سرسید کے دو سو سالہ جشن ولادت پر خصوصی مضمون

سرسید احمد خان۔ ایک عہد ساز شخصیت
( 5ذی الحج1232ھ؍17۱کتوبر 1817 ۔ 5 ذی قعدہ1315 ھ؍27 مارچ 1898)
علم کے عظیم مدبر، مصلح، مصنف، ھَمَمہ داں و ھمہ صفت، رہبرو رہنما، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی ، جدید علم کی ترسیل و تبلیغ کے مُخترع،ایک نقطہ نظر و تحریک کے مبدع شخصیت سر سید احمد خان کی پیدائش 17اکتوبر 1817کو ہوئی جسے اب پورے دو سو سال ہوچکے ۔ دو سو سالہ جشنِ سر سید دنیا کے بیشتر ممالک خصوصاً پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، جرمنی، برطانیہ، امریکہ اور جہاں جہاں اردو بولنے اور سمجھنے والے آباد ہیں بڑے جوش و اہتمام سے منارہے ہیں۔سرسید کے بارے میں الطاف حسین حالیؔ نے کہا ؂
بعدِ قرونِ اولیٰ کس نے کیا بتاؤ
سید نے کام آکر جو قوم میں کیا ہے

سر سید پر لکھنے کے حوالے سے بابائے اردو مولوی عبد الحق کا کہنا تھا کہ’ ’اس عہد اور ماحول کو پیش نظر رکھ کر سرسید کی زندگی کے کارناموں کی صحیح تصوریر کھینچنا بڑی محنت اور فرصت کا کام ہے اور شاید میں اس کام کا اہل بھی نہیں‘‘۔ایک ایسا شخص جسے کئی سال سرسید کو قریب سے دیکھنے ، ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کا موقع ملا ہو ، لکھنے کی عمدہ ترین استطاعت رکھتا ہو اور پھریہ کہ وہ سرسید کے مداح اور ان کے خیالات و نظریات سے ہم آہنگ بھی ہو اپنے آپ کو سرسید جیسی شخصیت پر لکھنے کا اہل نہیں سمجھ رہا تو مَیں کیا میری بساط کیا ، نہ ہی یہ میرا مقام ہے کہ میں علم کے اتنے عظیم مدبر، مصلح، مصنف، ھَمَمہ داں و ھمہ صفت، رہبرو رہنما، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی ، جدید علم کی ترسیل و تبلیغ کے مُخترع،ایک نقطہ نظر و تحریک کے مبدع شخصیت پر قلم اٹھاؤں۔ لیکن یہ بھی دستور ہے زمانے کا ، لکھاریوں کا، مورخین کا کہ وہ بساط بھر حصہ ڈالتے ہیں عظیم شخصیات کی عظمت کو اور زیادہ عظیم کرنے میں حالانکہ وہ تو پہلے ہی عظمت کی بلندیوں کو چھو رہے ہوتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ جس طرح عظیم لوگوں کو دیکھ لینا عظمت ہے اسی طرح عظیم شخصیات پر اپنی بساط کے مطابق قلم کی روشنی کو روشن چراغ کے ایندھن میں شامل کر لینا ہی مجھ جیسے ھیچ مدان کے لیے بڑی بات ہے۔ مَیں تو علم و عمل کے اس کلاں کو ان کے د و سو سالہ جشن ولادت (17 اکتوبر2017ء) کے موقع پر خراج عقیدت پیش کرنا چاہتا ہوں۔سر سید احمد خان دو سو سال قبل اسی ماہ پید ا ہوئے اور 27مارچ 1898کو دنیاسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوئے۔ سر سید مسلمانوں کے دلوں میں آج بھی موجود ہیں۔ ان کا علمی و تحریری،ان کی سوچ وفکر، ان کا فلسفہ آج بھی ہماری رہنمائی و رہبری کر رہا ہے۔کسی شاعر نے سرسید کے لیے کیا خوب کہا ؂
صورت سے عیاں جلالِ شاہی چہرے پہ فروغ صبح گاہی
وہ ریشِ دراز کی سُپیدی چھٹکی ہوئی چاندنی سحر کی

سر سید احم خان کی ولادت دو سو سال قبل17 اکتوبر1817ء کو دہلی میں پیدا ہوئی تھی۔اس حوالے سے سترہ اکتوبر 2017 کو سر سید کے چاہنے والے پوری دنیا میں سرسید احمد خان کی 200 سالہ جشن کا اہتمام کر رہے ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک خاص طور پر پاکستان، ہندوستان (بھارت) ، بنگلہ دیش، جرمنی، ماریسش، امریکہ اور برطانیہ میں مختلف پروگراموں کا اہتمام کیاجاچکا ہے اور جیسے جیسے یہ تاریخ قریب آرہی ہے تقریبات کے انعقاد کا سلسلہ جاری ہے۔ خاص طور پر سرسید حیات وخدمات، سرسید مذہبی علوم، سرسید اور سائنٹفک سو سائیٹی، سرسید اور علی گڑتحریک جیسے موضوعات پر سیمنار اور کانفرنسیز کا ہتمام کیا جاچکا ہے ۔ علی گڑھ مسلم یونیوروسٹی اولڈ بوئز ایسو سی ایشن کے زیر اہتما بھوپال میں ’یاد سرسید ‘کے عنوان سے تقریب کا اہتمام ہوا، پروفیسر رضاء اللہ خان کا کہنا تھا کہ سر سید احمد خان کے حاصلات محض علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام تک محمود نہیں بلکہ انہوں نے زندگی کے مختلف میدانوں جیسے صحافت، تاریخ اور سائنس میں بیش قیمتی تعاون پیش کیا۔ لہٰذا وہ ’’بھارت رتن ‘‘ کے حق دار ہیں۔ فرحت علی خان نے کہا کہ سر سید احمد خان نے اپنی سیکولر اور سائنسی فکر سے ہندوستانی معاشرہ میں مثبت تبدیلی لانے میں کامیابی حاصل کی ، وہ انسانیت کے علمبردار تھے، ڈاکٹر جسیم محمد نے کہا کہ سر سید احمد خان ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے اور ان کی خدمات پر وسیع تحقیق کی ضرورت ہے۔ پروفیسر شیخ مستان کے خیال میں ملک اور سماج کے لیے سر سید احمد خان کی خدمات کو کسی ایک زمرے میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ انہوں نے تعلیم اور صحافت سے لے کر تاریخ نویسی اور سماجی اصلاح میں اپنے گہرے نقوش مرتب کئے ۔اس سلسلے میں ماریشس میں بھی جولائی2017کو سر سید کے دو سالہ تقریبات کا اہتما کیا گیا، اس موقع پر نمائش کا اہتمام بھی کیا گیا، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروفیسر ثمینی خان نے کہا کہ سر سید احمد خان کا نظریہ اے ایم یو کو تعلیمی ادارے کی شکل میں قائم کر کے صرف تعلیم کے توسط سے سماجی سیاسی اور ثقافتی تحریک چلانا تھا تاکہ عوام خود کفیل ہوسکیں اور قومی ترقی میں اقلیتوں کی سرگرم حصہ داری ہو‘‘۔

جرمنی میں اردو کی ترقی اور فروغ کے لیے قابل تعریف کام ہورہا ہے۔ جرمنی کے شہر برلن میں سرسیدکی دو سو سالہ یوم پیدائش تقریب کا اہتمام اردو انجمن کے تحت کیا گیا۔ اس تقریب میں مختلف ممالک کے مندوبین نے بھی شرکت کی بیلجیم کے صحافی و محقق خالد حمید فاروقی نے کہا کہ سر سید نے مسلمانوں کو اردو زبان کے ساتھ ایک شناخت دی اور انہیں جدید تعلیم حاصل کرنے کی جانب راغب کیا۔ لکھنؤ کی مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی لکھنؤ کیمپس شعبہ اردو کی صدر ڈاکٹر عشرت ناہید نے سر سید احمد خان کومحسن علم و زبان قراردیا، انہوں نے سرسید کو جنگ آزادی کا راہنما گردانتے ہوئے ان کی شخصیت کے کچھ ایسے پہلوؤں کواجاگر کیا جس میں سر سید احمد خان کی روحانی طبیعت کے پر اسرار خوابوں کا تذکرہ تھا۔ ان کاکہنا تھا کہ سرسید ہمارے لیے بہترین ماڈل ہیں۔ فرینکفرٹ کے وحید قمر نے سر سید کو برصغیر میں اقلیتوں اور مسلمانوں کا نجات دہندہ قرار دیا۔ اس موقع پر ڈااکٹر عشرت معین سیما نے اپنے افسانہ نگاری سے سامعین کے دل موہ لیے۔

پاکستان میں بھی سر سید احمد خان کی علمی، ادبی، مذہبی، سماجی خدمات اور ان کی شخصیت کو انتہائی احترام اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ سر سید کی شخصیت، خدمات اور ان کے نظریات پر تحقیقی کام ہوچکا ہے اور جاری ہے۔ متعدد کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ سرسید پر ہونے والے قائد اعظم لائبریری لاہور کے ایک سیمینار میں مقررین نے سرسید کی شخصیت اور خدمات پر روشنی ڈالی۔ مجیب الرحمٰن شامی کا کہناتھا کہ ’سرسید احمد خان نہ ہوتے تو پاکستان وجود میں نہ آتا۔ جس درخت کی چھاؤں میں آج ہم بیٹھے ہیں اس کا بیج ا نہوں نے ہی ڈالا ‘۔ قیوم نظامی کا کہنا تھا کہ’ ہم وہ قوم ہے جو اپنے ہیروز کو اور ان کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کرتے۔ قائد اعظم ، علامہ اقبال اور سر سید احمد خان وہ ہیروز ہیں جنہوں نے ہمیں ایک آزاد ملک دیا، ان کے بنا پاکستان کا وجود ن اممکن تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کو حالات کے مطابق ڈھالا‘ ، بقول شاعر ؂
قوم کی ہر ایک مشکل علم سے آسان کی
ڈال دی پہلے ہی دن بنیاد پاکستان کی

جامعہ کراچی کے شعبہ اردو نے انجمن ترقی اردو پاکستان اور ایچ ای سی کے اشتراک سے ’’سر سید احمد خان دو سو سالہ یادگاری بین القوامی کانفرنس۔ ادب، تاریخ اور ثقافت: جنوب ایشیائی تناظر اور سر سید‘ کا اہتمام 16تا 18اکتوبر2017کو کیا ہے۔ جس میں ماہرین پوری دنیا سے شرکت ہوئے اور متعین موضوعات پر مقالات پیش کیے گے۔ انجمن ترقی اردو پاکستان نے اس عالمی کانفرنس میں پڑھے جانے والے مضامین و مقالات کو کتابی صورت میں شائع کرنے کا بھی اعلان کیا ہوا ہے۔ انجمن ترقی اردو پاکستان نے اپنے ادبی جریدے ’’قومی زبان‘‘ کا اکتوبر 2017کا خاص سر سیدنمبر شائع کیا ہے ۔جس میں مختلف لکھاریوں کے مضامین شامل ہیں ۔ انجمن نے اس موقع پر چار مطبوعات کی تدوین و اشاعت کا اہتمام کیا ہے ایک’ جہات سرسید ‘، سر سید احمد خان پر مضامین کا مجموعہ ہے، دوسری’ قومی زبان اور سرسید شناسی ‘، اس میں بھی سر سید احمد خان پر وہ30 مضامین ہیں جو قومی زبان میں شائع ہوچکے ہیں، اس کتاب کو ڈاکٹر تہمینہ عباس نے مرتب کیا ہے، تیسری کتاب سر سید احمد کی کتاب ’’آثار الصنادید ‘‘ کا دوسرا ایڈیشن شائع کرنا ہے، اس کتاب کا اولین ایڈیشن 1847میں نول کشور سے شائع ہوا تھا۔ چوتھی تخلیق سر سید کے دو سو سالہ جشن کے موقع پر پیش کیے جانے والے مقالات کا مجموعہ ہوگی۔اس موقع پر صائمہ قدیر اور فرزانہ عباس نے سرسید پر ایک کتا ب بعنوان ’’سر سید احمد خان (منظوم نذرانہ وعقیدت ) مرتب کی۔ میرے عزیز دوست محمود عزیز نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ مرتبین نے 55 شعرا کی 65منظومات کے ذریعے سر سید کی حیات و خدمات کو شعری لباس میں پیش کیا گی ہے ۔

سر سید احمد خان کی زندگی کی کہانی کا جائزہ ہمیں بتا تا ہے کہ سرسید جنہوں نے کمشنر کے دفتر میں نائب منشی کی حیثیت سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ ذہین تھے منشی ہوگئے ، پھرمنصفی کے امتحان میں شریک ہوئے کامیاب قرار پائے اور منصف (جج)بن گئے ۔ انصاف پسند ، نڈر ، بے باک ، اپنے فیصلے پر قائم رہنے والے تھے چنانچہ بے شمار مخلوق کو انصاف فراہم کیا۔ اﷲ نے سرسید سے اس کے علاوہ بھی بہت سے کا م لینا تھے۔ 1876میں سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوئے اور علی گڑھ کو اپنا مرکز و منبع بنایا۔ امپیریل کانسل کے رکن ، ایجوکیشن کیمشن کے رکن اور پبلک سروس کمیشن کے رکن کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ سرسید بنیادی طور پر مصنف تھے ، سرکاری ملازمت میں رہتے ہوئے بھی انہوں نے لکھنے کا آغاز کردیا تھا اور کئی کتابیں بھی لکھ چکے تھے۔ اسی زمانے میں انہیں یہ احساس ہوگیاتھا کہ سرکاری ملازمت ان کے اصل مقاصد کی تکمیل میں رکاوٹ بن رہی ہیں۔ حالانکہ حکومت ان کی ایمانداری، سچائی، محنت سے کام کرنے کی دل سے قدر داں تھی یہی وجہ ہے کہ حکومت نے انہیں ’سر‘ کے خطاب سے نوازا اور اسی حوالے سے وہ ’سر سید‘ کے نام سے معروف ہوئے حالانکہ ان کا اصل نام ’احمد ‘ ہے۔ اس کے باوجود انہوں نے یہ محسوس کر لیاتھا کہ وہ آیندہ زندگی میں جو کچھ کرنا چاہتے ہیں اس میں سرکار انہیں برداشت نہیں کرے گی چنانچہ انہوں نے سرکاری ملازمت سے مستعفی ہوگئے اور آزادی سے تصنیفی، تالیفی اور علم کے فروغ کی تحریک میں اپنی زندگی وقف کردی۔
اندھیرے جہل کے سب روشنی میں ڈھلنے لگے
اور اک چراغ سے لاکھوں چراغ جلنے لگے

سرسید ایک شخصیت کا نام نہیں بلکہ وہ اپنی ذات میں ایک ادارے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی ذاتی حیثیت میں جو کچھ لکھا وہ تو اپنے جگہ معیار و تعداد کے اعتبار سے منفرد ہے مسلمانوں میں علم کے حصول کی جو تحریک انہوں نے شروع کی اور انگریزی سیکھنے کا مشورہ دیا اس کی بنیاد بنا کر انہیں فتووں اور کافروں کا ساتھی قرار دیا گیا لیکن یہ مرد آہن ، استقامت پہاڑ ثابت قدمی کے ساتھ، لوہے کی لاٹھ اور چٹان کی طرح مضبوطی سے اپنے موقف پرڈٹا رہااور کامیاب و کامران رہا۔ ایک وقت آیا کے لوگوں نے سرسید کی خیالات کی و نظریات کی نہ صرف تائید کی بلکہ انہیں وقت کی ضرورت قرار دیا ۔سرسید کے خیالات و نظریات کی ناقدری بھی کی گئی، ان کے لیے عجیب و غریب قسم الفاظ اور جملے بھی کہے گئے۔ فتوے بھی جاری ہوئے ۔ قدر دانوں نے ان کی قدردانی بھی کی انہیں قوم کی ناؤ کھینے والا بھی کہا گیا ۔ علامہ شبلی نعمانی ان کے بارے میں کہا ؂
وہ مل پر جان دینے والا وہ قوم کی ناؤ کھینے والا
کیا کیا نہ مصیبتیں اُٹھائیں ہر طرح کی ذلتیں اٹھائیں
برگشتہ کہا کسی نے دیں سے لعنت کا صلہ ملا کہیں سے
خود قوم کو ہوگئی تھی یہ کَد زندیق کہا کسی نے مرتد

سرسید نے مسلمانوں کے لیے حصول علم کی جو تحریک شروع کی تھی اس میں وہ تنہا نہیں رہے بلکہ بڑی تعداد میں لوگ ان کے ہمنواا ور ساتھی بن گئے۔ان کی مثال اس شعر کی مانند ہے ؂
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

اپنے نظریے کو عام کرنے ، اپنی بات کو سمجھانے اور مسلمانوں تک پہنچانے کے لیے سرسید نے اپنی تحریروں کا سہارا لیا۔ ان میں تصانیف و تالیفات بھی ہیں اور اخبارت و رسائل میں شائع شدہ مضامین بھی۔وہ مسلسل لکھتے رہیے اور چھپتے رہے۔ ان کی حیثیتوں کا تعین کرنا کہ ان کی خدمات میں سے سے زیادہ کسے مقدم رکھا جائے مشکل ہے۔ وہ ہمیں منصف بھی نظر آتے ہیں، وہ مذہبی مصلح بھی دکھائی دیتے ہیں،جدید علم الکلام کی بنیاد ڈالی جس کی بناء بپر قرآن مجید کے مندرجات کو عقل و سائنس کی روشنی میں تفصیل سے بیان کیا، قومی رہنما تو وہ تھے ہی، تعلیمی خدمات میں انہوں نے مسلمانوں سے کہا کہ ترقی کرنی ہے تو علم حاصل کرو ۔ سر سیدبلا تفریق ہندوستان کے تمام لوگوں بشمول ہندو اور مسلمانوں کو یکساں تعلیم حاصل کرنے کے خواہ تھے۔ ا س دور میں وہ دونوں قومیتوں کو ایک ہی نظر سے دیکھ رہے تھے ۔ پھر ان کی سوچ میں تبدیلی آئی اور انہوں نے مسلمانوں کو خاص طو ر پر تعلیم حاصل کرنے اور وہ اردو زبان کے لیے سوچنے لگے۔ سرسیدانگریزی کے علاوہ فارسی، عربی اردو ز ساتھ ہی دینی علوم پر بھی دسترس حاصل تھی ۔ انہوں نے مسلمان مفکرین کے خیالا ت و نظریات کا مطالعہ کیا خاص طو رپر صحابی، رومی اور غالب ؔ کو پڑھا۔ سرسید جو دیکھنے میں مولوی لگتے تھے باوجود اس کے کہ انہیں دینی علوم پر بے انتہا دسترس حاصل تھی وہ ایک اچھے تیراک، پہلوانی کے ماہر اور دیگر کھیلوں میں بھی حصہ لیا کرتے تھے۔ انہوں نے مغلیہ دور کی عدالتوں کی ثقافتی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
سرسید کے ادبی کارناموں میں سب سے بڑی اور سب سے زیادہ نمایاں حیثیت ان کی مضمون نگاری اور مقالہ نویسی ہے وہ اپنے دور کے بڑے اور اعلیٰ مضمون نگار تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں سینکڑوں مضامین اور طویل مقالے انتہائی تحقیق و تدقیق، محنت و کاوش اور لیاقت و قابلیت سے لکھے ، اور اپنے پیچھے نادر و تحقیقی مضامین اور بلند پایہ مقالات کا یک عظیم ا لاشان ذخیرہ چھوڑا گئے۔سر سید کے مضامین میں حقا ئق بھی ہیں اور ادبی لطائف بھی، سیاست بھی ہے اور معاشرت بھی، اخلاقیات بھی ہے موعظمت بھی، مزاح بھی ہے طنز بھی، درد بھی ہے سوز بھی، دلچسپی بھی ہے دلکشی بھی، نصیحت بھی ہے سرزنش بھی الغرض ان کی تحریریں ہر موضوع پر لکھنے اور تحقیق کرنے والے کے لیے رہنما ئی کا بہترین ماخذ ہیں۔ جہاں تک ان کی تصانیف و تالیفات کا تعلق ہے وہ تعداد اور معیار کے اعتبار سے مختلف شعبہ جات میں رہنما ئی کررہی ہیں ان کی تصانیف و تالیفات میں ’تسہیل فی جر ثقیل‘1844، یہ کتاب ابو علی کے رسالے معیار الحق کا ترجمہ تھا، ’آثار الصنفادید‘1847،’قول متین در ابطال حرکت زمین‘1848اس میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے لیکن بعد میں سر سید یورپین فلسفہ کہ زمین سورج کے گومتی ہے کے قائل ہوگئے تھے۔ یہ تصانیف سرسید کی سائنسی موضوعات سے دلچسپی ظاہر کرتی ہیں، رسالہ راہ سنت و بدعت ‘1850،سلسلہ الا مملوک 1852، ’آئین اکبری‘ 1855، ’اسباب بغاوت ہند‘1858’سرکشی ضلع بجنور‘1858،’تبئین الکلام فی تفسیر التورات و انجیل‘1862،’تبئین الکلام (بائیبل کی تفسیر)1863،’تزکِ جہانگیری‘ 1864،رسالہ احکام طعام اہل کتاب ‘1868،’انگریزی میں تاریخ بغاوت بجنور‘1869،’الخطبات الااحمدیہ‘1870،’رسالہ تہذیب الا خلاق‘ کا اجراء 24دسمبر1870سے شروع ہوا،’On Hunter's our Indian Musalmans‘، 1872یہ کتاب ڈاکٹر ھنٹر کی کتاب کا جواب تھاجس میں ھنٹر نے مسلمانوں اور وہابیت کے بارے میں بھی لکھا تھا۔’بغاوت ہند 1858کے اسباب(انگریزی)، 1873، ’ذلا القلبِ ذکر الا محبوب ‘1879،’ازالہ الاذولا قرنین ‘ 1889،’طرقیم فی قصہ اشب الکہاف والا راقم‘1889’خلاق الاانسان الاما فی القرآن‘1891,’تفسیر الاجن والاجنا ن الامافی اقرآن‘1891،’ابتالِ غلامی‘ 1893،جس میں سر سید نے ثابت کیا کے غلامی قدرت کے خلاف ہے اور آزادی اور غلامی دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔’صراط فریدیہ‘1896,،’انتخاب الا خوانین یعنی قواعد دیوانی کا خلاصہ‘، تاریخ فیروز شاہی،کلمتہ الحق، تحقیق لفظ نصاریٰ، ’خلاق الا انسان الامافی القرآن ‘قرآن کی تفسیر ستھرویں پارے تک لکھ پائے تھے کہ انتقال ہوگیا،اخبار ’علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ‘ کے نام سے جاری کیا۔ علی گرھ مسلم یونیورسٹی اپنی مثال آپ تھی جس کی علمی خدمات آج بھی دنیاکو اپنے وجود سے روشن کیے ہوئے ہیں ۔ صبا اکبر آبادی کے بقول ؂
وہ علی گڑھ روکش غرناطہ و بغداد تھا
اس میں علم و آگہی کا اک جہاں آباد تھا

الطاف حسین حالیؔ نے ’’حیات جاوید ‘‘ میں لکھا کہ سر سید احمد خان نے اپنی کتاب ’آئینِ اکبری‘ ۱۸۵۵ء میں مکمل کی۔ انہوں نے محسوس کیا کہ مرزا اسد اﷲ خان غالبؔ ایک ایسی شخصیت ہیں کہ جو ان کی اس علمی کا وش اور محنت کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے۔ سر سید نے مرزا غالبؔ سے رابطہ کیا کہ وہ اس کتاب کی تقریظ (اس وقت کی روایت کے مطابق ثنائیہ پیش لفظ) تحریر کردیں۔غالبؔ نے سر سید کی حوصلہ شکنی نہیں کی بلکہ ان کی کاوش کو وقعت کی نگاہ سے دیکھا ۔ غالبؔ نے کتاب کا احاطہ کرتے ہوئے اپنے طور پر ایک اصلاحی نظم لکھی جو فارسی میں تھی۔سرسید نے اس تقریظ کو آئین اکبری میں شامل کرنا مناسب نہ سمجھا۔ یہ نظم سر سید کی کتاب آئینِ اکبری‘ کا پیش لفظ یا تقریظ ضرور ہے لیکن اس کتاب کا حصہ نہیں۔ یہ دیباچہ یا مثنوی تعریفی نہیں بلکہ اس میں مصنف کی سرزنش بھی کی گئی اور بہت سے مفید مشورے غالبؔ نے سرسید کو دئے۔ دیباچہ نگاری کے سفر میں یہ اہم پیش رفت تھی اور غالب ؔ کی جانب سے دیباچہ نگاروں کو یہ پیغام بھی تھاکہ دیباچہ یا تقریظ صرف ثنائی ہی نہیں ہونی چاہیے بلکہ اصلاحی یا تنقیدی بھی ہوسکتی ہے۔

سر سید کا شمار ایسے ذہین اشخاص میں ہوتا ہے کہ جو خداداد صلاحیتوں کے مالک ہی نہیں بلکہ طبعی طو ر پر ذہین ہوتے ہیں۔ وہ جدید علم الکلام کے خالق تصور کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنی بات کو ، نظریات کودلائل کے ساتھ، علم و فراست کی روشنی میں، قرآنی موضوعات کو سائنسی اصولوں کی روشنی میں بیان کرنے کے لیے تحریر کاسہارا لیا۔ وہ زبانی جمع خرچ کرنے والے انسان نہ تھے بلکہ ایک پریکٹیکل انسان تھے جو بات کہنا چاہتے اپنی تحریر کے ذریعہ لوگوں تک پہنچا تے۔ وہ انسان کی بھلائی اور بہتری کے خواہش مند تھے۔ مسلمانوں کی ترقی اور آگے بڑھنے کے خواہش مند تھے۔ اس کے لیے انہوں نے بھر پور طریقے سے اپنے قلم کا سہارا لیا، اسے استعمال کیا اور کامیاب و کامران ہوئے۔ علی گڑھ تحریک کا فیض سے سے دنیا ایک طویل عر صے تک فیض حاصل کرتی رہے گی۔ سرسید کے قائم کردہ اداروں سے فیض حاصل کرنے والوں نے ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ پاکستان میں بھی نمایاں خدمات انجام دیں۔ علی گیرین ہونا ایک اعزاز تصور کیا جاتا ہے۔ سرسید ہماگیر اور کثیرالا قسم خصوصیات اور اوصاف کے حامل تھے ۔ ایسے لوگ دنیا میں کم کم پیدا ہوتے ہیں۔معروف شاعر اکبر الہٰ آبادی نے سر سید احمد خان کی متعدد خوبیوں کو خوبصورتی سے منظوم کیا ہے ؂
ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کا م کرتا تھا
نہ بھولو فرق جو ہے کہنے والے کرنے والے میں
کہے جو چا ہے کوئی میں تو یہ کہتا ہوں اے اکبرؔ
خدا بخشے بہت سے خوبیاں تھیں مرنے والے میں
(17اکتوبر2017)

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1273613 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More