بدل رہا ہے ڈیرہ اسماعیل خان

مر دم شماری 2017ء کے عبوری اعداد وشمار آچکے ہیں اور میں اُ س کا جائزہ لے رہا تھا کہ خیبر پختوانخواہ کے انتہائی جنو بی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی بڑھتی ہوئی آ بادی پر نظر پڑی تو حیران ہو گیا کہ آ بادی میں اتنی تیزی سے اضافہ کیسے ہو گیا؟ ڈیرہ اسماعیل خان پرُ امن اور محبت کرنے والے سرائیکیوں کا شہر ہے۔ 1998ء کی مردم شماری کے مطا بق اس کی کل آبادی 852995 تھی اور اب 2017ء کے عبوری اعدا د و شمار کے مطا بق 1627132 ہو چکی ہے۔ اس کی اوسطَ سالانہ آ بادی میں اضافے کی شرح 3.45فیصد ہے جو کہ پا کستان کی شرح 2.40فیصد اور خیبرپختو نخواہ کی شرح 2.89فیصد ، دونوں سے بہت زیا دہ ہے ۔ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں با شعور لو گ رہتے ہیں اور خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں سے آگہی رکتھے ہیں پھر یہ اتنی آبادی کہاں سے بڑھ گئی ؟ اس سوال کا جواب ڈھو نڈنے کے لیے میں نے تھوڑی سی تحقیق کی۔ مختلف ذرائع سے معلومات لینے پر پتہ چلا کہ جو آئی ڈی پیز شمالی اور جنوبی وزیرستان سے ڈیرہ اسماعیل خان میں عارضی طور پر سکون پذیر ہیں اُ ن کو بھی ضلع کی آ بادی میں شامل کر دیا گیا ہے، جس سے غیر معمولی آ بادی کے اضافے کی شرح ہوگی ۔ یہ معلوم ہونے پرا یک طر ف تو دل کی تسلی ہوئی کہ اگر آئی ڈی پیز کو کل آ بادی سے منفی کرکے دیکھا جائے گا تو ڈیرہ اسماعیل خان کی اوسطَ آبادی کی شرح پا کستان کے باقی علاقوں جیسے ہو گی لیکن ایک تشویش یہ ہوئی کہ کہیں ڈیرہ اسماعیل خان کی اکثریتی سرائیکی آبادی اقلیت میں تبدیل نہ ہوجائے۔ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی اکثریتی آ با دی کی مادری زبان سرائیکی ہے۔ 1998ء کی مردم شماری کے مطا بق ضلع کے 72.5 فیصد لوگوں کی مادری زبان سرائیکی ہے۔ اس شہر کے سرائیکی لو گ با بر سے آنے والے لو گوں کی ہمیشہ خو ش آ مد ید کہتے ہیں۔ اُ ن سے پیا ر کرتے ہیں اور اُن کے ساتھ پُر امن طریقے سے مل جل کررہتے ہیں۔ صدیوں سے ٹانک اور وزیرستان کے لو گوں کے لیے ڈیرہ اسماعیل خان تجارت کا گیٹ وے رہا ہے۔ اسی لیے شہر کے ایک دروانے کا نام پا وند ہ والا دروازہ ہے۔ پا وندے اُن پشتونوں کو کہا جا تا ہےجو کہ وزیرستان کے علا قے سے تجارت کی غرض سے آ تے تھے۔ اس شہر کے باسیوں نے آنے والے تما م مہمانوں کو پیا ر اور محبت سے رکھا ۔ مو جو دہ دور میں بھی ڈیرہ اسماعیل خان میں وزیر ، مسعو د ، بٹنی، مروت اور دیگر پشتون قبائل بڑی تعداد میں آباد ہیں اور سب لو گ محبت اور امن سے رہ رہے ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے سماجی، ثقا فتی ، معاشی اور مذہبی حالات اُس وقت تیزی سے تبدیل ہونا شروع ہوئے جب پا کستانی افواج نے پہلے جنو بی اور بعد میں شمالی وزیر ستان میں آ پریشن شروع کیا۔ 19 جون 2009ء کو پاکستانی افواج نے جنو بی وزیرستان میں تحریک طالبان پا کستان کے خلاف راہ نجا ت نا می آ پریشن شروع کیا ۔ اس آپریشن کے دوران بڑی تعداد میں لو گ ڈیرہ اسماعیل خان منتقل ہوئے ۔ آئی ایس پی آر کی 20 اکتوبر2009ء کی پر یس ریلیز کے مطا بق آپریشن شروع ہونے سے پہلے 80000اور بعد میں 41289افرادنے آئی ڈی پیز کیمپ میں اپنے آپ کو رجسڑ کرایا۔ غیر رجسڑافرا د اس کے علا وہ ہوں گے۔ 15جون 2014ء کو ایک دفعہ پھر پاکستانی فوج نے شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف ضر ب عضب کے نام سے آپریشن شروع کیا۔ 14جولائی 2014ء کے ایکسپریس ٹر یبیون کے مطابق اس آپریشن کے نتیجے میں928859آئی ڈی پیز رجسڑ ہوئے جو کہ بنوں ، لکی مروت اور ڈیرہ اسماعیل خان میں آباد ہوئے۔ ان تما م آئی ڈی پیز کے ساتھ ڈیرہ اسماعیل خان کے باسیوں نے محبت اور بھائی چارے کا ثبوت دیا اور ان کی ہر ممکن مد د کی۔ خوراک ، کپڑے اور دوائیاں بڑی مقدار میں ان کے کیمپوں میں مہیا کیں۔ جو ں جوں وقت گزرتا گیا ڈیرہ اسماعیل خان کی سرائیکی آ بادی پر اُ س کے سماجی ، معاشی ، لسانی، سیاسی اور مذہبی اثرات نمایاں ہونے لگے۔ شہر کے دانشوروں کو اس بات کی تشویش ہے کہ اس پر امن علاقے کی اپنی ثقافت کہیں گم نہ ہو جائے ۔ یہ سارے خدشات شہر کے ادبی، ثقافتی اور سیاسی حلقوں کا موضو ع بحث ہیں۔ اب مردم شماری 2017ء کو دیکھ کریو ں لگتا ہے کہ یہاں کی سرائیکی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوئی سازش ہو رہی ہے۔ اگر لا کھوں پشتو نوں کوا یک شہر میں آباد کیاجائے اور پھر اُن کو مردم شماری میں شمار کر کے اُسی شہر کا حصہ بنا دیا جائے گاتو سرائیکی لو گو ں کا اندیشہ یقین میں بدل سکتاہے۔ مزید یہ کہ یہاں پر رہنے والے فقہ جعفریہ کے لوگوں کو شہر چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ یہ سرائیکی لو گ صدیوں سے ڈیرہ اسماعیل خان میں آ باد تھے جو اپنا شہر چھوڑ کر بھکر، کوئلہ جام اور ملتان تک آ باد ہیں ۔ ان تما م لو گو ں کو جانی و مالی تحفظ فراہم کیا جائے اور واپس اپنے شہر میں آ باد کیا جائے۔ اگر مردم شماری 2017ء کی دوبارہ نظر ثانی نہ کی گئی تو اس کے سیا سی اثرات بھی مرتب ہوں گے۔ مقامی لو گوں کا سیاست میں مقام بنا نا اور مشکل ہو جائے گا۔ وفاقی اور صوبائی حکو متوں کواس سلسلے میں اہم اقدام کرنے ہوں گے۔ مردم شماری 2017ء کی نظر ثانی کر کے تما م شمالی اور جنو بی وزیرستان سے آئے ہوئے لوگوں کو اُ ن کو اپنے علا قوں میں شماری کیا جائے۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے باہر گئی ہوئی فقہ جعفریہ کی آ بادی کو ڈیرہ اسماعیل خان میں شمار کیا جائے ۔ ڈیرہ اسماعیل خان کی سرائیکی آبادی کا یہ حق ہے جو کہ اُ س کو اقوام متحدہ نے انسانی حقو ق کے عالمی چارٹر نے دیا ہے کہ اُ ن کی ثقا فت کو تحفظ فراہم کیا جائے تاکہ ڈیرہ اسماعیل خان کی مقامی آبادی اپنی مرضی کی زند گی گذ ار سکے۔

Nazir Ahmad
About the Author: Nazir Ahmad Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.