2 اکتوبر کے دن امریکی شہر لاس ویگاس میں ایک
میوزکل شو میں ایک امریکی شہری نے فائرنگ کردی تھی ا خبارات کی رپورٹ کے
مطابق60سے زائد آفراد ہلاک ہوئے جبکہآزاد زریعہ کے مطابق95لوگوں کو گولیوں
سے بھون کر قتل کیا گیا ۔ جبکہ215آفراد زخمی بھی ہوئے تھے ،زخمی و ہلاک
شدگان میں خواتین بھی شامل تھی، چونانچہ یہ تمام کاروئی ایک عیسائی شخص نے
کی اور اس سے بڑ کر وہ امریکی شہری بھی ہے اس لئے دنیا اس کو دہشت گرد نہیں
کہتی۔دہشت گردی کا لفظ تو صرف مسلمانوں کیلئے ہیں۔جو بھی ہو ایہ ایک افسوس
ناک واقعہ تھا ہم اس کی مذمت کرتے ہے۔کیوں کے ہم مسلمان ہے اور ہمارا دین
ہمیں کہتا ہے کہ اگر کسی شخص نے ایک بھی بے گناہ انسان کو قتل کیا تواس نے
پوری انسانیت کو قتل کر دیا اور کسی شخص نے ایک انسان کو بچایا تو گویا اس
نے پوری انسانیت کو بچایا۔
اس واقعہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔ مگراس واقعے کی مذمت کرنے کا حق
اگرکسی کو ہے تو مسلمان ممالک کو۔مغربی ممالک یہ حق نہیں رکھتے۔کم سے کم وہ
ممالک تو بالکل بھی نہیں رکھتے جو گذشتہ30سالوں سے امریکہ کے دم چھلے بنے
ہوئے ہیں اور انسانیت کے قتل عام میں بلا چوں و چرا امریکہ کا ساتھ دے رہے
ہیں۔حیرت اورافسوس کی بات ہے کہ امریکہ کی جدید تاریخ میں9,11 کے بعد یہ سب
سے بڑا قتل عام ہوا ہے اور اس واقعہ کے بعد بھی یہی افواہیں یہ اڑائی جارہی
تھی کہ اس قتل عام کی ذمے داری اسلامی انتہا پسندوں نے قبول کرلی ہے ۔
ہمارے ملک کے بیشتر آخبارات نے بھی اپنی سرخی پر کچھ یوں لکھا تھا کہ داعش
کا امریکا پر حملہ 66ہلاک ہائے افسوس آج دنیا کا ہر باخبر اشخص یہ جانتا ہے
کہ داعش امریکہ اور اسرائیل کی کھڑ ی کی گئی کٹھ پتلی ہے۔خود اسرائیلی
ہسپتالوں میں ان لوگوں کا علاج ہوتا ہیں، بہت سے نیوز اینکرز نے ثبوت کے
ساتھ تصاویر نیٹ پر اپلوڈ کی ہے۔ایف بی آئی نے اس واقعہ کی کچھ گھنٹوں بعد
ہی اس میں داعش کے ملوث ہونے کی سختی سے تردید کی ۔ لیکن اس واقعہ کو دہشت
گردی سے نہیں جوڑا کیوں کے اس میں ملوث شخص عیسائی جو ٹہرا۔ امریکی ریاست
لاس ویگاس میں کنسرٹ پر حملہ کرنے والا 64 سالہ مبینہ مسلح شخص سٹیفن پیڈک
ایک مالدار سابق اکاؤنٹنٹ تھا لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ
درجنوں افراد کو قتل کرنے کے باوجود اس شخص کو دہشتگرد قرار دینے کی بجائے
اسے ذہنی مریض قرار دے رہے ہیں۔
اخبارات سے موصول اطلاع کے مطابق ’’پولیس نے ابتدائی طور پر ہی حملے کو
دہشت گردی قرار نہیں دیا اور اب بھی حملہ آور کو دہشت گرد کے بجائے ذہنی
مریض قرار دیا جارہا ہے‘‘۔ جبکہ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ’’ سفید فام
ہونے کے سبب درجنوں افراد کے قاتل کوانفرادی کارروائی کرنے والا کہہ کر
رویہ نرم اختیار کیاجارہاہے‘‘۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ 60سے زائدافراد کا
قاتل اسٹیفن پیڈک کسی اور نسل اور مذہب کا ہوتا تو کیا اسے ذہنی مریض ہی
کہاجاتا؟ ذہنی مریض سٹیفن پیڈک انفرادی کارروائی کا خود ذمہ دار ہے،نفسیاتی
مسائل کا شکار تنہائی پسند شخص دہشت گرد کیوں نہیں؟ ترس کے قابل اور نفرت
کے قابل کیوں نہیں؟60سے زائد افرادکا قاتل اسٹیفن پیڈک کسی اور نسل اور
مذہب کاہوتا تو کیا اسے ذہنی مریض ہی کہاجاتا؟مسلمان اورکسی ایشیائی یاعرب
ملک کاہوتاتوکیارویہ اپنایاجاتا؟ ڈکشنری میں دہشت گردی کی تعریف کچھ یوں کی
گئی ہے کہ سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے شہریوں کیخلاف تشدد کا غیرقانونی
استعمال اور لاس ویگاس کا قاتل اس تعریف پر مکمل طور پر پورا اترتا ہے۔مگر
اسٹیفن پیڈک کو دہشت گرد نہیں قرار دیاجارہا۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر
نسلی وابستگی کے مطابق اسکن گریڈ چارٹ بھی شئیر کیا گیا جس میں دکھایا گیا
کہ سیاہ فام شخص کے لیے مجرم، مسلمان کے لیے دہشت گرد اور سفید فام کے لیے
قدرے نرم اصطلاح استعمال کرکے دکھائی گئی۔اس بارے میں امریکی صدر ڈونلڈ
ٹرمپ کے ٹھنڈے رد عمل کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا جنہوں نے اورلینڈو
سین برنیڈینو پر خوب واویلا کیا تھا جس میں حملہ آور مسلمان تھے۔
امریکا میں گزشتہ چند سالوں سے ہونے ناخوش گوار واقعات میں اگر کسی واقعہ
میں کوئی مسلمان ملوث ہوا تو وہ دہشت گردی لیکن اگر کوئی گورا عیسائی تو وہ
دماغی بیمار ، امریکا میں ہونے والے کچھ واقعات پر نظر دوڑاتے ہیں21 جون
2016 میں پلس نائٹ کلب میں 49 لوگ مارے گئے۔ قاتل ایک امریکی شہری عمر متین
تھا۔سان برناڈینو کیلی فورنیا میں دسمبر2015 میں ایک شادی شدہ مسلمان جوڑے
رضوان فاروق اور اس کی بیوی تشفین ملک نے جو کہ امریکی شہری ہی تھے ایک
شوشل سروس سینٹر کی آفس پارٹی میں24لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور22
لوگوں کو زخمی بھی کردیا۔ان دونوں واقعات میں شامل لوگ مسلمان تھے اس لئے
دہشت گرد ، مگر ستمبر2013 میں سابق امریکی فوجی آرون الکسس نے جو کہ امریکی
شہری تھا نیوی یارڈ ہیڈکوارٹرس میں21لوگوں کو مار دیا۔ جولائی 2012 میں
اوروراکولوراڈو میں جیمس ہومس نامی امریکی شہری نے ایک سنیما مین گھس کر
فائرنگ بھی کی اورآنسو گیس بھی کھول دیا۔جس میں 12ری جاں بحق ہوئے۔ایک 20
سالہ امریکی شہری آدم لانزا نے دسمبر2012 میں20بچون اور 6بالغوں کو سینڈی
ہک ایلمنٹری اسکول میں گولیوں سے بھون دیا جس مین قاتل کی ماں بھی شامل
تھی۔اور اسے غصہ اپنی ماں پر ہی تھا۔لیکن یہ تین واقعات میں شامل لوگ
نفسیاتی مریض تھے کیوں کے ایک تو یہ امریکی تھے ایک گورے عیسائی اس لئے ان
کو دہشت گرد نہیں قرار دیا جاسکتا ہیں ۔
ہمیں اس بات پر افسوس نہیں کہ یہ مسلمانوں کو کیوں دہشت گرد کہتے ہیں ،
کیوں کے ہر قوم میں آچھے بورے لوگ ہوتے ہیں ، لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ
قتل اگر مسلم کریں تو غلط اگر قتل مسلم ہو تے صحیح ، قتل اگر عیسائی کریں
تو نادان ، اگر قتل عیسائی ہو تو دنیا پریشان۔ مسلمان کریں تو دہشت گرد
امریکی کریں تو ذہنی مریض ، یہ دوغلی پالسی کب تک اخر ہمارے مسلمان حکمران
بھی اس پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہے ؟
آج مسلمانوں اور ان کی حکمرانوں کی سب سے بڑی مصیبت ہی یہ ہے کہ وہ اسلام
کو مانتے تو ہیں مگر اس پر عمل نہیں کرتے۔بلکہ سچ تو یہ ہے کہ خود مسلمانوں
کے درمیان اسلام کو جاننے ماننے والے کم سے کم ہوتے جارہے ہیں ۔ تب ہی ہم
پر اس قسم کے مصائب آرہے ہیں ۔ اﷲ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم
مسلمانوں پر اپنا خصوصی کرم فرمائے اور ہمیں کفار پر برتری عطا کریں ( آمین
)
|