیں مچلتی رہیں لیکن
ان کا یہ خوب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا -
ترکی میں اس وقت پندرہ سے بیس فیصد کرد آباد ہیں جبکہ اتنی ہی تعداد میں
عراق میں ہیں اسی طرح ایران اور شام میں بھی کئی ملینکرد علیحدگی کی
تحریکیں چلا رہے ہیں ۔ کردوں میں آزادی کی تحریکیں کھڑی کرنے میں خود ان
مسلم ممالک کا بنیادی کردار ہے جن میں کرد تقسیم ہیں۔ حافظ الاسد نے عبداﷲ
اوجلان کو نہ صرف پناہ دی بلکہ اسے تربیتی کیمپ بھی قائم کرنے کی اجازت دی
ترکی میں شورش کے لئے تو یہ سب کچھ کرتے ہیں لیکن اپنے ممالک میں یہ کردوں
کی ہر آواز کو بے رحمی سے کچل دیتے ہیں ۔ ۱۹۴۶ میں قاضی محمد نے مہا آباد
میں ایرانی کردوں کی حکومت قائم کی تو انہیں سر عام پھانسی دے دی گئی ، رضا
شاہ پہلوی کے دور میں تو کردی زبان بولنے پر پابندی تھی، خمینی نے تو ان کے
خلاف جہاد کا اعلان کر کیان کا قتل عام کیا ۔ترکی میں صدر اردوان کی آمد سے
قبل ترکوں کو ایسے ہی مسائل کا سامنا تھا اگر کسی کر د سے کوئی جرم سر زد
ہوتا تو اسے سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جاتا اس سے ملنے والوں کو اسی صورت
ملاقات کی اجازت ہوتی کہ یہ سب ترکی زبان میں ہی بات چیت کریں گے۔صدر
اردوان نے نے کہا کہ ہمیں کردوں کے مسئلے کو حل کرنے کیکتنا ہی نقصان
برداشت کرنا پڑا ہم کریں گے۔انھوں نے قومیت پرستوں کی شدید مخالفت کے
باوجود دہشت گرد پی کے کے سے امن معاہدہ کیا اور ترکی کی تاریخ میں پہلی
بارکردوں کی پارٹی پیپلز ڈیمو کرٹیک نے اسی نشستیں حاصل کیں۔عراقی کردستان
میں مسعود بارزانی کے والد مصطفی بارزانی نے دو دہاہیوں پر مشتمل مسلح
جدوجہد کی جو 1970تک جاری رہی اسی دوران نائب سربراہ حکوت صدام حسین نے
کردستان کا دورہ کیا جس کے نتیجے میں کردوں کو خود مختاری دے دی گئی لیکن
یہ شادی زیادہ دیر تک نہ چل سکی ۔1975میں شاہ ایران اور صدام حسین نے ہنری
کسنجر کی کوششوں کے نتیجے میں طے شدہ الجزائر سمجھوتے پر دستخط کئے تھے اس
کے تحت ایران کردوں کی حمایت سے دست بردار ہو گیا نتیجتا ان کا انقلاب
دھڑام سے نیچے آ گرا اور ان کے خلاف خوف ناک المیے کا آغاز ہو گیا ۔ ۱۹۸۸
میں صدام حسین نے ایران سے جنگ کے باوجود کردوں پر کیمیائی ہتھیاروں کا بے
رحم استعمال کیا جس کے نتیجے میں ہزاروں کرد لقمہ اجل بن گئے -
1991میں امریکہ عراق جنگ کے دوران صدام حسین کی فورسز کو شمالی عراق کے چند
علاقوں سے واپس بلا لیا گیاتوکردوں نے اپنی پارلیمان بنائی ،وزارتین اور
مسلح افواج البیش المراکہ کے نام سے تشکیل دی( یاد رہے البیش المراکہ اس
وقت داعش کے خلاف امریکی حلیف ہے) انہوں نے سکہ بھی صدام حسین کے عراق سے
مختلف استعمال کیا ۔صدام حسین کی تیل سے آمدنی سے 17%اقوام متحدہ کے تحت
کرائے گئے معاہدے کی رو سے کردستان ریجنل انتظامیہ نے حاصل کیا ۔گذشتہ چودہ
سالوں میں کردوں نے ان علاقوں کو وسعت دی ہے جو ان کے زیر انتظام ہیں تاکہ
کئی ایسے علاقوں کا احاطہ کیا جا سکے جہاں تیل کے ذخائر بڑی تعداد میں
موجود ہیں اور جہاں غیر کردوں کی اکثریت رہائش پذیر ہے جیسے کرکوک وغیرہ ۔کردوں
نے عالمی سرمایہ داروں کی توجہ حاصل کرکے تیل کی برآمد کو چھ لاکھ بیرل
یومیہ تک بڑھا لیا ہے اور تیل کی عراق ترکی پائپ لائن کے ذریعے بحیرہ روم
کے ٹرمینلز تک برآمد کیا جاتا ہے یہاں پینتا لیس بلین بیرل تیل موجود ہے ۔اس
لئے عراق کبھی بھی کردستان کو آزادی کا پروانہ نہیں دے گا ۔اس وقت یہ علاقہ
عراق کا محفوظ ترین علاقہ ہے ۔اسے امریکہ عراق جنگ میں امریکی چھتری کے
نیچے مضبوط ہو نے کا خوب موقع ملا اور اب امریکی یقین دہانیوں سے ریفرنڈم
کے ذریعے وہ علیحدہ ملک بننے کی خطر ناک راہ پر چل پڑا ہے ۔کرد ریفرنڈم کی
پوری دنیا میں مذمت ہو رہی ہے ۔اس ریفرنڈم سے جس ملک کو شدید خطرات لاحق
ہیں وہ ترکی ہے ۔گویا کہ ایک بار پھر خلافت عثمانیہ کی یاد گار ترکی کو توڑ
کر اس کی موجودہ قوت اور مضبوط معیشت کو توڑنے کے لئے استعمار اپنی سازشوں
کے جال بن رہا ہے ۔اس سازش کا مرکزی کردار امریکہ اور متحرک مہرۃ اسرائیل
ہے جسے فریڈم فلوٹیلا کے بعد جو ذلت ملی وہ اس کا انتقام اب کردستان کی
صورت میں لینا چاہتا ہے -
امریکی صحافی اور ایشیا ٹائمز کے کالم نگار ڈیوڈ گولڈ مین نے اپنے ایک
مضمون میں عراق کی تقسیم کا انکشاف کرتے ہوئے لکھا تھا کہ امریکی سینیٹ نے
اکثریت سے عراق کی تین حصوں میں تقسیم کی حمایت کی ہے جس کا دارالحکومت
کرکوک یا کردش یروشلم ہو گا اور جہاں تیل کے وافر وسائل ہوں گے یہ واضح رہے
کہ اسرائیل میں بسنے والے 85لاکھ یہودیوں میں سے دو لاکھ یہودی کرد نسل سے
تعلق رکھتے ہیں ۔مسعود بارزانی کے خاندان کے تانے بانے تاریخی اعتبار سے
اسرائیل سے جڑے ہوئے ہیں۔ مصطفی بارزانی اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے ایک
اعلی عہدیدار تھے۔ 16اگست 2017کو اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے نہ صرف
کردستان ریفرنڈم کی حمایت کی بلکہ امریکہ سے مطالبہ کیا کہ وہ کردستان کی
حمایت کرے کیونکہ کردوں اور ہمارے درمیان کئی چیزوں میں اشتراک ہے ۔اس
کامظاہرہ ریفرنڈم کے لئے نکلنے والی ریلیوں میں نظر آیا ۔مسعود بارزانی کے
حامیوں نے کردستان کے ریفرنڈم کے حوالے سے ریلیاں نکالیں جس میں کرد جھنڈے
کے ساتھ اسرائیلی جھنڈا بھی ریلی میں شریک لوگوں کے ہاتھوں میں لہراتا نظر
آیا ۔ پہلے
امریکہ نے عراق جنگ میں کردوں کو بھر پور مدد دی تاکہ مشرق وسطی اور ترکی
کی کمر میں چھرا گھونپا جائے اب وہ اسی مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے
لئے شام میں موجود کردوں کی دہشت گردتنظیم وائی پی جی ملیشیا کو اسلحہ دے
رہا ہے۔ ترکی کا کہنا کہ کہ وائی پی جی کالعدم کردستان ورکرز پارٹی pkk))کی
شاخ ہے جو ترکی میں دہشت گردی کی گارروائیوں میں ملوث ہے اور اس کی دہشت
گردی سے چالیس ہزار لوگوں کی جان جا چکی ہے۔ امریکہ وائی پی جی کو مسلح کر
رہا ہے اور اس کا جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ کہ وہ داعش کے خلاف جنگ میں
امریکی حلیف ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وائی پی جی کے ذریعے یہ اسلحہ pkkکو
دیا جاتا ہے جو ترکی میں دہشت گردی کو بڑھاتا ہے اس کی دلیل گذشتہ دو سالوں
میں ہونے والے خودکش حملے ہیں اور اب اس کا تسلسل عراق میں ہونے والا
ریفرنڈم ہے۔ صدر اردوان نے اردوان نے سازشی عناصر پرواضح کیاکہ ہم غیر
قانونی ریفرنڈم کروانے پر عراقی کرد انتظامیہاور شام میں دہشت گردمملکت کے
قیام کی اجازت نہیں دیں گے ۔ یہ سب کچھ ان کے لئے محض خواب ہی رہے گا ہم
کسی رات اچانک علاقے میں گھس سکتے ہیں ۔صدر اردوان نے کہا اس ریفرنڈم کو
عالمی برادری کی مخالفت کے باوجود کروانا عراق کے مرکزی دستور کی خلاف ورزی
ہے جس کی صرف اسرائیل نے حمایت کی ہے ۔اس خود مختاری کو صرف اسرائیل کے
قبول کرنے سے کچھ نہیں ہو گا کیونکہ اسرائیل کا دوسرا نام دنیا نہیں ہے ۔ہم
نے اقتصادی پابندیاں لگانے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔اب ان کے لئے داخلہ وخروج
بند کیا جائے گا اور ہم دیکھتے ہیں کہ عراق کرد انتظامیہ اپنے پیڑول کو کن
راستوں سے کہاں بھیجے گی اور کہاں فروخت کرے گی ۔پیڑول کا والو ہمارے ہاتھ
میں ہے اور ہمارے اس والو کو بند کرنے سے ہر چیز ختم ہو جائے گی پھر ہم
دیکھتے ہیں کہ اسرائیل بہادر شمالی کردستان کی مدد کتنی کرتا ہے -
ترکی اور ایران نے اس ریفرنڈم کو مسترد کر دیا ہے ترکی نے شمالی عراق کے
ساتھ اپنی سرحد کو بند کرنے کے ساتھ ساتھ کرکوک کے لئے پروازیں بھی بند
کردی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ شمالی عراق میں ایک خود مختار ریاست کا قیام عمل
میں نہیں آ رہا بلکہ استعمار کی طرف سے ان کی من مرضی کے مطابق مسلسل خون
رسنے والے زخم پیدا کئے جا رہے ہیں ان کے عزائم کو ناکام بنانے کیلئے ضروری
ہے کہ ہم نسل اور قومیت کے بتوں کو توڑ کر اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے
والی امت کا تصور پیدا کریں ۔اس کے ساتھ تمام ممالک اپنے اپنے کردباشندوں
کے مسائل کو سنجیدگی سے حل کریں تاکہ علیحدگی کے جراثیم اپنی موت آپ مر
جائیں- |