جوہری صلاحیت کے حامل پڑوسی ممالک پاکستان اور بھارت کے
تعلقات ہمیشہ ہی سے اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں حالانکہ قیام کے وقت دونوں
ممالک اس بات پر متفق تھے کہ ایک دوسرے کے ساتھ نہ صرف اچھے تعلقات استوار
کریں گے بلکہ اچھے ہمسایے کی طرح میل جول رکھیں گے مگر اب تک دونوں ممالک
میں چار بڑی جنگیں ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ بھارتی فورسز کا لائن آف کنٹرول
(ایل او سی) پر فائرنگ کرنا معمول بن چکاہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جنوبی
ایشیا میں قیام امن کے سلسلے میں سب سے بڑی رکاوٹ بھارت ہے۔ اصل میں بھارت
شروع دن سے ہی پاکستان کے قیام کا انکاری ہے یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان کے
وجود کو برداشت نہیں کر تااور ہر لمحہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کیلئے تیار
رہتا ہے۔ تعلقات بہتر بنانے کیلئے بھی پاکستان کی ہر حکومت نے بھرپور کوشش
کی اور حالات کو پرامن بنانے کی بہت سی کوششیں کی گئیں جن میں آگرا ، شملہ
اور لاہور کا سربراہی اجلاس شامل ہے مگر صورتحال بہتر ہونے کی بجائے سے
مزید ابتر ہو تی جا رہی ہے۔اگر دیکھا جائے توتعلقات کی خرابی کی بہت سی
وجوہات ہیں مگر اس میں کشمیر کا تنازعہ ہمیشہ ہی سے بنیادی عنصر رہا ہے۔امن
کی آشا کا ڈھنڈورا پیٹنے والے بھارت کے ساتھ پاکستان نے بات چیت کے ذریعے
تنازعات کو حل کرنے کی بارہا کوشش کی مگر بھارت کا رویہ اس کے برعکس ہی رہا
ہے جس کی واضح مثال ایل او سی پر بھارتی فورسز کی بلا اشتعال فائرنگ
کرناہے۔بھارت جب چاہے کنٹرول لائن پر فائرنگ کر کے معصوم انسانوں کو شہید
اور زخمی کر تا ہے بلکہ بھارتی فورسز کی طرف سے فائرنگ اس شدت سے کی جاتی
ہے کہ انسان تو کیا جانور بھی اس جارحیت سے محفوظ نہیں رہتے۔ گزشتہ دو
ہفتوں سے بھارتی فورسز کی بلا اشتعال فائرنگ نے حالات کو مزید خراب کر دیا
ہے۔ دفتر خارجہ نے اس جارحانہ رویے کو قبول نہ کرتے ہوئے بھارت کے ڈپٹی
ہائی کمشنر جے پی سنگھ کو احتجاجی مراسلہ دیاجس میں بھارت کو جنگ بندی کی
خلاف ورزی کے بارے میں تنبیہ کی گئی کہ بھارت سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی
سے باز رہے اور اس پر مکمل عملدرآمد کیا جائے اور ساتھ میں یہ بھی بتایا کہ’’2017
میں اب تک بھارتی افواج نے 900سے زائد مرتبہ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ
بانڈری کی خلاف ورزی کی جن کے نتیجے میں 43معصوم شہری شہید ہوئے ہیں جبکہ
زخمیوں کی تعداد 153ہے‘‘جس کے جواب میں بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر نے افسوس کا
اظہار کیا جو صرف اظہار ہی ثابت ہواکیونکہ اس کے بعد بھی مسلسل خلاف ورزی
جاری ہے اور مزیدمعصوم شہریوں کی جان کوخطرہ لاحق ہے اوراب یہ اعدادو شمار
زیادہ ہو چکے ہیں ۔ جویہ ثابت کر رہے ہیں کہ ایل او سی میں سنگین جرائم کا
مرتکب بھارت انسانی حقوق کی دھجیاں اْڑا رہا ہے۔ بھارت کے اس رویے کے پیچھے
بہت سے مقاصد پوشیدہ ہیں جن میں سے ایک مقصد ایل او سی پرفائرنگ کے واقعات
کے ذریعے مقبوضہ کشمیر سے توجہ ہٹانا ہے ، کیونکہ کشمیر جنوبی ایشیا سمیت
پاکستان اور بھارت کیلئے اہم مسئلہ ہے ،کشمیر کے حوالے سے دونوں ممالک کا
یہی موقف ہے کہ یہ ہمارا حصہ ہے مگر بھارت اسے اٹوٹ انگ سمجھتا ہے۔
ویسے تو پاک بھارت تعلقات کو خراب کرنے میں بھارت سرکا ر کا گہراہاتھ رہا
ہے ،ہر نیا حکمران پاکستان کو سخت حالات سے دوچار کرنے کی پالیسی لے کر آتا
ہے اور حالات کو خراب کرنے میں اپنا حصہ ڈالنے میں پیش پیش رہتا ہے مگر
پاکستان کیلئے بغض رکھنے میں موجودہ وزیراعظم نریندر مودی سب سے آگے نکل
چکے ہیں اور موجودہ حالات کو بوائلنگ پوائنٹ تک لے جانے کی ذمہ دار بھی
مودی کی انتہاپسندانہ سوچ ہے۔یہی وجہ ہے کہ مودی عالمی قوانین اور سفارتی
آداب کو جوتی کی نوک پررکھتے ہوئے پاکستان میں مداخلت کا برملا اعتراف بھی
کر چکا ہے۔پاکستان بھارتی جارحیت کیخلاف شدید احتجاج کرنے کے ساتھ ساتھ
عالمی طا قتوں سے اپیل بھی کرتا ہے کہ وہ اس کا ناصرف نوٹس لیں بلکہ اس
جارحیت کو روکیں کیونکہ بھارت کا جارحانہ طرز عمل خطے کے امن کیلئے خطرہ
ہے۔مگر اس کا خاطر خواہ فائدہ نہیں ہو تاکیونکہ عالمی طاقتیں بھارت کو اپنا
دوست رکھتی ہیں جس کی بنا پراقوام متحدہ اور عالمی امن کی تنظیموں کو بھارت
کا جارحانہ رویہ نظرنہیں آتا ۔حقیقت میں بھارت ایشیا میں اپنی جارحیت اور
پاگل پن کی وجہ سے خطرہ بن چکا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر شر انگیزی اور بربریت
کا سلسلہ نیا نہیں ۔
پاکستان کی طرف سے بھارتی گولہ باری کا ترکی بہ ترکی جواب دیا جاتا ہے مگر
یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ لائن آف کنٹرول کی اہمیت
کیا ہے؟ لائن آف کنٹرول یا ایل او سی جنوبی کشمیر، وادی اور کارگل کو
پاکستان کے زیرِ انتظام آزاد کشمیر اور بلتستان سے الگ کرنے والی سرحد لائن
آف کنٹرول ( سابق سیز فائر لائن ) کہلاتی ہے اور پھر سیاچن گلیشیئر تک واضح
حد بندی نہ ہونے کے سبب لائن آف ایکچوئل کنٹرول کہلانے لگتی ہے یعنی وہاں
جو دستہ جس جگہ ہے وہیں سرحدی حدبندی ہے۔( یہ لائن آف ایکچوئل کنٹرول بھارت
اور چین کے درمیان کی ایل او اے سی سے الگ معاملہ ہے)۔بین الاقوامی سرحدی
لکیر کو چھوڑ کے ورکنگ باؤنڈری اور لائن آف کنٹرول کی لمبائی740کلومیٹر
بنتی ہے۔سیز فائر معاہدے کی تجویز 2003میں پاکستان نے ہی دی تھی جبکہ بھارت
کی جانب سے بھی اس پر رضا مندی ظاہر کی گئی تھی۔جس کے نتیجے میں دونوں
ممالک نے بات چیت کے بعد سیز فائر کے معاہدے پر دستخط ہوئے۔جس کے مطابق
دونوں ممالک کیلئے لازم ہو گا کہ وہ’ سیز فائرمعاہدہ‘ کااحترام کرتے ہوئے
لائن آف کنٹرول کو عبور نہیں کریں گے اور نا فائرنگ اور بارود کا استعمال
کیا جائے گا مگر بھارت لائن آف کنٹرول پر جب چاہے فائرنگ کر کے حالات کو
کشیدہ کرنے کے ساتھ معصوم جانیں لیتا ہے اوریہ سلسلہ وقفے وقفے سے جاری
رہتا ہے ۔ جب سے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے جنرل اسمبلی کے خطاب میں
بھارت کے مذموم عزائم کا دنیا کو آئینہ دکھایا اسی روز سے بھارت کا جنون
پاگل پن میں بدل گیا ہے اور حالات مزید ابتر ہو گئے ہیں۔4اکتوبر 2017کو
بھارتی فورسز نے راولا کوٹ اور چری کوٹ سیکٹر پر پاکستانی علاقے میں
بلااشتعال فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق ہوگئے توپاک فوج کی
مؤثر اور جوابی کارروائی کے نتیجے میں 3 بھارتی فوجی مارے جبکہ 5 بھارتی
فوجی زخمی ہوئے۔اسی طرح3اکتوبر کو بھارتی فورسز کی بلا اشتعال فائرنگ کے
نتیجے میں ایک بزرگ پاکستانی شہری شہید اور 5 افراد زخمی ہوئے۔ نیزہ پیر
اور دیگوار سیکٹرز میں شیلنگ کا آغاز صبح 6 بجے ہواجس میں بھاری اور چھوٹے
ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا تاہم پاک فوج کی جانب سے بھارتی فورسز کی
چوکیوں کو نشانہ بنایا گیا جس کے بعد بھارتی توپیں خاموش ہوگئیں اور پھر
30ستمبر2017کو بھی بھارتی فوج نے ایل او سی پر رخ چکر اور راولاکوٹ میں
شہری آبادی کو نشانہ بنایاجس کے نتیجے میں خاتون سمیت دو شہری شہیداور ایک
زخمی ہوا۔ بھارتی فوج نے بھاری ہتھیاروں سے شہری آبادی کو نشانہ بنایا۔
نشانہ بننے والے شہریوں کے انخلا میں مدد دینے والی آرمی پٹرول ٹیم پر بھی
فائرنگ کی تو نائب صوبیدار ندیم شہید اور تین فوجی جوان زخمی ہوئے۔حالات اس
قدر سنگین صورت اختیار کر گئے ہیں کہ سرجیکل سٹرائیکس کی فوجی سربراہ کی
دھمکی کے بعد بھارت نے نیوکلیائی ہتھیار چلانے کی صلاحیت رکھنے والا فوجی
ڈویژن بھی کچھ روز قبل اکھنور سیکٹر میں کنٹرول لائن پر بھیج دیا ہے۔ چور
مچائے شور کے مصداق بھارتی میڈیا نے الزام لگایا کہ پاکستان کی طرف سے
کنٹرول لائن پر نیوکلیائی ہتھیار نصب کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا جس کے
پیش نظر صورتحال دھماکہ خیز بنتی جار ہی ہے یعنی الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔
ایل او سی پر بھارتی جارحیت نئی نہیں ہے اس سے قبل بھی بھارت یہ کام کرتا
چلا آیا ہے۔رواں سال کی صورتحال تو آپ کے سامنے ہے جبکہ 2016کا سال بھی پاک
بھارت تعلقات کے حوالے سے انتہائی تلخ رہا، 2016میں بھارت نے 90 سے زائد
مرتبہ سیزفائر معاہدے کی خلاف ورزی کی تھی،جس میں افواج پاکستان کے بیٹوں
نے جام شہادت نوش فرمایا اور کافی تعداد میں زخمی ہوئے۔اس کے علاہ شہری
آبادی والے علاقوں میں بھی بھارتی مظالم کی وجہ سے کہرام بپا ہوا۔اسی
طرح2015میں بھی پاک بھارت تعلقات کشیدگی کی انتہاپر رہے۔اس کا اندازہ اس
بات سے لگانا مشکل نہیں ہے کہ بھارت نے 2015میں2ماہ کے قلیل عرصہ میں 70
بار سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فوجی جوانوں سمیت عام شہریوں
کو نقصان پہنچایا۔ 2014میں بھی بھارت نے200 سے زائد مرتبہ سیزفائر معاہدے
کی خلاف ورزی کی تھی۔اسی طرح سال2013اور2012میں بھی بھارت کی جانب سے سیز
فائر معاہدے کی خلاف ورزی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ عسکری حکام
کی جانب سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق 2013میں چھوٹی اور شدید سرحدی خلاف
ورزی کے320واقعات دیکھنے میں آئے جن میں 10فوجی اور8عام شہری ہوئے۔ان حملوں
میں 35سے زائد شہری اور 15سے زائد فوجی زخمی ہوئے۔2012میں بھارت کی جانب سے
83مرتبہ شدید سرحدی خلاف ورزیاں کی گئیں جس کے نتیجے میں ایک فوجی اور4عام
شہری شہید ہوئے جبکہ 8فوجی اور 100سے زائد عام شہری زخمی ہوئے۔اس سے ثابت
ہوا کہ بھارت پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں
دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے اشتعال انگیز رویئے سے حالات پوائنٹ آف نو
ریٹرن پر پہنچ سکتے ہیں جس سے جنوبی ایشیاکے امن کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے
ہیں اور اس سے عالمی امن بھی متاثر ہوگا۔اس لئے عالمی امن کے ٹھیکیداروں سے
اپیل ہے کہ وہ بھارت کو سختی سے جارحیت اور معصوم جانوں کے ضیاع سے روکے۔
٭٭٭٭٭ |