28جولائی کو پاناما کیس کا فیصلہ آنے سے پہلے اُس وقت
کے وزیرِداخلہ چودھری نثار علی خاں نے پنجاب ہاؤس اسلام آباد میں پریس
کانفرنس کرتے ہوئے لگی لپٹی رکھے بغیر میاں نوازشریف کے رویے پر کھُل کر
تنقید کی اور گلہ بھی کیا کہ گزشتہ کچھ عرصے سے اُن کو مشاورت سے باہر رکھا
جا رہا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ نوازلیگ کا سینئرترین رہنماء ہونے کے باوجود
میاں صاحب کے گرد گھیرا ڈالے کچھ لوگوں نے اُن کی وزیرِاعظم کے ساتھ مشاورت
کے دروازے بند کر رکھے ہیں۔ اِس وقت وہ اتنے بددِل تھے کہ سیاست تک کو
خیرباد کہنے کو تیار بیٹھے تھے۔ انتہائی باخبر چودھری نثار علی خاں نے اُسی
پریس کانفرنس میں میاں نوازشریف کو اپنا قائد تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ اگر
سپریم کورٹ کا فیصلہ میاں صاحب کے خلاف آیا تو وہ چٹان کی طرح اُن کے ساتھ
کھڑے ہوں گے۔ شنید ہے کہ جس دن میاں نوازشریف کی جے آئی ٹی میں پیشی تھی ،اُس
دن چودھری نثار علی خاں کو کسی نے بلایا تک نہیں۔وہ خود ہی ایوانِ
وزیرِاعظم پہنچے اور میاں صاحب کی گاڑی ڈرائیو کرکے جوڈیشل کمپلیکس تک
پہنچے۔ ایک ایسے شخص کو ،جس نے قدم قدم پر نوازلیگ کے ساتھ اپنی کمٹمنٹ کے
نقوش ثبت کیے ہوں ،جس کی وفاداری شک وشبہے سے بالاتر ہو اور جو نوازلیگ کے
بانیان میں سے ہو ،اُس کے ساتھ ایسا سلوک سمجھ سے بالاتر ہے۔
سلیم صافی کے ساتھ انٹرویومیں بھی چودھری صاحب نے اپنے دِل کی باتیں کیں۔
اُس طویل انٹرویو میں کہیں بھی نوازلیگ کو چھوڑنے یا بغاوت کرنے کا شائبہ
تک نہ تھا لیکن ہمارا میڈیا جو بات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے اور ’’مِرچ
مصالحہ‘‘ لگانے میں مہارتِ تامہ رکھتا ہے ،اُس نے بات کہیں سے کہیں پہنچا
دی۔ چودھری صاحب نے خواجہ آصف کے ’’گھر کی صفائی‘‘ والے بیان پر بالکل درست
کہا کہ اگر ہم خود کو ہی موردِ الزام ٹھہرانے لگیں گے تو دشمن بات کو کہیں
سے کہیں پہنچا دیں گے۔ یہ بجا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ابھی بہت سا
کام باقی ہے لیکن اگر گھر کی بات گھر ہی میں رہے تو زیادہ بہتر ہے۔ ہمیں
حیرت تو اُس وقت ہوئی جب وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی اور موجودہ وزیرِداخلہ
احسن اقبال نے بھی خواجہ آصف کی ہاں میں ہاں ملائی۔ کیا وہ یہ ثابت کرنا
چاہتے تھے کہ مسلم لیگ نون واقعی اندرونی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے؟۔
بینظیر اور مریم نواز کے موازنے کا سوال سلیم صافی نے اُٹھایا تھا اور سبھی
جانتے ہیں کہ سلیم صافی ایسے ہی متنازع سوالات اٹھانے میں یدِ طولیٰ رکھتے
ہیں۔ اگر چودھری نثار علی خاں نے وقت کے عنصر کو مدِنظر رکھتے ہوئے بینظیر
اور مریم نواز کی سیاست میں ’’زمین آسمان کا فرق‘‘ کہا تو کیا غلط کہا؟۔
چودھری صاحب نے صراحت سے کہا کہ بینظیر نے سیاست میں ماریں کھائیں ،جیلیں
بھگتیں اور خودساختہ جلاوطنی کاٹی جبکہ مریم نواس نے تازہ تازہ عملی سیاست
میں قدم رکھا ہے۔ اِس لیے اُس کے اندازِ سیاست کا پتہ وقت گزرنے کے ساتھ
ساتھ چلے گا۔
گزشتہ دنوں کنونشن سینٹر اسلام آباد میں جذباتی مجمعے کے سامنے میاں
شہبازشریف نے اپنے بڑے بھائی کو مخاطب کرکے وہی کچھ کہا جو چودھری نثارعلی
خاں کہہ چکے تھے۔ میاں شہبازشریف نے کہا کہ میاں نوازشریف اپنی پارٹی سے
مشاورت کریں ،نہ کہ اُن مشیروں سے جو عہدے، جھنڈے والی گاڑی اور دیگر
مراعات کے حصول کی خاطر اُن کے گرد جمع ہیں۔ پہلی آواز تو ایک مخلص دوست (چودھری
نثار علی خاں) کی طرف سے اُٹھی لیکن اب تو اُسی آواز کی بازگشت اُن کے اپنے
گھر سے بلند ہو رہی ہے جس سے صرفِ نظر کرنا میاں نوازشریف کے لیے اگر
ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہے۔ میاں شہبازشریف اور چودھری نثار علی خاں
کی دوستی بہت گہری اور پرانی ہے۔ پاناما کیس کا فیصلہ آنے سے پہلے چودھری
صاحب وزارتِ داخلہ سے استعفے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ یہ میاں شہباز شریف ہی
تھے جن کی دوستی آڑے آئی اور اُنہوں نے مستعفی ہونے کا فیصلہ مؤخر کردیا۔
یہی وجہ ہے کہ ہزار کوشش کے باوجود چودھری صاحب نے شاہد خاقان عباسی کی
سربراہی میں بننے والی نئی کابینہ میں شامل ہونے سے انکار کر دیا۔
میاں شہبازشریف اور چودھری نثار اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں یکساں خیالات رکھتے
ہیں۔ دونوں نے ہمیشہ افہام وتفہیم سے ہی کام نکالنے کی کوشش کی ہے کیونکہ
وہ زورآوروں کے ’’زور‘‘ سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اِسی حوالے سے ایک لطیفہ یاد
آیا کہ دو دوست جنگل میں جا رہے تھے۔ ایک نے دوسرے سے پوچھا ’’اگر سامنے سے
شیر آجائے تو تم کیا کروگے؟‘‘۔ دوسرے نے جواب دیا ’’میں نے کیا کرنا ہے ،جو
کچھ کرے گا ،شیر ہی کرے گا‘‘۔ حقیقت یہی ہے کہ اگر فوج نے آنے کی ٹھان لی
تو اُسے اب بھی دَس بار وردی میں منتخب کروانے کے دعویدار مِل جائیں گے۔
اِس لیے افہام وتفہیم کی راہ ہی سب سے بہتر ہے اور اِسی میں ملک وقوم کی
بھلائی مضمر۔ جو مدح سرا میاں صاحب کو تصادم کی راہ اپنانے کی اُلٹی پٹّی
پڑھانے کی کوشش کرتے ہیں، وہ اُن سے مخلص تو ہرگز نہیں ہو سکتے۔وہ آئی ایس
پی آر کے ڈی جی میجر جنرل آصف غفور کے اِس جملے پر غور کر لیں تو وہ بہت
کچھ سمجھ جائیں گے۔ 5 اکتوبر کو آئی ایس پی آر کی پریس بریفنگ میں ایک
صحافی نے اُن سے سوال کیا کہ ہنگامی طور پر بلائی گئی سات گھنٹوں پر محیط
کور کمانڈر کانفرنس کا کوئی علامیہ کیوں جاری نہیں ہوا۔ جواباََ اُنہوں نے
کہا ’’خاموشی کی بھی اپنی زبان ہے‘‘۔
ڈی جی آئی ایس پی آرکی اِس طویل پریس بریفنگ میں صحافیوں کے زیادہ تر
سوالات کا رُخ سیاست کی طرف تھا جس کا میجر جنرل صاحب نے انتہائی محتاط اور
مدلل جواب دیا۔ اُن کا یہ کہنا انتہائی خوش آئند تھا ’’ فوج کے آنے یا
مارشل لاء کی بات فضول ہے‘‘۔ اُن کا یہ جواب اُن ’’بزرجمہروں‘‘ کے لیے
تھاجو میڈیا پر بیٹھ کر گھنٹوں بلکہ پہروں اپنا سارا زور اِس بات پر صرف کر
دیتے ہیں کہ سول اور ملٹری قیادت ایک صفحے پر نہیں ۔میجر جنرل صاحب نے کہا
’’ فوج آئینی حکم ماننے کی پابند ہے۔ اداروں میں کوئی تصادم نہیں۔ کوئی فرد
یا ادارہ پاکستان سے بالاتر نہیں۔ ہمیں مِل کر کام کرنا چاہیے۔ پیچھے مُڑ
کر دیکھا تو پیچھے ہی دیکھتے رہ جائیں گے‘‘۔ اُنہوں نے کہا ’’یہ کہنا غلط
ہے کہ پاک فوج کسی کے کنٹرول میں نہیں ،فوج آئینی حکم ماننے کی پابند ہے۔
پاناما جے آئی ٹی میں فوج کا کردار آئینی تھا۔ موجودہ معاملے کے پیچھے فوج
ہونے یا مارشل لاء لگنے کی بات کرنا بھی فضول ہے‘‘۔ 2 اکتوبر کو جوڈیشل
کمپلیکس میں رینجرز کے بِن بلائے آنے اور بدمزگی پیدا ہونے کی وضاحت کرتے
ہوئے اُنہوں نے کہا کہ رینجرز وزارتِ داخلہ کے ماتحت ہے۔ 2014ء سے اسلام
آباد میں رینجرز کے 2000 نوجوان سکیورٹی فراہم کر رہے ہیں۔ رینجرز اسلام
آباد پولیس اور انتظامیہ کے ساتھ مل کر سکیورٹی فراہم کرتی ہے۔ سابق
وزیرِاعظم کی احتساب عدالت میں پہلی پیشی کے موقعے پر بدنظمی کی وجہ سے
دوسری پیشی پر رینجرز کو لگایا گیا۔ اُس روز صبح سات بجے رینجرز ،پولیس اور
انتظامیہ کے آفیسرز نے جوڈیشل کمپلیکس کا دورہ بھی کیا۔ سماعت کے حوالے سے
وزراء کو پاسز بھی جاری ہوئے۔ اگر کسی سپاہی تک اطلاعات نہیں پہنچیں تو یہ
مِس اَنڈرسٹینڈنگ مقامی سطح پر ہوئی ، یہ اداروں میں کسی صورت میں تصادم
نہیں۔ قوانین کے مطابق سپیشل کارڈ کے بغیر آرمی چیف کو بھی سپاہی اندر نہیں
جانے دے گا‘‘۔ ڈی جی آئی ایس پی آرکی اِس پریس بریفنگ سے یہ امر واضح ہو
جاتا ہے کہ پاک فوج کو بخوبی احساس و ادراک ہے کہ جتنی دیر تک ادارے ایک
پیج پر نہیں ہوں گے ،ملک ترقی نہیں کرے گا۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا نیوز
چینلز پر بیٹھے بزرجمہروں کو بھی اِس کا ادراک ہے ؟۔ ہم نے تو یہی دیکھا ہے
کہ اِن لوگوں کا سارا زور اداروں کے مابین کشمکش ثابت کرنے میں صرف ہو جاتا
ہے۔ اُن کا یہ بیانیہ نہ صرف ملک وقوم کے لیے سمِِ قاتل ہے بلکہ ملک دشمن
قوتوں کی خوشی کا باعث بھی بنتا ہے۔ |