چاہتے تو ہم بھی یہی ہیں، جو آپ چاہتے ہیں، پوری قوم بھی
یہی چاہتی ہے ، قوم کا بچّہ بچّہ یہی چاہتاہے ۔ بلاول صاحب !آپ سے اسی طرزِ
بیان کی توقع تھی ، ایک تعلیم یافتہ خانوادے کا چشم وچراغ ہی ایسی بات کر
سکتا ہے، آپ کا خاندان صدیوں سے سیاست کے خار زار میں محوِ سفر ہے، حکومتیں
بھی وراثت میں اُن کو ملتی رہیں، ایک مرتبہ نہیں، پاکستان کی وزارتِ عظمیٰ
تین مرتبہ آپ کے گھر میں رہی، ایک مرتبہ آپ کے نانا جان اور دو مرتبہ آپ کی
والدہ ماجدہ کی صورت میں۔ ترقی اور روشن خیالی کی بڑی مثال یہی ہوئی کہ
پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم کا اعزاز بھی آپ کے گھر میں ہی ہے۔ اسلامی
جمہوریہ پاکستان کی صدارت کا ہُما بھی آپ کے والد گرامی کے سر پر بیٹھا،
پھر سندھ میں آپ کی پارٹی کی حکومت چلی آرہی ہے، جو مکمل طور پر آپ کے
اشارہ ابرو کی منتظر رہتی ہے، کب کس بات کا اشارہ ہو تو اس پر عمل درآمد کی
مہم چلائی جائے۔ آپ باہر کے تعلیم یافتہ ہے، جدید دنیا کے تقاضوں سے آگاہ
ہیں، عالمی مسائل سے آشنا ہیں، حکومت کے رموز سے بھی واقف ہیں۔ آپ کا بیان
پڑھنے کے بعد اذہان وقلوب میں خوشی اور طمانیت کی ایک لہر سی دوڑ گئی ہے،
ایسا ہونا فطری ہے، کسی کے دل کی بات کہی جائے اور وہ خوش نہ ہو، کیسے ممکن
ہے۔
بلاول صاحب! آپ کا بیان تو دل میں اتر گیا کہ آپ سندھ ہی نہیں پورے ملک میں
بچے بچے کو سکول میں دیکھنا چاہتے ہیں، آپ کے بقول’’․․․ تعلیم ہی واحد
ہتھیار ہے جس سے مدد لے کر جہالت اور ناخواندگی کے باعث پیدا ہونے والی
برائیوں کی شکست اور بہتر معاشرے کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے․․‘‘۔ اگر آپ ایسا
دیکھنا چاہتے ہیں تو قوم یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ جناب! رکاوٹ
کون ہے؟ آپ کو کس نے اس عظیم الشان عمل سے روک رکھا ہے؟ کون ہے جو آپ کو اس
کارِ خیر کی جانب بڑھنے نہیں دیتا؟ کیا کیجئے کہ دِل سے وسوسے نہیں جاتے۔
پی پی کو معرضِ وجود میں آئے نصف صدی ہورہی ہے، تب سے اب تک مارشل لاء کے
علاوہ مختصر عرصہ کے لئے مسلم لیگ کی حکومت آئی، ورنہ آپ کی پارٹی ہی برسرِ
اقتدار رہی۔ آپ جیسے جذبات ہی مسلم لیگ کے بھی ہیں۔ پی پی، مارشل لاء اور
مسلم لیگ (مارشل لاء میں بھی عموماً کسی نہ کسی شکل میں مسلم لیگ شاملِ
اقتدار رہی) ہی گزشتہ نصف صدی سے ملک پر حکمران چلے آرہے ہیں۔ یہ دعوے سندھ
میں بلاول کے ہی نہیں، پورے پاکستان میں ہر دور کے ہر حکمران کے ہیں، مگر
ستم ملاحظہ فرمائیے کہ اکیسویں صدی کے پہلے دو عشرے بھی گزر گئے ابھی تک
پورے پاکستان میں اعدادوشمار کے مطابق دو کروڑ بچوں سے زیادہ سکولوں سے
باہر ہیں۔ کیا تعلیم کو اولین ترجیح قرار دیتے ہوئے کوئی پارٹی قائد، یا
کوئی وزیراعظم، یا کوئی وزیراعلیٰ یہ بھی نہیں سوچتا کہ عشروں سے سرکاری
وسائل پر قابض تویہی لوگ ہیں، اگر پچاس برس گزرنے پر بھی اپنی اولین ترجیح
کو عملی جامہ پہنانے کی منصوبہ بندی کیوں نہیں ہو سکی ؟
اگر تعلیم واقعی حکمرانوں کی اولین ترجیح ہے تو اس کی حالت کیوں نہیں بدلی،
سرکاری سکولوں میں ابھی تک جاگیر داروں کے جانور کیوں بندھے ہیں؟ بہت سے
سرکاری سکولوں پر قبضہ مافیا کیوں قابض ہے، ہر ضلع سے پچاس ہزار کے قریب
بچے کیوں سکول سے باہر ہیں؟ سندھ کی تو کیا بات کہ وہاں جاگیر داری مسائل
نے معاملات کو اپنی جکڑ بندیوں میں لے رکھا ہے، یہاں پنجاب کے شہروں کے
مضافات میں پرائمری سرکاری سکولوں کی یہ حالت ہے کہ شاید ہی کوئی سکول ایسا
ہو، جو تمام سہولیات سے آراستہ ہو۔ ورنہ کسی میں کمرے کم، کسی میں استاد
تھوڑے اور کوئی سہولیات سے محروم۔ اگر بلاول اور دیگر صوبوں کے حکمران کچھ
کرنا چاہتے ہیں تو انہیں عملی طور پر اپنی ترجیحات میں تبدیلی لانا ہوگی۔
تمام حکمرانوں کا یہ وطیرہ ہے کہ ان کی نقل و حرکت کے لئے کم از کم تین سے
چار درجن گاڑیاں ساتھ ہوتی ہیں، جن میں اکثریت سرکاری گاڑیوں کی ہوتی ہے،
اس کے علاوہ جہاں سے چلے اور جہاں پہنچنا ہے وہاں سکیورٹی کے نام پر ہزاروں
پولیس اہلکار حفاظت پر مامور ہوتے ہیں۔ ایک چھوٹا سا دورہ بھی لاکھوں میں
پڑتا ہے، اگر ایک دورہ کو مختصر یا قدرے سادہ بنا لیا جائے تو کسی ایک سکول
کی عمارت تعمیر کی جاسکتی ہے، یہ تو ایک چھوٹی سی مثال ہے، مگر افسوس کہ
عیاشی اور مراعات کو کون چھوڑے؟ |