زرداری دور میڈیا کے لیے کسی تحفے سے کم نہ تھا۔تب اس قدر
ایشوموجود تھے۔جو میڈیا کی ترقی او روسعت کا سبب بنے۔اس دور کا ایک خاصہ حکومت کی
طرف سے پیش آنے والی نرمی بھی تھی۔زرداری دور میں چاہ کر بھی نہ ایمرجنسی لگائی
گئی۔نہ کسی چینل کو بند کیاگیا۔انہی حالات نے میڈیا کو کریز سے باہر نکل کر کھیلنے
کا حوصلہ دیا۔او روہ آگے بڑھتا چلا گیا۔جب جسٹس نثار ثاقب کوہم خیال بنانے کی
زرداری حکومت کی کوشش کی گئی۔اس دن میڈیا ہی تھا۔جس نے اپنی بریکنگ نیوز سے حکومتی
منصوبہ ناکام بنادیا۔پروگرام یہ تھاکہ جسٹس نثار ثاقب کو سپریم کورٹ لے جایا
جائے۔اس نوٹی فکیشن کو واپس لے لیا جائے جو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی
کے سلسلے میں جاری کیا گیاتھا۔اس منصوبے کا مقصد ایک بار پھر ڈوگر کورٹ ٹائپ کی
کوئی عدلیہ قائم کرنا تھا۔میڈیا کو جانے کہاں سے بھنک پڑگئی۔منٹوں میں ہی یہ منصوبہ
بچے بچے کی زبان تک پہنچادیا گیا۔اس دن سپریم کورٹ کا ایک ہنگامی اجلاس اس ایشو پر
بلالیا گیا۔تمام ججز کا متفقہ فیصلہ تھاکہ اگر حکومت نے نوٹی فیکشن واپسی کا کوئی
اعلان کیا تو اسے غیر قانونی قراردیا جائے گا۔حکومت کو ایگزیکٹو آرڈر واپس لینے کا
کوئی اختیار نہیں ۔میڈیامیں جب تمام تر معاملہ طشت ازبام ہوا۔تو قوم بھی الرٹ
ہوگئی۔اپنے محبوب چیف جسٹس کے خلاف ہونے والی اس سازش کے خلاف بڑے احتجاج کی باتیں
ہونے لگیں۔یہ معاملہ اس وقت تھما جب جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے سپریم کور ٹ میں نہ
جانے کا فیصلہ سامنے آیا۔یہی نہیں اعلی حکومتی عہدے دار کی جانب سے بھی عدلیہ بحالی
نوٹیکیشن واپس نہ لینے کا باقاعدہ اعلان کردیا گیا۔
موجودہ حالات میں جو خلفشار اور بے یقینی نظرآرہی ہے۔وہ بھی میڈیا کی طرف سے کسی
موثڑ کردار ادارکرنے کی متقاضی ہے۔ایک بار پھر آرمی او رحکومت کے درمیان سرد جنگ
عروج پر ہے۔رینجر کی احتساب عدالت کے باہر گھیراؤ کی کوشش کھلی بغاوت تھی۔ابھی اس
مسئلہ پر کوئی پیش رفت نہیں ہو پائی تھی کہ رینجر کی جانب سے پارلیمنٹ کی سیکورٹی
واپس لینے کا غیر معمولی اقدام کرڈالا گیا۔حکومت اس وقت اپنی رٹ قائم نہ ہونے کا
رونا رورہی ہے۔پہلے وزیر داخلہ نے ریاست کے اندر ریاست بناجئے جانے کا ذکر کیا۔اب
وزیر اعظم گلہ کررہے ہیں کہ ان کا مینڈیٹ مانا نہیں جارہا۔حالات انتہائی نازک
ہیں۔صورت حال بالکل 12 اکتوبر 1999 جیسی بن چکی ہے۔تب بھی حکومت او رفوج میں بد
اعتمادی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔
اب بھی حالات بالکل ویسے ہی ہیں۔۔ایسے میں میڈیا کا کردار اس قدر موئثر نہیں جتنا
مشرف یا زرداری دور میں تھا۔شاید اس کا ایک سبب وہ عوامی حمایت حاصل نہ ہوناہے۔ جو
تب تھی۔تب میڈیا کا جھکاؤ قوم کے ہیروچیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی طرف تھا۔وہ ان
کے مخالفین سے دست آزما تھا۔بد قسمتی سے آج قوم کے پاس واضح سمت موجود نہیں ۔اسے
ایک طے شدہ پلاننگ کے تحت تقسیم کرنے کی سازش کی گئی ہے۔میڈیا چاہتے نہ چاہتے اس
سازش کا حصہ بن گیا۔احتساب کے نام پر قومی قیادت کی تذلیل کوعوام میں پسند نہیں کیا
جارہا۔احتساب کا عمل غلط نہیں ہوتا۔مگر اس کے لیے مساوات او ردرستگی بنیا دی شرط
ہے۔قوم کو ایک مربوط پراپیگنڈے کے ذریعے شریف فیملی سے بدگمان کیا گیا۔قوم شریف
فیملی سے بدظن تو ہوگئی ۔مگر احتساب کا طریقہ کار دیکھ کر اسے شریف فیملی سے ہمدردی
پیدا ہورہی ہے۔تحریک انصاف کی طرف سے لگائے جانے والے الزامات غیر منطقی سے لگ رہے
تھے ۔ججز کی جانب سے متعصبانہ ریمارکس نے کام او ربگاڑا۔رہی سہی کسرمیڈیا کے بڑے
ہاؤسز کی طرف سے شریف فیملی کے چھوٹے موٹے معاملات کو پہاڑ سے جرائم ثابت کرنے کی
دوڑ نے نکال دی۔شریف فیملی کے مخالفین کے جرائم کو نظر انداز کرنے کی میڈیا کی
پالیسی نے قوم کو شریف فیملی سے متزلزل اعتماد کو دوبارہ بحال کرنے کی راہ دکھائی
ہے۔عوام کی واضح اکثریت شریف فیملی کو بے گناہ تصور کرتی ہے اس رائے کے قائم ہونے
میں شریف فیملی کے مخالفین کی طرف سے قول و فعل کا بڑا تضاد اصل وجہ بنا۔
میڈیا کی بدقسمتی کہ وہ عوام میں رائے کی اس تقسیم میں کوئی واضح فیصلہ نہیں
کرپارہا۔اسکی اصل طاقت اس کا اصولی موقف تھا۔عوام اور حق کے ساتھ کھڑے ہونے کی
پالیسی اس کی معراج کا سبب تھی۔ اب کمرشلزم غالب آرہی ہے۔ کچھ ایسے لوگو ں کی بے جا
حمایت کا ٹھیکا لے لیا گیا ہے جو کچھ فائدہ تو دے گئے۔مگر اس کی نیک نامی کو ہڑپ
کرگئے۔میڈیا میں بیٹھے کچھ لوگوں کی کھوکھلی باتیں۔اور تجزیے اس بات کا ثبوت ہیں کہ
ان کے موقف اور اصل حقیقت میں کوئی تال میل نہیں ۔رٹی رٹائی پرچیاں کچھ سیاستدان
پڑھ رہے تھے۔اب میڈیا بھی اس شغل میں پڑچکا۔جانے کیوں سیدھے راہ چلتا میڈیابلا وجہ
کے کھپ خانوں میں پڑ گیا۔اس کی نہ تو اسے ضرورت تھی۔نہ مجبوری ۔یہ تھوڑا بہت فائدہ
اس کے لیے بلا وجہ کے سرکھپاؤ کا سبب بن رہا ہے۔
|