اقتدار کے طمع اوربالاستی کی دوڑمیں حکومت نے انتخابی
کاغذت میں امیدوار کے حلف نامے کو بدل کرملک،قوم اوردین کے معاملات سے
سنگین لاپروائی ثابت کر دی ہے۔ زیادہ افسوسناک امر یہ ہے کہ حکومت کی
اتحادی مذہبی جماعتوں نے بھی ختم نبوتﷺ جیسے مقدس عقیدے سے متعلقہ آئینی
ڈرافٹ کی حساسیت کا احترام نہ کیا،شیخ رشیدجب قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر
تمام ارکان سے کہہ رہے تھے کہ’’ ختم نبوت ﷺ‘‘ کے حلف کے متعلق آئین میں
تبدیلی کی جا رہی ہے لہذا یسانہ کریں تو حکمران جماعت کی اعلیٰ شخصیات ان
کی بات کو سیاسی حربہ قرار دے کر بے بنیاد ٹھہرارہی تھیں۔1973ء کا آئین
پاکستان کی تمام سیاسی کی جماتوں کے اتفاق رائے سے منظور کیا گیا۔لبرل اور
آزاد خیال سمجھے جانے والے وزیراعظم ذولفقارعلی بھٹونے’’ عقیدہ ختم نبوتﷺ‘‘
کے قانونی پہلوؤں کو اپوزیشن اورمذہبی جماعتوں کے ساتھ مل کر آئین میں
سمویا۔ طے پا گیا جوشخص رسول کر یمﷺ کو کسی بھی مفہوم میں اﷲ کا آخری نبی
تسلیم نہیں کرتا وہ مسلمان نہیں۔اس دن کے بعد پاکستان میں مختلف سر کاری
دستاویزت میں مسلم وغیرمسلم کی شناخت واضح کرنے کے لیے ایک حلف نا مہ شامل
کیا گیا جس میں حلف اٹھا کر مذہبی شاخت واضح کی جا تی ہے۔عوامی نمائندگی کے
لیے خود کو پیش کرنے والے افراد پر لازم ہے کہ وہ حلفاًاپنے عقیدے کی وضاحت
کر یں۔1973ء سے لے کر 2017ء تک لگ بھگ 44 برس کا عرصہ گزرا ہے اس دوران
پاکستان میں کئی حکمران آئے اور گئے لیکن کسی حکومت نے عقیدہ ختم نبوت کے
ذیل میں آنے والے معاملات سے چھڑ چھاڑ یااس میں ترمیم کی جرات نہیں کی۔
حکمران جماعت کا نام مسلم لیگ ہے ۔یہ جماعت علامہ اقبال اور قائداعظم محمد
علی جناح کے افکارکو اپنا فکری اثاثہ قراردیتی ہے۔اس جماعت کی قیادت شریف
خاندان کے پاس ہے کہ وہ اسلامی روایات،عقائد اور تصورات کی امین ہے مگر
گزشتہ کچھ مدت سے اس جماعت اور اس کی قیادت کا طرز فکر اس کے دعوؤں کے بر
عکس دکھائی دے رہا ہے۔یوں معلوم ہوتا ہے کہ مسلم لیگ اب پاکستان میں رہنے
والے لوگوں کے نظریات کی بجائے بعض ایسی طاقتوں کی آلہ کار بن رہی ہے جو اس
کی قیادت کو سیاسی وقانونی مشکلات میں مبتلا کرنے کے لیے متحرک ہیں۔ جب
ایسے واقعات سامنے آنے لگتے ہیں تو شکوک و شہبات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ پاکستان
کے سکیورٹی اداروں نے بلوچستان سے جب حا ضرسروس نیوی افسر کلبھوشن یادیو کو
گرفتار کیاتو ن لیگی قیادت نے آج تک اس پر بھارت کے کو ئی براہ راست بات نہ
کر کے شکوک کو ابھرنے کا موقع دیا۔چند دن ہوئے جب لیگی حکومت نے وزیر خارجہ
خوا جہ آصف نے حافظ محمد سعید،جیش محمد اور پاکستان میں عسکریت پسند
تنظیموں کی سرگرمیوں کے متعلق اسی پیرائے میں گفتگو فرمائی جس پیرائے میں
بھارتی یا افغان قیادت پاکستان سے بات کرتی ہے ۔پاکستان کے عوام اس بات سے
شاکی ہیں کہ حکومت کے وزیر داخلہ کو جب احتساب عدالت میں داخلے سے روک
دیاجاتاہے تو لفظی گولہ باری شروع ہو جاتی ہے۔حکومت اپنی بے بسی کا رونا
ردھونا شروع کر دیتی ہے مگر ملک اور قوم کے عقائدپر حملے اور دشمن کی ہر زہ
سرائی کے وقت اس سر عت اور حسا سیت کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آتا۔حلف نامہ
کی تحریر اور الفاظ میں تبدیلی کا معاملہ اس لیے سنگینی رکھتا ہے کی حکومت
کی جانب سے انتخابی اصلاحات بل 2017ء کی تر میم کو ذرائع ابلاغ کے سامنے
پیش کیا جاتا رہا ہے اس میں حلف کا معاملہ تو کہیں موجود ہی نہیں تھا ۔پھر
ویسے بھی یہ بات کسی ذی شعور کی سمجھ میں نہیں آتی کہ حکومت نے کس مقصد کے
تحت حلف نامے کو تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی کی؟ ۔یہ بات تو طے شدہ ہے کہ
کوئی کام بلا مقصد نہیں ہوتا ۔ہر عمل کے پیچھے کوئی نہ کوئی غرض ہوتی ہے ۔انتخابی
اصلاحات کی کمیٹی ساڑھے تین سال تک ایک سو کے قریب اجلاس کر چکی تھی ۔
حکومت اور اس کے اتحادیوں کی اکثریت کے باعث کمیٹی نے تحریک انصاف کی
معتددایسی تجاویز کو مسترد کر دیا جن سے انتخابی شفافیت اور اعتباریت کو
بہتر بنایا جا سکتا تھا ۔پھر یہ تجاویز ڈرافت کی شکل میں ڈھلیں ،قومی
اسمبلی ،سینٹ اور پھر قومی اسمبلی میں منظوری کے بعد صدر مملکت سے دستخط
کرائے گئے اور عین اگلے دن عدالت سے نااہل قرار دئیے گئے نوازشریف کو مسلم
لیگ نے اپنا صدر منتخب کر لیا۔تعجب اس بات کا ہے کہ یہ تمام لوگ اور
پاکستان کے عوام کی تر جمان پارلیمنت نے کیاپورا ترمیمی مسودہ پڑھا؟ اگر
پڑھا توالفاظ پر غور کیا؟غور کیا تو کیا نتیجہ اخذ کیا؟تاثر یہ دیا جا رہا
ہے کہ میاں نواز شریف آئینی مسودے کی جزئیات اور تفصیلات سے آگاہ نہیں تھے
۔اگر ایسا ہے تو پھر انہیں عدالتی نا اہلی کے بعد اخلاقی طور پر بھی خود کو
نا اہل تصور کر لینا چاہیے۔ وہ کیسے پارٹی سر براہ ہیں کہ انہیں معلوم ہی
نہیں کہ عد لیہ کو نیچا دکھانے لے لیے وہ کس سطح تک جا سکتے ہیں۔حلف نامے
کی تبدیلی کی جسارت کے بعد میاں نواز شریف اور ان کے حامیوں کی غیر تسلی
بخش وضاحت اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ پارلیمانی جمہوریت اور ملک کی نظریاتی
شناخت کے درمیان ہم آہنگی برقراررکھنے کی اہلیت سے محروم ہیں۔زیادہ تعجب
خیز بات جے یو آئی کے امیر زمان اور جناب ساجد میر کا نواز شریف کے حق میں
یہ بیان آنا ہے کہ حلف نامے میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔اب جب خود نواز
شریف اس بات کو قبول کر رہے ہیں کہ ایسا ہوا ہے تو ان دو نوں حکومت نواز
صاحبان کو اپنی ساکھ اور شناخت پر ازسرنو غور کرنا چاہیے۔محب دین اور محب
وطن حلقوں کے یہ خدشات بے بنیاد نہیں رہے کہ حکومت اگلے مرحلے میں آئین میں
ترمیم کر کے صادق اوامین ہونے کی شرط ختم کر سکتی ہے ۔مسلم لیگ کی دو تہائی
اکثریت کی بنیاد پر تر میم کا اختیار رکھتی ہے لیکن حساس دینی معاملات پر
ترامیم کامینڈیٹ اس کے پاس نہیں۔یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں حکومت کے اس
اقدام پر غم وغصہ کے جذبات سامنے آئے ہیں۔اس معاملے کو غلطی سمجھ کر چھوڑا
نہیں جا سکتا تھا ۔اس غلط کام کا انجام یہی ہونا تھا کہ حکومت کو منہ کی
کھانی پڑی ، لہذا وزیرے قانون زاہد حامد نے 5اکتوبر کو قومی اسمبلی میں
انتخا بی بل 2017 پیش کیا جس میں ختم نبوت کی شق کو بغیر کسی ترمیم کے بحال
کرنے کی تجویز دی گئی جسے اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا ،لیکن یہ سوال
ابھی بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ اس ترمیم کا مقصدکیا تھا ؟ |