غیبت کا وبال ……!

 دین فطرت اسلام جو طرز معاشرت انسان کو سکھانا چاہتا ہے اس کی بنیاد باہمی ہمدردی اور خیرخواہی پر ہے ۔اگر معاشرے کو انسان کے لئے مفید بنانا ہے تو اس کا طریقہ کار فقط یہی ہوسکتا ہے کہ انسان دوسروں کے کام آئے ، اور ہردوسرے انسان کی فلاح و بھلائی کی کوشش کے لئے ہر وقت متحرک رہے۔ زبان سے کسی کو برا بھلا کہنا اگر اس کے منہ پر ہے تو یہ اس سے لڑائی کا یا اس کا دل دکھانے کا سامان ہے اور اگر اس کے پیٹھ پیچھے ہے تو یہ اس پر جھوٹا الزام اور اس کی غیبت ہے ۔ حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان عظیم ہے جب مجھے میرا ربّ معراج میں لے گیا تو میں ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرا کہ ان کے ناخن پیتل کے تھے وہ اپنے چہروں اور سینوں کو ان سے نوچ رہے تھے، میں نے جبرائیل ؑ سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں انہوں نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے تھے (یعنی غیبت اور پیٹھ پیچھے بدگوئی کرتے تھے) اور ان کی آبرو کے پیچھے پڑے رہتے تھے (مشکوۃ شریف) ۔حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار دوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان عظیم ہے ’’ تم جانتے ہو کہ غیبت کیا ہے لوگوں نے کہا، اﷲ اور اس کا رسول صلی اﷲ علیہ وسلم ہی زیادہ جانتے ہیں، فرمایا اپنے بھائی کی بابت ایسی بات کہنا جسے وہ ناپسند کرتا ہے۔ کسی نے کہا ،کیا ارشاد ہے کہ میرے بھائی میں وہ بات موجود ہے جو میں کہہ رہا ہوں، فرمایا اگر اس میں وہ بات موجود ہے جوتم کہہ ر ہے ہو تووہ اس کی غیبت اور اگر اس میں وہ بات موجود ہی نہیں ہے جوتم کہہ رہے ہو توتم نے اس پر بہتان لگایا(مشکوۃ شریف)۔ اس حدیث مبارکہ میں دونوں باتوں کو برا کہا گیا ہے، غیبت یہ ہے کہ دوسرے کے عیب گنوائے جائیں اور اس کی ان باتوں کو ظاہر کیا جائے جنہیں وہ ظاہر کرنا نہیں چاہتا، اس سے معاشرے کی غرض پوری نہیں ہوتی بلکہ اسے الٹا نقصان پہنچتا ہے اور یہ بالکل ظاہر ہے کہ معاشرے کی غرض پوری نہ ہونے دینا شیطانی کام ہے، معاشرہ تو اس لئے تھا کہ اس سے باہمی رنجشیں دور ہوں اور ایک دوسرے کو تکلیف اور کوفت سے بچایا جائے اگر اس سے جھگڑے اور ایک دوسرے کی دل آزاری کا سامنا پیدا ہونے لگے تو اس سے فطرت کا مقصد حاصل نہ ہوا، فطرت سے ہٹنا یا اس کا مقصد پورا نہ ہونے دینا انسانی نہیں بلکہ شیطانی کام ہے۔ حضرت معاذ بن انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان عظیم ہے جس نے ایک ایماندار آدمی کو منافق کے ہاتھ سے بچایا اس کے لئے اﷲ تعالیٰ ایک فرشتہ مقرر کردے گا جو قیامت کے دن اس کے بدن کو دوزخ کی آنچ سے بچائے گا، اور جس نے کسی مسلمان کے سر کوئی بات لگائی، اﷲ تعالیٰ اسے جہنم کے پل پر روکے رکھے گا، کہ جب تک وہ اپنے قول سے بری نہ ہوجائے۔ ‘‘ جو شخص دوسرے کی برائی اس کی پیٹھ پیچھے کرتا پھرے وہ منافق ہے، منافق ظاہر میں دوست بنا رہتا ہے لیکن باطن میں وہ دشمن ہوتا ہے ، دوستی کے پردے میں دوسرے کے عیب تاکتا رہتا ہے اور پیٹھ پیچھے عیب لوگوں کے سامنے ظاہر کردیتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ جو شخص ایک بھولے بھالے مسلمان کو ایسے دوغلے آدمی سے بچائے گا اس کے بدن کو دوزخ کی آگ جلا نہ پائے گی ،ایک فرشتہ اسے دوزخ سے بچاتا رہے گا، مسلمان کو اس گھر کے بھیدی منافق سے بچانے کی صورت یہ ہے کہ یا تو اس کا اس کے پاس آنا جانا بند کردے اور یا جب وہ برائی کرے تو اس کو جھوٹا ثابت کرکے ایک بھلے مانس کی آبرو بچائے۔ اس کے بعد اس بدنام کرنے والے کی سزا سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے کہ کسی مسلمان کو جان بوجھ کر رسوا کرنے والا جہنم کے پل کے اوپر روک کر کھڑا کردیا جائے گا اور وہاں جہنم کی تپش سے اس کا بدن جھلستا رہے گا اور اسے تب چھوڑا جائے گا جب وہ اس گناہ سے پاک ہوجائے گا۔ حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان عظیم ہے غیبت کے وبال سے چھٹکارا پانے کی صورت یہ ہے کہ جس کی تو نے غیبت کی ہے اس کے لئے مغفرت کی دعا کر اور یوں کہہ کہ اے اﷲ ہمیں بخش اور اسے بھی بخش دے۔ ایک دوسرے موقعہ پر سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غیبت اس وقت تک معاف نہیں ہوتی جب تک وہ شخص جس کی غیبت کی گئی ہے اسے معاف نہ کردے‘‘ ۔ اور جب اس شخص سے ملنے کی کوئی صورت ہی نہ رہی ہو،یا اس کا انتقال ہوچکا ہو تو ایسی صورت میں غیبت کی معافی کی شکل صرف ایک ہے، جو اس حدیث میں بیان کی گئی ہے کہ اس کے لئے استغفار کرے یعنی یوں دعا کرے کہ یا اﷲ ہماری مغفرت فرما اور اس کی بھی مغفرت فرما، اس طرح امید کی جاسکتی ہے کہ اس غیبت کا گناہ جو اس نے کی ہے معاف ہوجائے۔

دور حاضر میں جہاں مردوں میں غیبت کی بیماری پائی جاتی ہے وہاں عورتیں بھی پیچھے نہیں، عورتوں کا معمول ہے کہ ہر ایک کے خلاف بات کرنا ۔قرآن و حدیث میں دوسروں کے حقوق کا بڑا خیال رکھا گیا ہے، دوسرے کو ستانا کسی قسم کی تکلیف پہنچانا یا ایسی بات کرنا جس سے اسے رنج ہو بہت ہی بری بات ہے، اگر کسی سے نادانی کے باعث کوئی ایسا گناہ ہوجائے کہ اس کا اثر اس تک محدود ہے تو وہ اپنے ربّ حقیقی اﷲ تعالیٰ کے سامنے رو کر اس سے اپنا گناہ معاف کراسکتا ہے ، لیکن اگر اس کی حرکت سے کسی دوسرے کو کوئی رنج پہنچا ہے یا اس کے احساسات کو ٹھیس پہنچی ہے یا شہرت پر دھبہ لگا ہے تو اب معاملہ زیادہ سنگین ہے، ایسے جرم کی معافی کے لئے اسے اس شخص سے بھی معاف کرانا پڑے گا جس کو اس سے رنج پہنچا ہے اور اگر اس سے معافی حاصل کرنے کی صورت نہیں رہی تو اس کے لئے دعائے مغفرت کرے اور اﷲ تعالیٰ سے امید مغفرت رکھے کہ وہ غفور الرحیم ہے۔ اور اﷲ تعالیٰ سے عفو و درگزر اورمعافی کی صورت پیدا کرنے کی التجاء کر تے رہنا چاہیے۔ اسلام ہمیں جو اخلاق سکھاتا ہے اس کی بنیاد اس پر ہے کہ کسی کو کسی سے رنج اور دکھ نہ پہنچے، کوئی کسی کا ذرا سا بھی نقصان نہ کرے بلکہ جہاں تک ہوسکے دوسروں کو فائدہ اور آرام پہنچانے کے لیے معاون بنے۔ آج کل جہاں دو چار لوگ اکٹھے ہوتے ہی اور بات چیت کا سلسلہ چھیڑتے ہیں تو کام کی باتیں بہت کم ہوتی ہیں زیادہ تر دوسرے لوگوں کی بابت چہ میگوئیاں ہوتی ہیں ، اور اس میں زیادہ تر ان کی برائیاں کی جاتی ہیں ۔ پیٹھ پیچھے برائی کرنے والوں کو قرآن مجید میں اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے والا بتایا گیا ہے۔ اس سے سمجھ لینا چاہئے کہ دوسروں کی پیٹھ پیچھے ان کی برائی کرنے والے اپنے آپ کا نقصان کرتے ہیں، برائی کرنے والے ایسے لوگوں کو اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے، اﷲ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطاء فرمائے ، آمین ۔

Rana Aijaz Hussain
About the Author: Rana Aijaz Hussain Read More Articles by Rana Aijaz Hussain: 995 Articles with 720529 views Journalist and Columnist.. View More