اسلامی ممالک میں دہشت گردی کا بیج بونے والے دشمنان
اسلام خود اس وقت پریشان کن صورتحال سے دوچار ہیں۔اپنی معیشت کے استحکام
کیلئے پرانے خطرناک ہتھیاروں کی نکاسی کے ذریعہ اسلامی ممالک کو جنگ زدہ
صورتحال سے دوچار کرکے اربوں ڈالرز حاصل کررہے ہیں ۔ سعودی عرب نے روس سے
دنیا کے خطرناک ترین طیارہ شکن نظام ’’S400‘‘ کی خریداری کا معاہدہ کیا۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے روس کا دو روزہ دورہ کیا
جسے تاریخی دورہ قرار دیا جارہا ہے اس دورے کے موقع دونوں سربراہوں شاہ
سلمان بن عبدالعزیز اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کے درمیان خوشگوار بات چیت
ہوئی اور کئی دو طرفہ معاہدے بھی طے کئے گئے۔ روس کی وزارت خارجہ کے زیر
انتظام ماسکو اسٹیٹ انسٹی ٹیوٹ برائے بین الاقوامی تعلقات نے سعودی
فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی۔ یہ
ڈگری شاہ سلمان کو سعودی عرب اور روس کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو مزید
مضبوط بنانے اور عالمی سطح پر استحکام کیلئے کردار کے اعتراف میں دی
گئی۔شاہ سلمان نے روسی وزیر اعظم دمتری میدویدیف سے بھی ملاقات کی۔ ذرائع
ابلاغ کے مطابق ادھر امریکہ نے بھی سعودی عرب کو تھاڈ میزائل دفاعی سسٹم کی
ممکنہ فروخت کی منظوری دے دی ہے جس کی قیمت اندازاً15ارب ڈالر بتائی گئی ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ عالمی طاقتیں ایک طرف جوہری ہتھیاروں اور میزائلس
بنانے سے روکنے کیلئے بعض ممالک پر زور ڈال رہے ہیں اور انکے خلاف تحدیدات
عائد کررہے ہیں تو دوسری جانب اپنے خطرناک ایٹمی ہتھیار اربوں ڈالرز کے عوض
فروخت کرکے دنیا کو سنگین صورتحال سے دوچار کررہے ہیں۔
دنیا اس وقت واقعی تیسری عالمی جنگ کے ڈھانے پر کھڑی ہے۔ جوہری ہتھیاروں
اور میزائیلوں سے لیس عالمی طاقیتں نہیں چاہتے کہ ان کے سامنے دوسرے ممالک
جوہری ہتھیار اور میزائیل پروگراموں کو قطعیت دیں ۔ شمالی کوریا کے
نیوکلیئر میزائل سے امریکہ اور عالمی طاقتیں خوفزدہ ہیں اور اس پر پابندی
لگاکر شمالی کوریا کو مزید تجربات سے روکنے کی کوشش کی گئی لیکن اس میں
عالمی طاقتوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔شمالی کوریا کے صدر کم جونگ اُن
نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دی گئی دھمکی کے ردّ عمل میں شمالی
کوریا کی حکمراں جماعت کی سینٹرل کمیٹی رولنگ ورکنگ پارٹی عہدیداروں سے
خطاب کرتے ہوئے کہا کہشمالی کوریا کے نیوکلیئرمیزائل امریکہ کی سرزمین کو
تباہ کرنے کی صلاحیت میں اہم پیشرفت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شمالی کوریا کے
نیوکلیئر ہتھیار ان کے ملک کی حاکمیت اور تحفظ کے طاقتور محافظ ہیں۔ واضح
رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر اپنے بیان میں کہا تھا کہ
شمالی کوریا سے کسی قسم کے مذاکرات کرنا بیکار ہیں اور اس سے نمٹنے کیلئے
ایک ہی چیز کام کرے گی تاہم صدر ٹرمپ نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ ان کا
اشارہ کس چیز کی جانب ہے لیکن اندازہ یہی لگایا جا رہا ہے کہ امریکی صدر نے
ملٹری ایکشن کی جانب اشارہ کیا ہے کیونکہ اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی
کوریاکو پوری طرح تباہ کردینے کی دھمکی دی ہے۔ ادھر ایران نے بھی اب امریکہ
کوکڑارے جواب دینے لگا ہے کیونکہ امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ ایران پر تنقید کرتے
ہوئے کہا کہ ایران عالمی طاقتوں سے کئے گئے سمجھوتے سے انحراف کررہا ہے،
صدر امریکہ نے کہا کہ ہم ایرانی اقدامات کو کسی صورت قبول نہیں کرینگے۔
انہوں نے ایران کو پوری دنیا میں دہشت گرد درآمد کرنے والا ملک قرار دیا
ہے۔مشرق وسطیٰ میں دہشت گردانہ کارروائیوں کے لئے بھی ایران کو موردِ الزام
ٹھہرایا ہے۔ سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے بھی ایران کو دنیا بھر میں
دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والا سب سے بڑا ملک قرار دیا۔انہوں نے ایران پر
زور دیا کہ وہ خطے کے ممالک میں استحکام کو متزلزل کرنے اور دہشت گردی کی
سرپرستی بند کرنا ہوگی۔عادل الجبیر کا کہنا تھا کہ ایران کی جانب دہشت گردی
کی سرپرستی کی وجہ سے اقوام متحدہ کے عتاب کا شکار ہے ۔ایران بیلسٹک میزائل
سے متعلق قرار دادوں کی خلاف ورزی کررہا ہے جبکہ عراق ، شام، یمن ، خلیجی
ممالک ، پاکستان افغانسانت اور لبنان جیسے ملکوں میں مداخلت کرکے اپنا اثرو
رسوخ بڑھنے کی کوشش کررہا ہے۔ اگر ایران عالمی برادری کا موثر رکن بننا
چاہتا ہے تو اسے مذکورہ سرگرمیوں سے دستبردار ہونا چاہیے۔ اب دیکھنا ہے کہ
ایران سعودی وزیرخارجہ کے بیان کو اہمیت دیتا ہے یا نہیں۔
امن کے خواہشمند ۔ لیکن ۰۰۰
ایران کے صدر حسن روحانی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تعلق سے کہاکہ ان کے
جیسے 10 ڈونلڈ ٹرمپ بھی مل جائیں تو ایران کے مفادات کو کسی قسم کا نقصان
نہیں پہنچا سکتے۔ انہوں نے کہا کہ وہ امن کے خواہشمند ہیں لیکن اسکے ساتھ
غیرمعمولی صورتحال سے نمٹنے کیلئے بھی تیار ہیں تہران یونیورسٹی میں تعلیمی
سال کے آغازکی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدرروحانی کا کہنا تھا کہ 2015 میں
6 عالمی طاقتوں کے ساتھ طے پانے والا جوہری معاہدے جسے جوائنٹ کمپری ہنسیو
پلان آف ایکشن (JCPOA) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کے ثمرات سے ایران کو
کسی بھی صورت محروم نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہاں تک کہ
ایک امریکی صدر کے ساتھ 10 مزید ڈونلڈ ٹرمپ مل جائیں تو بھی یہ ممکن نہیں
کہ ایران کو جوہری معاہدے کے ثمرات سے محروم رکھ کے کسی قسم کا نقصان
پہنچایا جائے۔حسن روحانی نے ایران کی بہترین پالیسیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے
کہا کہ معاہدے پر مذاکرات کے دوران، تہران نے اپنی سیاسی طاقت اور اپنے
سفارت کاروں کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے عالمی طاقتوں کے ساتھ
کامیاب مذاکرات کیے۔ایرانی صدر کا یہ بھی کہنا تھا کہ عالمی طاقتوں کے ساتھ
مذاکرات میں اس بات کو باور کرایا گیا تھا کہ ہم امن کے خواہشمند ہیں لیکن
اس کے ساتھ ساتھ کسی بھی قسم کی غیرمعمولی صورتحال سے نمٹنے کیلئے بھی تیار
ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے نتیجے میں ایران کو نا ختم ہونے والا
سیاسی استحکام حاصل ہوا ہے۔حسن روحانی کا امریکہ کو خبردار کرتے ہوئے کہنا
تھا کہ وہ فریق جو معاہدے میں تعاون کرتا ہے اس کو کچھ نقصان نہیں ہوتا،
البتہ جو معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ عزت و وقار سے محروم ہو جاتا ہے۔
ادھر پاکستان کے وزیر اعظم شاید خاقان عباسی نے بھی امریکہ پر انحصار کے دن
ختم ہونے کی بات کہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ دن گئے جب پاکستان عسکری اور
دیگر ضروریات کیلئے امریکہ پر انحصار کرتا تھا۔پاکستانی وزیر اعظم نے سعودی
اخبار عرب نیوز کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ پاکستان نے چینی اور
یوروپی ہتھیار بھی اسلحہ خانہ میں شامل کئے ہیں جبکہ حال ہی میں پہلی بار
روسی جنگی ہیلی کاپٹر بیڑے میں شامل کئے گئے ہیں۔ خاقان عباسی کا دہشت گردی
کے تعلق سے کہنا تھا کہ ہم کسی دہشت گرد کو پناہ نہیں دیتے ۔جبکہ عالمی سطح
پر پاکستان پر الزام ہیکہ وہ دہشت گردوں کو پناہ دیتا ہے۔
ترکی نے بھی امریکی شہریوں کیلئے ویزا سروسز معطل کردی
ترکی نے بھی اب امریکی شہریوں کو ویزا جاری نہ کرنے کا اعلان کیا ہے جس کی
وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات میں بگاڑ پیدا ہوگئی ہے۔
سفارتی تعلقات میں بگاڑ اس وقت پیدا ہوئی جب امریکہ نے ترکی میں اپنے
سفارتخانے اور قونصل خانوں سے ویزوں کا اجرا معطل کیا جس کے بعد ترکی نے
بھی امریکی شہریوں کے لیے ویزوں کا اجرا معطل کردیا ہے جس کے نتیجے میں
دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تنازع پیدا ہوگیا ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق
ترکی میں موجود امریکی سفارتی مشن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ
گذشتہ ہفتے اس کے ایک ملازم کی گرفتاری کے بعد سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر
ترک شہریوں کے لیے ویزا سروس معطل کی جارہی ہیں۔ اس اقدام کے 24 گھنٹے کے
اندر اندر واشنگٹن میں ترک سفارت خانے نے بھی امریکی شہریوں کیلئے ویزا
سروسز معطل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اسے اپنے مشن اور عملے کی
سلامتی کیلئے امریکی حکومت کے عزم کا ازسر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔قبل
ازیں انقرہ میں امریکی سفارتخانے کے بیان میں کہا گیا کہ ترکی میں پیش آنے
والے حالیہ واقعہ نے امریکی سفارتی عملے کے تحفظ کے حوالے سے ترکی کے عزائم
پر سوالات کھڑے کرد ئے ہیں اور امریکہ اس کا از سر نو جائزہ لے رہا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ اس دوران ترکی میں امریکی سفارتخانے اور قونصل
خانوں میں لوگوں کی آمد کو محدود کرنے کے لیے فوری طور پر غیر معینہ مدت
کیلئے ویزا سروسز معطل کردی گئی ہیں۔ گزشتہ ہفتے ترک حکام نے استنبول سے
امریکی قونصل خانے کے ایک ملازم کو امریکہ میں خودساختہ جلاوطنی کی زندگی
گزارنے والے ترک مبلغ اسلام فتح اﷲ گولن سے تعلقات کے شبہ میں حراست میں لے
لیا تھا۔ امریکہ نے اس گرفتاری پر مذمت کرتے ہوئے ترکی کے اس الزام کو بے
بنیاد اور تعلقات کیلئے نقصان دہ قرار دیا تھا۔ترکی کے سرکاری میڈیا نے
بتایا کہ گرفتار ہونے والا شخص ترک شہری ہے جسے جاسوسی اور آئین کو نقصان
پہنچانے کے الزامات پر حراست میں لیا گیا۔ ترکی جولائی 2016 میں ہونے والی
ناکام فوجی بغاوت کا الزام فتح اﷲ گولن پر لگاتا ہے اور امریکہ سے مطالبہ
کرتا رہا ہے کہ وہ فتح اﷲ گولن کو ترکی کے حوالے کرے تاہم امریکہ اس مطالبے
کو ماننے سے انکارکرتا ہے۔اس طرح اب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کی
وجہ سے انکے دور حکومت میں کئی ممالک کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ پیدا ہوتا
جارہا ہے ۔ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے فیصلوں کے خلاف امریکی سینیٹ کی خارجہ امور
کی کمیٹی کے ریپبلکن چیئرمین باب کروکرکا کہنا ہیکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ
نے ملک کو تیسری جنگِ عظیم کے راستے پر ڈال دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ صدر
ٹرمپ صدارت کے عہدے کو کسی ’’ریئلیٹی شو‘‘ کی طرح استعمال کررہے ہیں۔باب
کروکر نے نیو یارک ٹائمز کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں صدر کے رویے پر تشویش
کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں ڈونلڈ ٹرمپ کو اندازہ ہی نہیں کہ
جب امریکی صدر کچھ کہتا یا کچھ کرتا ہے تو اس کے اثرات پوری دنیامیں دکھائی
دیتے ہیں۔انکا کہنا تھا کہ صدر جس طرح جوہری ہتھیاروں سے لیس شمالی کوریا
کو للکارتے ہیں وہ امریکہ کو تیسری جنگ عظیم کی جانب دھکیل سکتا ہے۔
روہنگیا مہاجرین کیلئے بنگلہ دیش کا نیا فیصلہ۰۰۰
بنگلا دیش میں روہنگیا مسلمانوں کی تعداد4 لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے جب کہ
بنگلہ دیشی حکومت روہنگیا مہاجرین کے لئے ایسا کیمپ قائم کرنا چاہتی ہے جس
میں 8لاکھ سے زائد مہاجرین رہ سکیں گے۔میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پرظلم
اور بربریت جاری ہے،لاکھوں روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش میں پناہ حاصل کرچکے
ہیں جب کہ ہزاروں پناہ کی تلاش میں کھلے سمندر میں ڈوب کر جاں بحق ہوچکے
ہیں۔پناہ گزینوں کی اتنی بڑی تعداد کے باعث بنگلہ دیش کی حکومت نے دنیا کا
سب سے بڑامہاجر کیمپ بنانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ڈھاکہ میں اقوام متحدہ کے
ریزیڈنٹ کو آرڈی نیٹر رابرٹ واٹکنز نے میڈیاسے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ
بنگلہ دیش کی حکومت کو اس منصوبے کے بجائے مہاجرین کے نئے کیمپ بنانا
چاہئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب آپ کسی چھوٹے سے علاقے میں بہت بڑی تعداد میں
ایسے انسانوں کو مل کر رہنے پر مجبور کر دیتے ہیں جن کا جسمانی مدافعتی
نظام بہت کمزور ہو چکا ہو تو یہ اقدام ان کے لئے خطرناک ہوتا ہے جب کہ اس
کے نتیجے میں خوفناک حد تک زیادہ انسانی جانیں ضائع ہو سکتی ہیں۔ دوسری طرف
انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائگریشن کے مطابق اگر بنگلہ دیشی حکومت نے اپنے
منصوبے کے مطابق کوکس بازار میں یہ بہت وسیع و عریض کیمپ قائم کر دیا تو یہ
دنیا کا سب سے بڑا مہاجر کیمپ ہو گا۔اقوام متحدہ کے مطابق اب تک یوگنڈا میں
بیدی بیدی(BIDI BIDI) کا کیمپ اور کینیا میں داداب کا کیمپ دونوں ہی عالمی
سطح پر مہاجرین کے سب سے بڑے کمیپ شمار ہوتے ہیں، ان میں سے ہر ایک میں
قریب تین لاکھ مہاجرین کے رہنے کی گنجائش ہے۔
سعودی عرب میں معاشی بدحالی کیوں۰۰۰؟
ایک طرف سعودی عرب اربوں ڈالرز کے ہتھیار دشمنانِ اسلام سے خرید رہا ہے تو
دوسری جانب ملک کے اندرونی حالات خراب ہوتے جارہے ہیں ۔عالمی مالیاتی ادارہ
آئی ایم ایف نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ رواں سال سعودی عرب کی معاشی
ترقی کی رفتار صفر رہے گی، بیروزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا ہے، معیشت
بدستور عدم استحکام کا شکار ہے جبکہ معاشی اصلاحات کے باوجود سعودی عرب کو
ابھی کئی سخت برسوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق سعودی
عرب میں معاشی اصلاحات کے باوجود رواں سال بیروزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا
جبکہ معیشت بدستور عدم استحکام کا شکار ہے ۔ تاہم اس سال سعودی عرب کے بجٹ
خسارے میں کمی متوقع ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ سعودی عرب کو ابھی کئی سخت برسوں
کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ ملک میں 25 سے 29 سال کے افراد میں
بیروزگاری زیادہ ہے جو کہ سعودی آبادی کے نصف پر مشتمل ہیں۔ سعودی عرب نے
اپنے شہریوں کو روزگار سے مربوط کرنے کے لئے لاکھوں تارکین وطنوں کو انکے
ملک واپس ہونے پر مجبور کیا۔ بڑی بڑی کمپنیاں اپنے ملازمین کو کئی کئی ماہ
کے تنخواہوں سے محروم کیا اور ان تارکین وطنوں کو مجبوراً اپنے ملک واپس
ہونا پڑا ۔ دنیا میں امن و سلامتی کا پیغام دینے والے ، غریبوں اور ظلم و
زیادتی کا شکار ، آفات ارضی و سماوی میں گرفتار ممالک کی امداد کرنے والے
شاہ سلمان نے بھی ان تارکین وطنوں کو روزگار سے محروم کئے جانے کو نظر
انداز کیا اور اپنی نئی نئی پالیسیوں کے ذریعہ مزید لاکھوں روزگار سے مربوط
تارکین وطنوں کو روزگار سے محروم کررہے ہیں۔
*** |